اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں جنوبی ایشیا کی پالیسی کا ذکر کیا، جس میں خصوصاً پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، بجائے اس کے پاکستان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا، انہوں نے خدمات کے اعتراف کی بجائے بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگا دیے، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات 70 سال سے جاری ہیں۔ پاکستان کے معروف کالم نگار رؤف طاہر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ 70 برس کے ان سرد گرم تعلقات میں کسی امریکی صدر
نے پاکستان کے متعلق ایسا سخت لب و لہجہ اور ایسے شدید الفاظ استعمال نہیں کئے‘ جو لب و لہجہ اور جو الفاظ صدر ٹرمپ نے افغان پالیسی پر اپنی اس تقریر میں روا رکھے اور اس کے جواب میں پاکستان کا ردِعمل‘ بلا شبہ ایک پُر اعتماد‘ خود دار اور ذمہ دار ریاست کا رد عمل تھا۔ اسی روز وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس پہلے سے طے شدہ تھا۔ اب صدر ٹرمپ کی تقریر بھی ایجنڈے کا اہم ترین نکتہ بن گئی۔ ذرائع کے مطابق کابینہ کے ارکان کسی خوف کا شکار ہونے اور سپر پاور کی بلیک میلنگ میں آنے کے بجائے‘ ایک منتخب جمہوری حکومت کے شایانِ شان ردعمل دینے کی بات کر رہے تھے۔ اجلاس نے وسیع تر مشاورت کے لیے جمعرات کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے انعقاد کا فیصلہ کیا (جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی تھیں‘ وزیر اعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سول اور فوجی قیادت کا یہ اجلاس جاری تھا) وفاقی کابینہ نے ہر مشکل وقت میں کام آنے والے دوستوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ بھی کیا۔ (وزیر اعظم کی زیر قیادت ایک وفد گزشتہ روز سعودی عرب ہو آیا ہے۔) جدہ میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات مفید اور کامیاب رہی۔ کہا جاتا ہے‘ 32 سالہ ولی عہد کو امورِ مملکت میں وہی فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے جو شاہ فہد کی علالت کے برسوں میں ولی عہد شہزادہ عبداللہ کو حاصل رہی تھی۔
یہ وہی تھے جنہوں نے 1998ء کے ایٹمی دھماکوں پر امریکہ سمیت ایک دنیا کے دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کو تیل کی فراہمی جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ (کاغذوں میں ”ڈیفرڈ پے منٹ‘‘ پر یہ فراہمی دراصل مفت تھی۔) تب وزیر اعظم نواز شریف سعودی عرب گئے‘ تو شاہی خاندان کی طرف سے عظیم الشان استقبالیے میں ولی عہد عبداللہ نے معزز مہمان کو اپنا ”فل برادر‘‘ قرار دیا۔ شاہ فہد‘ موجودہ شاہ سلمان‘ شہزادہ سلطان اور شہزادہ نائف دوسری ماں سے ہونے کے باعث عبداللہ کے ”ہاف برادر‘‘ تھے۔
نوجوان ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ اپنے فیصلے خود کرنے کی صلاحیت اور حوصلہ رکھتے ہیں‘ اور قومی خود مختاری کا معاملہ ہو تو کسی کی نہیں سنتے۔ مارچ 2007ء میں موجودہ شاہ سلمان ریاض کے گورنر تھے۔ نائن الیون کے بعد امریکیوں نے ویزہ پالیسی خاصی سخت کر دی تھی۔ گورنر سلمان کو اہلیہ کے علاج کے لیے امریکی ویزہ درکار تھا۔ صاحبزادے محمد بن سلمان کو بھی والدہ کے ساتھ جانا تھا۔ ویزہ کے نئے قواعد کے تحت فنگر پرنٹ ضروری تھے لیکن (تب 22 سالہ) محمد بن سلمان اس پر آمادہ نہ تھے‘ ”کیا میں مجرم ہوں کہ فنگر پرنٹ دوں؟‘‘
نوجوان شہزادے نے اسے سعودی غیرت اور انا کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ مغرور اور متکبر امریکیوں نے بالآخر اپنی گردن خم کر لی اور اپنی ہٹ کے پکے نوجوان سعودی شہزادے کو فنگر پرنٹ سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ کہا جاتا ہے‘ یمن کے مسئلے پر پیدا ہونے والی شکر رنجی وقت کے ساتھ بہت حد تک کم ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی ولی عہد سے یہ ملاقات پاک سعودی تعلقات کے روایتی جوش و خروش کا مظہر تھی۔ لیکن دو برادر ملکوں میں یہ خوشگوار تعلقات بیرسٹر اعتزاز احسن کو ایک آنکھ نہیں بھاتے‘ سینیٹ کے اجلاس میں فرمایا‘ سعودی عرب جانے کا کوئی فائدہ نہیں کہ وہ پہلے ہی امریکی اتحادی ہے۔
حیرت ہے‘ جوں جوں عمر بڑھ رہی ہے‘ پیپلز پارٹی کے دانشور رہنما کی گفتگو میں غیر ذمہ داری اور بے احتیاطی کے جملہ عناصر بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ ادھر ہمالیہ سے اونچی‘ سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی پاک چین دوستی بھی بلا تاخیر بروئے کار آئی۔ چینی ترجمان کا امریکی صدر کو ترت جواب تھا‘ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیاں بے مثال ہیں‘ دنیا کو جنہیں تسلیم کرنا چاہیے۔وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد فارن آفس کے ترجمان کا کہنا تھا‘
دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں (Safe havens) کے جھوٹے بیانیے پر یقین کرنے کے بجائے‘ امریکہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرے۔ صدر ٹرمپ نے افغانستان میں بھارتی کردار کی تعریف کرتے ہوئے اس میں توسیع کی بات کی تھی۔ پاکستان فارن آفس کے ترجمان نے اس موقف کا اعادہ بھی ضروری سمجھا کہ جموں و کشمیر کے تنازعہ کا حل نہ ہونا خطے میں امن اور سلامتی کی راہ میں بنیادی رکاوٹ ہے۔
یہی بات سینیٹ کے اجلاس میں وزیر دفاع خرم دستگیر نے بھی کہی اور یہ وہ بات ہے جو سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے اپنی ہر گفتگو میں کہتے رہے۔ یہی بات انہوں نے تیسری بار وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد‘ ستمبر 2013ء میں یو این جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں اپنے پہلے خطاب سے لے کر‘ گزشتہ ستمبر یعنی 2016ء میں اپنے (آخری) خطاب میں کہی۔ 2013ء میں تو بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ نیویارک میں ناشتے پر ملاقات بھی خطرے میں پڑ گئی تھی۔
سارک کے کردار کو موثر بنانے کے لئے بھی وزیر اعظم نواز شریف رکن ممالک میں باہمی تنازعات کے حل پر زور دیتے رہے (ظاہر ہے‘ ان میں مسئلہ کشمیر سرفہرست تھا) صدر ٹرمپ کی تقریر پاکستانی وقت کے مطابق صبح 6 بجے تھی۔ اسی روز اسلام آباد میں امریکی سفیر مسٹر ڈیوڈ ہیل نے اپنے صدر کی تقریر کی ”تشریح‘‘ اور ”وضاحت‘‘ کے لیے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف سے ملاقات کی جس میں وزیر خارجہ نے پاکستان کے قومی موقف کا اعادہ کیا۔
اسی شام مختلف ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں انہوں نے امریکی صدر کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا‘ ہم یہ جنگ امریکی ڈالروں کے لیے نہیں بلکہ اپنے خرچ پر اور اپنے خون کے ساتھ لڑ رہے ہیں کہ اس جنگ کو ہم اپنی جنگ سمجھتے ہیں۔سینیٹ کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کا رویہ ”دلچسپ‘‘ تھا۔ شیری رحمن حکومتی رویے کو معذرت خواہانہ قرار دیتے ہوئے جنرل باجوہ کے دو ٹوک موقف کو قوم کی حقیقی ترجمانی قرار دے رہی تھیں جبکہ بزرگ سینیٹر فرحت اللہ بابر کی تقریر پاکستان کے خلاف امریکی چارج شیٹ کی جگالی کے مترادف تھی۔
وہی اسامہ بن لادن کا ایبٹ آباد میں پایا جانا‘ ملا منصور سے پاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانی شناختی کارڈ کا برآمد ہونا‘ کالعدم تنظیموں کو نئے ناموں کے ساتھ سرگرم رہنے کی اجازت‘ ان میں سے ایک تنظیم کا ایک نئی سیاسی جماعت بنا لینا۔آرمی چیف جنرل باجوہ سے امریکی سفیر کی ملاقات‘ صدر ٹرمپ کی تقریر کے ایک دن بعد ہوئی۔ تب وفاقی کابینہ اور فارن آفس اپنے ردعمل کا اظہار کر چکے تھے۔ وزیر اعظم سعودی دوستوں سے مشاورت کے لیے جدہ میں تھے۔ اس موقع پر آرمی چیف کا موقف‘ پاکستان کے قومی موقف کے مطابق معقول اور متوازن تھا۔ خان صاحب فرما رہے تھے‘ سیاسی قیادت ڈری ہوئی تھی‘ چنانچہ آرمی چیف کو جواب دینا پڑا۔