لاہور(آن لائن) ق لیگ کی سابق رکن پنجاب اسمبلی سیمل راجہ نے میڈیا کے سامنے بشارت راجہ اور اپنا نکاح نامہ بھی دکھا کر راجہ بشارت کی منکوحہ ہونے کا آخری ثبوت بھی پیش کردیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ راجہ بشارت کی متعلقہ پری گل آغا جعلساز اور بلیک میلر ہے، اپنے جھوٹ کو چھپانے کیلئے عہدے داروں کو استعمال کر کے ق لیگ اور چو دھری برادران کو بد نام کر رہی ہے، چو دھری شجاعت اور پرویز الٰہی نوٹس لیں۔ سیمل راجہ نے کہا کہ پہلے بیورو کریٹس، پھر میڈیا اور اب عدلیہ کا
غلط نام استعمال کر کے بلیک میل کر رہی ہے اور دوسری جانب قتل کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، کبھی خبریں چلائی جاتی ہیں کہ مجھے پانچ سال قید ہوگئی اور کبھی بیان جاری کیا جاتا ہے کہ میر ے خلاف مقدمات درج ہیں، بشارت راجہ اور پر ی گل آغا سچے ہیں تو میڈیا کے سامنے مناطر ے کا چیلنج قبول کیوں نہیں کرتے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور پریس کلب میں ہنگامی پر یس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ آگر بشارت راجہ نے اب بھی طلاق یافتہ پری گل آغا کو گھر سے نہ نکلا تو وفاقی محتسب اور متعقلہ تھانے میں ان کے خلاف حدود آرڈیننس کے تحت پر چہ درج کراؤں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ علمائے کرام اور دینی جماعتیں طلاق دینے کے باوجود خواتین کو گھروں میں رکھنے کے پروان چڑھتے ہوئے کلچر کیخلاف آواز بلند کریں۔ سیمل راجہ نے کہا کہ میں مسلسل ایک ماہ سے میڈیا کے سامنے بشارت راجہ سے اپنی شادی اور پری گل آغا کے طلاق کے ثبوت پیش کر چکی ہوں اس کے باوجود خواتین کی معاشی اور معاشرتی ترقی کے دعوے داروں کی جانب سے خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔ سیمل راجہ نے کہا کہ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر منتخب وزیراعظم کیخلاف کارروائی ہو سکتی ہے تو پھر قوم کے بیٹوں کے گھر بر باد کر نے والے سیا ستدانوں کیخلاف عدلیہ ازخود نوٹس لینے سے کیوں گریزاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے مزید کتنی خواتین کے گھروں کے اجڑ نے کا انتظار کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حیران ہوں خادم اعلیٰ بھی اس مسئلہ پر خاموش ہیں۔ سیمل راجہ نے کہا سپریم کورٹ جوڈیشل کمیشن بنا کر خواتین کیساتھ ہونے والی نا انصافیوں کیخلاف ایکشن لے اور ملزمان کو عوامی نمائندگی کیلئے تاحیات نااہل قرار دے کر قرار واقعی سزادے۔ انہوں نے کہا کہ دھمکیوں کے حوالے سے پولیس کو آگاہ کر نے کے باوجود سکیورٹی فراہم نہیں کی جا رہی، آئی جی پنجاب کب نوٹس لیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں ہی اسلامی قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کہ عورتوں سے متعلق تعلیم، آگاہی، میرٹ اور قانون کے ظا لمانہ اطلاق سے ہی ممکن ہے۔