اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر خود کش حملے کے بارے میں بی بی سی نے کہا ہے کہ ان پر دو افراد نے خود کش حملہ کیا۔ بی بی سی کے مطابق ایک خود کش حملہ آور موقع پر ہی ہلاک ہوگیا لیکن دوسرا حملہ آور پراسرار طور پر لاپتہ ہو گیا۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پیپلز پارٹی کی سابق چیئرمین بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے والا ایک نوجوان سعید عرف بلال تھا، سعید عرف بلال نے بے نظیر بھٹو پر لیاقت باغ میں پہلے گاڑی کے قریب گولی چلائی
اور اس کے بعد خود کو بم سے اڑا دیا۔ بی بی سی کی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ اس واقعے کی تحقیقات کرنے والوں کو یقین ہے کہ بے نظیر کے قتل کے لیے ایک نہیں بلکہ دو خودکش حملہ آور بھیجے گئے تھے۔ اور دوسرے حملہ آور کا نام اکرام اللہ محسود بتایا گیا ہے مگر وہ زندہ ہے یا مارا جا چکا ہے، اس بارے میں تمام حکومتی تحقیقاتی ادارے کوئی واضح نہیں ہیں۔ تحقیقات کرنے والے اداروں کی چھان بین کے مطابق اکرام اللہ محسود مار جا چکے ہیں۔ ان خفیہ اداروں کو رپورٹس ملی ہیں ان کے مطابق اکرام اللہ ہلاک ہو چکا ہے۔ ان افراد کے اہل خانہ اور مقامی انتظامیہ کی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہاکرام اللہ کی ہلاکت ہو چکی ہے مگر اس کے برعکس حالیہ دنوں میں پنجاب کی حکومت کی جانب سے میڈیا کو جاری کی گئی انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں اکرام اللہ محسود کا نام بھی شامل ہے۔ قبائلی علاقے کے صحافی اشتیاق محسود نے اپنی تحقیقات کے بعد کہا ہے کہ اکرام اللہ محسود زندہ ہے اور افغانستان میں روپوش ہے۔ اس کے علاوہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ گزشتہ دنوں پاکستانی حکام نے اس کی گرفتاری کے لیے اس کے خاندان کے کئی لوگوں کو جن میں اکرام اللہ محسود کا دس ماہ کا بچہ اور سسر بھی شامل ہیں حراست میں لے لیا تھا۔ اشتیاق محسود کے مطابق انھیں بعد میں اس تاکید کے ساتھ چھوڑا گیا کہ وہ اکرام کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کریں گے۔
ادھر وزارت داخلہ نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل کے فوراً بعد بیت اللہ محسود کی ایک نامعلوم شخص کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو ٹیپ کی تھی جو بعد میں میڈیا کو بھی جاری کی گئی تھی۔ اس ٹیلی فون کال میں بھی وہ شخص بیت اللہ کو بتا رہا ہے کہ بلال اور اکرام نے یہ کارروائی ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق بے نظیر بھٹو پر حملے کی سازش پر عمل کے لیے پانچ رکنی ٹیم تیار کی گئی تھی اور گرفتار ملزمان کے ابتدائی بیانات کے مطابق ان میں سے دو خودکش حملہ آور تھے۔ آخر میں بی بی سی کی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ امید ہے کہ دس سال کی تحقیقاتی اور قانونی کوششوں کے بعد اکرام اللہ محسود کے زندہ یا ہلاک ہونے کے بارے میں صورتحال پر بھی حکام توجہ دیں گے اور ریکارڈ درست کرنے کی کوشش بھی کریں گے تاکہ واضح ہو سکے کہ اکرام اللہ محسود زندہ بھی ہے یا نہیں۔