اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف سینئر صحافی و کالم نگار جاوید چودھری نے اپنے کالم میں کہا ہے کہ میاں نواز شریف نے 28مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کئے‘ پاکستان کو دھماکوں کے دوران بل کلنٹن اور شاہ عبداللہ دونوں کی حمایت حاصل تھی‘ بل کلنٹن نے پاکستان کو قانونی طور پر دھماکوں سے روکنے کی کوشش کی لیکن انہیں ذاتی طور پر کہا ’’میں آپ کی مجبوری سمجھتا ہوں‘‘ یہ ذاتی تھپکی پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا گئی‘ شہزادہ عبداللہ نے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا‘
یہ پاکستان کو تین سال تک مفت پٹرول بھی دیتے رہے اور مالی امداد بھی‘ جنرل مشرف نے1999ء میں حکومت پر قبضہ کر لیا‘ بل کلنٹن اور شہزادہ عبداللہ دونوں نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہو گئے‘ سفارت کاری ہوئی‘ لبنان کی الحریری فیملی کو سامنے لایا گیا‘ میاں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ معاہدہ کیا اور یہ 10دسمبر 2000ء کو خاندان سمیت جدہ شفٹ ہو گئے‘ شہزادہ عبداللہ نے سعودی عرب میں آؤٹ آف دی وے شریف فیملی کی مدد کی‘ قیام کیلئے سرور پیلس دیا‘ سٹیل مل کیلئے مفت زمین دی اور لندن میں کاروبار کیلئے سرمایہ فراہم کیا‘ شریف فیملی نے شہزادہ عبداللہ کی مدد سے سعودی عرب کی سب سے بڑی سٹیل مل لگائی اور یہ چند ماہ میں ارب پتی ہو گئے‘ میاں نواز شریف جدہ میں بیٹھ کر لندن میں پراپرٹی کا کاروبار بھی کرنے لگے‘ یہ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون پر سودا کرتے‘ رقم سعودی عرب سے بھجواتے‘ پراپرٹی خریدتے‘ مرمت کراتے اور دوبارہ فروخت کر دیتے‘حسن نواز جدہ سے لندن شفٹ ہوئے تو پراپرٹی کا کاروبار انہوں نے سنبھال لیا‘ شاہ فہد یکم اگست 2005ء کو انتقال کر گئے جس کے بعد شہزادہ عبداللہ باقاعدہ بادشاہ بن گئے‘ میاں نواز شریف مزید تگڑے ہو گئے‘ یہ شاہ عبداللہ کی مدد سے 2006ء میں لندن شفٹ ہو گئے‘ شاہ عبداللہ نے این آر او کے بعد2007ء میں میاں نواز شریف کو پاکستان بھی بھجوا دیا‘ مشرف نواز شریف کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے لیکن شاہ عبداللہ نے جنرل مشرف
کو سعودی عرب بلا کر حکم دیا ’’اگر بے نظیر پاکستان میں ہیں تو نواز شریف بھی ضرور ہوں گے‘‘ یوں میاں نواز شریف پاکستان آ گئے جبکہ حسین نواز جدہ اور حسن نواز لندن میں کاروبار کرتے رہے۔ سینئر صحافی جاوید چودھری نے اپنے کالم میں لکھا کہ بکر بن لادن سعودی عرب کی سب سے بڑی تعمیراتی کمپنی لادن گروپ کے سربراہ تھے‘ یہ اسامہ بن لادن کے بھائی بھی ہیں اور شہزادہ عبدالعزیز بن فہد شاہ عبداللہ کا قریبی ساتھی اور مشیر تھا‘ یہ تمام شہزادے اپنے والد شاہ عبداللہ کی وجہ سے میاں نواز شریف کا بہت احترام کرتے تھے‘
یہ بھی شنید ہے میاں نواز شریف کی ان کے ساتھ کاروباری شراکت بھی تھی لیکن یہ بات کنفرم نہیں ہو سکی‘ میاں نواز شریف 2013ء میں تیسری بار وزیراعظم بن گئے یوں شاہ عبداللہ اور نواز شریف کا بانڈ مزید مضبوط ہو گیالیکن بدقسمتی سے 23 جنوری 2015ء کو شاہ عبداللہ کا انتقال ہو گیا اور شہزادہ سلیمان بادشاہ بن گئے‘ شاہ سلیمان کے بعد شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز ولی عہد تھے لیکن شاہ سلیمان نے اقتدار سنبھالتے ہی شاہی خاندان اور کاروبار سلطنت میں بڑی بڑی تبدیلیاں کر دیں‘
انہوں نے اپنے29 سالہ صاحبزادے شہزادہ محمد بن سلمان کوسعودی عرب کاوزیر دفاع بنا دیا‘یہ دنیا کے نوجوان ترین وزیر دفاع تھے‘ یہ بعد ازاں21 جون 2017کو مقرن بن عبدالعزیز کی جگہ ولی عہد بھی نامزد کر دیئے گئے اور یوں سعودی عرب میں ہر چیز تلپٹ ہو گئی۔شہزادہ محمد بن سلمان پڑھے لکھے‘ ماڈرن اور اصلاحات کے داعی ہیں‘ یہ شاہ سلیمان کی تیسری اہلیہ کے بطن سے ہیں‘ یہ خواتین کو حقوق دینے کے حامی ہیں‘یہ سعودی عرب کو ’’تیل سے آزاد معیشت‘‘ بنانا چاہتے ہیں‘ یہ مضبوط دفاع کے حق میں بھی ہیں اور یہ کرپشن کے خلاف بھی ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں سعودی عرب تیل کی بنیاد پر زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گا‘
ہمیں انڈسٹری‘ سیاحت اور سٹاک ایکسچینج پر توجہ دینا ہو گی لیکن یہ تمام شعبے اس وقت تک ترقی نہیں کر سکیں گے جب تک ہم شاہی خاندان سے کرپشن ختم نہیں کرتے چنانچہ شہزادہ محمد بن سلمان نے 5 نومبر کو اینٹی کرپشن کمیٹی بنائی اورچندگھنٹے میں سعودی عرب کے 38 طاقتور ترین لوگ گرفتار کر لئے‘ ان میں 11شہزادے بھی شامل تھے‘چار شہزادے مرحوم بادشاہ شاہ عبداللہ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے‘ یہ شہزادہ متعب‘ شہزادہ ترکی‘ شہزادہ میشال اور شہزادہ فہد بن عبداللہ ہیں جبکہ شاہ عبداللہ کے قریبی ساتھی صالح کامل‘ عادل الفقہ‘ شہزادہ عبدالعزیز بن فہد اور بکر بن لادن بھی گرفتار شدگان میں شامل ہیں یوں سابق شاہ کے تمام اہم ترین مہرے کرپشن کے الزام میں گرفتار ہو گئے‘
شہزادہ متعب نے حکومت کے ساتھ پلی بارگین کر لی‘حکومت کو ایک ارب ڈالر ادا کئے اور یہ رہا ہو گئے‘سعود ی عرب میں یہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں شہزادہ متعب اور شہزادہ میشال نے اپنے درجن بھر بزنس پارٹنرز کے نام حکومت کو دے دیئے‘ ان پارٹنرز میں سعد الحریری‘ میاں نواز شریف اور خالدہ ضیائبھی شامل ہیں‘ سعودی میڈیا کے مطابق یہ لوگ شاہی خاندان کیلئے منی لانڈرنگ کرتے رہے‘ حکومت کو ایک اور شہزادہ منصور بن مقرن بھی مطلوب تھا‘ یہ صوبہ اسیر کے گورنر تھے لیکن یہ 5نومبرکو یمن کی سرحد کے قریب ہیلی کاپٹر کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ہم اب پرنس محمد اور میاں نواز شریف کے تعلقات کی طرف آتے ہیں‘
شاہ سلیمان اور ولی عہد پرنس محمد بن سلمان میاں نواز شریف سے خوش نہیں ہیں‘ ناراضگی کی دو بڑی وجوہات ہیں‘پرنس محمد نے وزارت دفاع کا قلم دان سنبھالتے ہی فروری 2015ء میں یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف فوج کشی کا فیصلہ کیا‘ شاہ سلیمان نے وزیراعظم میاں نواز شریف کو چار مارچ 2015ء کو ریاض بلایا اور فوجی مددکی درخواست کی‘ میاں نواز شریف نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے مشورہ کیا‘ آرمی چیف نے ’’اوکے‘‘ کر دیا‘ میاں نواز شریف نے مدد کی حامی بھرلی‘ شاہ سلیمان مطمئن ہو گئے لیکن بعد ازاں آرمی کی تجزیاتی ٹیم نے تجزیہ کیا اور یمن کو پاکستان کیلئے واٹر لو قرار دے دیا‘
جنرل راحیل شریف دو بریگیڈیئرزکو لے کر وزیراعظم ہاؤس پہنچ گئے‘ میاں نواز شریف کو پریذینٹیشن دی گئی اور سعودی عرب سے معذرت کا مشورہ دیا گیا‘ نواز شریف اور جنرل راحیل شریف دونوں نے یہ معاملہ پارلیمنٹ پر ڈال کر جان بچانے کا فیصلہ کیا‘ حکومت یمن ایشو کو پارلیمنٹ میں لے گئی اور پارلیمنٹ نے 10 اپریل 2015ء کو یمن کے معاملے میں نیوٹرل رہنے کی قرارداد پاس کر دی‘ سعودی سفارت خانے نے پارلیمنٹ کی تقریروں کا ترجمہ کرایا اور یہ تمام تراجم ریاض بھجوا دیئے‘ سینئر صحافی و کالم نگار نے اپنے کالم میں مزید لکھا کہ شاہ سلیمان اور شہزادہ محمد اس وعدہ خلافی پر نواز شریف سے ناراض ہو گئے‘ دوسری وجہ قطر کا شاہی خاندان بنا‘ سعودی عرب نے 5 جون 2017 کو قطر پر پابندیاں لگا دیں‘ میاں نواز شریف اس برے وقت میں قطر کے شاہی خاندان کے ساتھ کھڑے ہوگئے‘ شہزادہ حماد بن جاسم 29 نومبر کو 13 رکنی وفد کے ساتھ میاں نواز شریف سے ملاقات کے لیے لاہور بھی آئے، یہ دورہ اونٹ کی کمر پر تنکا ثابت ہوا اور سعودی عرب نے شریف خاندان کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات منقطع کر دیے۔