اسلام آباد (آن لائن)حکومت کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) پر موثر عملدرآمد کے ذریعے ملک میں گزشتہ کئی سالوں سے جاری دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقعہ ہوئی ہے۔نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمد سے ملک بھر میں دہشت گردی کے مختلف واقعات کم ہونے کے نتیجے میں عوام کو ریلیف ملا ہے۔دہشت گردی کے خلاف آپریشنز سے امن و امان کی صورتحال میں بہتری کے علاوہ دہشت گردوں کے گرد
گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے۔تاہم بد قسمتی سے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمہ کی کوششوں اور قربانیوں کو عالمی سطح پر موثر پذیرائی حاصل نہ ہو سکی جب موجودہ حکومت نے 2013 میں اقتدار سنبھالا تو ملک میں روزانہ 5 سے 6 بم دھماکے ہوتے تھے۔لیکن حکومت اور مسلح افواج کی دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں سے اب اس طرح کے واقعات کئی مہینوں کے بعد رونما ہوتے ہیں۔دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمہ کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان کا شمار دنیا کے کامیاب ترین ممالک میں ہوتا ہے اور مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں اور کاوشوں سے پاکستان میں گزشتہ سالوں میں دہشت گردی کے واقعات کی شرح میں نمایاں کمی واقعہ ہوئی ہے۔ امریکا سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 45 فیصد کمی آئی ہے اور دہشت گردی کے واقعات سے ہونے والی ہلاکتوں کی شرح 39 فیصد کم ہوئی ہے جبکہ دہشت گردی کے مختلف واقعات سے زخمیوں کی شرح 53فیصد تک کم ہو چکی ہے۔نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے جاری کردہ تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق اب تک 1808دہشت گردوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے جبکہ 5ہزار
611 دہشت گرد گرفتار کئے گئے ہیں۔ این اے پی کے تحت ایک لاکھ 22ہزار 772آپریشنز میں ایک لاکھ 42ہزار 335 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تلاشی کے حوالے سے 2لاکھ 12ہزار 765کارروائیاں کی گئی ہیں۔جبکہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر 4 ہزار 230آپرشنز کئے گئے ہیں اور دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمہ کے لئے قائم کی گئی خصوصی مہم ہیلپ لائن 1717 پر ایک لاکھ 19ہزار 794 کالیں
وصول کی گئی ہیں۔اسی طرح این اے پی کے تحت 483دہشت گردوں کو پھانسی دی گئی ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت خصوصی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے 11 عدالتیں قائم کی گئی ہیں اور نیکٹا کے قیام کے لئے فنڈبھی جاری کئے گئے ہیں۔اس کے علاوہ جوائنٹ انٹیلی جنس ڈیکٹوریٹ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جبکہ
خصوصی عدالتوں کو 388 کیسز بھیجے گئے ہیں۔اسی طرح دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خاتمے کے لئے 498 ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں اور 692ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ منی لانڈرنگ کے خاتمہ کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات کے تحت متعلقہ اداروں نے 230 ایف آئی آرز درج کئے ہیں اور 341ملزمان گرفتار کئے ہیں جبکہ کالعدم تنظیموں کے 126 اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں جمع
ایک ارب روپے سے زائد روپے کو منجمد کردیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمہ کے حوالے سے کی جانے والی پاکستانی کوششوں کی عالمی سطح پر پذیرائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔این اے پی کے تحت مختلف تنظیموں اور اداروں کی نگرانی کا عمل بھی جاری ہے جبکہ مدرسہ ریفارمز کے تحت مختلف مدارس کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا گیا ہے تاکہ اس حوالے سے موثر حکمت عملی مرتب کی جاسکے۔ پاکستان
میں دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑنے کے حوالے سے پیمرا کے ذریعے بھی مختلف سخت اقدامات کئے جارہے ہیں۔اس کے علاوہ کراچی میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن وامان کی بہتری کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 69فیصد کمی قتل کے واقعات میں 50
فیصد کمی دہشت گردی کے واقعات میں 80فیصد اور ڈکیتیوں کی وارداتوں میں 30 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سال 2011 میں مذہبی حوالے سے ہونے والی دہشت گردی کے 70 2012 میں 185 2013 میں 127 2014 میں 176 اور 2015 میں 79 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت 98.3 ملین موبائل فون سمز کو بلاک کیا گیا ہے تاکہ دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا خاتمہ کیا جاسکے۔
بلوچستان کے مسئلہ کے بارے میں جلا وطن بلوچ رہنماؤں کے ساتھ مصالحتی مذاکرات کا عمل بھی شروع کیا گیا ہے اور حکومت کے اقدامات کے تحت 625 فراریوں نے ہتھیار ڈال دیئے۔ افغان پناہ گزینوں کے مسئلہ کے خاتمے کے لئے وفاقی کابینہ نے پالیسی مرتب کی ہے اور رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی واپسی کے لئے 31دسمبر کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے جبکہ افغان مہاجرین کی واپسی کے حوالے سے سہ فریقی معاہدے کی مدت میں
مزید ایک سال کی توسیع کی گئی ہے۔وزارت سیفران نادرہ کی مدد سے غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کا کام کررہی ہے۔اس کے علاوہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمہ کے حوالے سے مزید خاطر خواہ جامع اقدامات بھی کئے جارہے ہیں۔