خواتین وحضرات ۔۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کے وکیل ہوتے ہیں‘ ہم اپنی غلطی کو جسٹی فائی کرنے کیلئے جھوٹے سچے سینکڑوں دلائل دے دیں گے ۔۔لیکن جب ہمارے سامنے کسی دوسرے کی غلطی آتی ہے تو ہم فوراً جج بن جاتے ہیں‘ ہم (اس) پر فیصلہ صادر کر دیتے ہیں‘ میاں نواز شریف بھی آج کل یہی کر رہے ہیں ہم اگر میاں صاحب کے دلائل مان لیں تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے جب میاں نواز شریف کی مدد سے یوسف رضا گیلانی‘ دوبار محترمہ بے نظیر بھٹو‘
غلام مصطفیٰ جتوئی اور محمد خان جونیجو کو ہٹایا گیا تھا تو کیا (اس) وقت ملک کا ستیا ناس نہیں ہوا تھا‘ کیا (اس) وقت غیر یقینی صورتحال اور انتشار پیدا نہیں ہوا تھا اور کیا (اس) وقت (ملک) نہیں ۔۔ہلا تھا‘ اگر ماضی میں منتخب وزراء اعظم فارغ ہوتے رہے ہیں تو ۔۔اس کارخیر میں میاں نواز شریف کا حصہ بھی ہوتا تھا ‘ جب تک میاں صاحب یہ کام خود کرتے رہے یہ کام (اس) وقت تک عین عبادت تھا‘ یہ ملک کی خدمت تھا ۔۔لیکن جب میاں صاحب خود فارغ ہوئے تو یہ کام ستیا ناس بھی ہو گیا‘ اور ۔۔اس سے ملک بھی ۔۔ہل گیا‘کیوں؟ ہم اگر ملک کو بدلنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی غلطیوں کی وکالت اور دوسروں کی غلطیوں کا جج بننے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا ورنہ ستیاناس کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا‘ ہم آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں، میاں نواز شریف کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی گھیرے میں آتے ہوئے نظر آ رہے ہیں‘ ایک طرف علامہ طاہر القادری میاں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں‘ یہ اپنے کنٹینر کو ایک بار پھر پالش کر رہے ہیں اور دوسری طرف پیر صاحب سیال شریف نے حکومت سے علیحدگی‘ 10 دسمبر کو فیصل آباد میں جلسے‘ 14 ایم پی ایز کے استعفے اور رانا ثناء اللہ کے استعفے تک بھرپور احتجاج کا اعلان کر دیا‘ کیا میاں نواز شریف کے بعد میاں شہباز شریف کی باری ہے‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہو گا‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔