اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی، اور اسی رپورٹ پر سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا، ان کی نااہلی کے بعد نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا کہا گیا اور سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد کی نگرانی کے لیے جج جسٹس اعجاز الحسن کو مقرر کیا گیا، واضح رہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے والیم 10 عام نہ کرنے کی استدعا کی تھی۔
اس فیصلے کے بعد نیب نے ریفرنس دائر کرنے کی تیاری شروع کرنے کے لیے عدالت سے والیم 10 تک رسائی کی درخواست کی گئی جس عدالت نے قبول کرتے ہوئے والیم 10 کی کاپی نیب کو دے دی گئی لیکن نیب ذرائع نے کہا کہ والیم 10 تک رسائی کے لیے انہیں عدالت سے متعدد بار درخواستیں کرنی پڑی تب جا کر والیم 10 تک رسائی ملی۔ اب یہ حیرت انگیز انکشاف سامنے آیا ہے کہ نیب بھی شریف خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ پہلے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کو مکمل کہا جا رہا تھا کہ اس میں تمام دستاویزات موجود ہیں لیکن نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ ریفرنس دائر کرنے کے لیے ناکافی ہے اور اس سے تعلق رکھنے والا ہر شخص اس سے دور بھاگ رہا ہے، نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام دستاویزات غیر تصدیق شدہ ہیں اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ممبران بھی بطور گواہ پیش ہونے سے ہچکچا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک قومی اخبار نے اپنی خبر میں کہا کہ جمعرات کو نیب کے ایک نمائندے نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے رابطہ کیا، نیب کو بتایا گیا کہ اگرچہ جسٹس اعجاز الاحسن بیرون ملک سے پاکستان واپس آ چکے ہیں مگر نیب کی اس درخواست پر اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ارکان کو ہدایت کی جائے کہ وہ نیب کی انویسٹی گیشن ٹیم کے روبرو پیش ہو کر اپنا بیان ریکارڈ کروائیں۔
نیب کا کہنا ہے کہ وہ غیر تصدیق شدہ دستاویزات پر ریفرنس دائر نہیں کر سکتی۔ اس کے علاوہ نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کا والیم 10نامکمل ہے اور جے آئی ٹی ممبران گواہی دینے سے بھی ہچکچا رہے ہیں۔ یہ بات یہاں قابل غور ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کو مکمل کہا جا رہا تھا مگر دوسری طرف نیب نے سعودی عرب سے قانونی مدد کی درخواست کیوں کی ہے۔