موضوع کچھ اور تھا اور بات کہیں اور پہنچی ہوئی تھی مگر نجانے مجھے کیا سوجھی کہ میں نے جنرل باجوہ سے پوچھ لیا ’’ کوئی ایسی خواہش جو ابھی بھی پوری نہ ہوئی ہو‘‘ یہ سن کران کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ‘اُنہوں نے ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ میز پر رکھا اور لمحہ بھر کیلئے سوچ کرکہا ’’تین خواہشیں ہیں‘‘ میں نے اگلا سوال کر دیا ’’کون سی ‘‘ بلا توقف بولے ’’ پہلی خواہش یہ ہے کہ میرا پاکستان پھر سے نارمل ملک بن جائے،
دہشت گردی سے پاک،مکمل امن وامان والا ملک ، ویسا ہی جیسا میرے بچپن میں تھا کہ جب سب بنا کسی خوف وخطر آزادانہ گھوما پھرا کرتے ، میں اسی پاکستان کیلئے کوشاں اور مجھے مکمل یقین کہ پاکستان پھر سے ویسا ملک ضرور بنے گا،دوسری خواہش یہ کہ میں اپنے وقت پر عزت سے ریٹائر ہوجاؤں اور تیسری خواہش یہ ہے کہ مجھے اتنا وقت مل جائے کہ میں اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیل سکوں، ان کے ساتھ وقت گزار سکوں یہ کہہ کر نہ صرف جنرل قمر جاوید باجوہ خاموش ہوئے بلکہ پتا نہیں کیوں پھر میں بھی کچھ نہ بولا اور یوں کافی دیر تک بس ہم چپ چاپ بیٹھے چائے ہی پیتے رہے ۔اگر سپہ سالار کی خواہشوں کو دیکھا جائے تو جہاں تک ان کی اس خواہش کا تعلق کہ انہیں اتنا وقت ملے کہ وہ اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیل سکیں،وقت گزار سکیں تو اس پر ’’گاڈ فادر‘‘ کے مصنف اور شہرہ آفاق ناول نگار ماریوپوزو یاد آجائے ‘اس کا کہنا ’’ کامیاب اور مطمئن انسان وہ جو اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے ساتھ وقت گزار کر دنیا سے رخصت ہو‘‘ جہاں تک بات ہے جنرل باجوہ کی عزت کے ساتھ ریٹائر ہونے کی تو اس ملک میں جہاں اوپر سے نیچے تک کوئی اپنے وقت پر ریٹائر ہونے کا نام نہیں لیتا ا ور جہاں ہر شعبے اور محکمے میں مسلط اکثریت ایسی کہ جنہیں دیکھتے دیکھتے اگلی نسل ریٹائرمنٹ کے قریب جا پہنچی ، وہاں یہ سوچ واقعی قابلِ ستائش ، باقی چھوڑیں جنرل قمر باجوہ کے اپنے پیشروؤں کو ہی لے لیں ،
ایوب خان آئے ، 10سال بعد ایک باقاعدہ تحریک چلی اور یہ اقتدار سے نکلے ‘ ضیاء صاحب 90دنوں کیلئے آئے اور 9دس سال بعد گئے تو وہ بھی قدرت کی طرف سے بلاوا آنے پر ،پرویز مشرف تب تک کرسی کو جپھا ڈال کر بیٹھے رہے جب تک کرسی چھین نہ لی گئی اور تو اور جنرل کیانی بھی 3کی بجائے 6سال لگا گئے ،البتہ جہاں تک بات ہے جنرل راحیل شریف کی تو ان کے بارے میں ابھی کچھ کہا نہ جا سکے کیونکہ ان کی ایکسٹینشن لینے یا نہ لینے اور فیلڈ مارشل بننے یا نہ بننے کی سب کہانیاں ابھی صیغہ راز میں
،لہٰذا ہمارے ہاں اپنے وقت پر باعزت گھر گئے جرنیلوں میں جنرل وحید کاکڑ سرفہرست ،انہوں نے امریکیوں اور بے نظیر بھٹو کے بار بار کہنے کے باوجود مدت ملازمت میں توسیع نہ لی ، اس حساب سے اپنے وقت پر گھر جا کر جنرل باجوہ اس قطار میں کھڑے ہونگے کہ جس میں ان سے آگے صرف جنرل وحید کاکڑ۔جہاں تک بات ہے آرمی چیف کی تیسری خواہش کی کہ آج کا پاکستان پھر سے ان کے بچپن والا پاکستان بن جائے تو اس کیلئے انہیں جہاں اندرونی محاذ پر سول ملٹری تعلقات اور دہشت گردی جیسے پل صراط عبور کرنا ہوں گے
،وہاں بیرونی محاذ پر انہیں بھارت، افغانستان سے تعلقات اور امریکہ سے معاملات کی الجھی گتھیاں بھی سلجھاناہوں گی ، گوکہ سب کا یہی خیال کہ سول ملٹری تعلقات اور امن وامان جیسے معاملات ہینڈل کرنے کیلئے جنرل باجوہ سے بہتر کوئی اور شخص نہیں ہوسکتا اور گو کہ دن رات کی پروا کئے بغیر وہ بھارت ،افغانستان تعلقات اور امریکہ سے معاملات سلجھانے میں لگے ہوئے مگر مستقبل میں ان تمام ایشوز پر جنرل باجوہ کو ابھی بہت سارے غیر معمولی اقدامات اُٹھانا ہوں گے ،
وہ غیر معمولی اقدامات کہ جن کی یقینا ً ایک قیمت ہوگی ، ہو سکتا ہے کہ انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے ، یہ بھی ممکن کہ انہیں شدید تنقید برداشت کرنا پڑے اور ہو سکتا ہے کہ انہیں بہت سارے غیر مقبول فیصلے بھی کرناپڑیں ،لیکن تاریخ بتائے کہ جب ملک وقوم کسی بحران میں ہو تو پھر یہ سب توکرنا، بھگتنا اور برداشت کرنا پڑے ،کیونکہ جتنا بڑا کام اتنی بڑی مشکلات اور اتنی زیادہ رکاوٹیں ، پھر کسی کواچھا لگے یابُرا مگر جیسے یہ اِک حقیقت کہ اچھے اوربرے طالبان کے چکر سے نکلے بنا
دہشت گردی کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جاسکتا ویسے ہی بھارت اور افغانستان سے تعلقات بہتر بنائے بغیر پاکستان نارمل ملک نہیں بن سکتا اور یہاں جنرل قمر باجوہ کی خوش نصیبی یہ کہ دونوں ممالک ہماری سویلین قیادت کی نسبت فو ج کو زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں اورفوجی قیادت پر زیادہ انحصار اور اعتماد کرتے ہیں ،ماضی میں جھانک کر دیکھ لیں جب بھی فوجی لیڈر شپ نے معاملات سلجھانے کی کوشش کی تو کافی حد تک معاملات سلجھ بھی گئے، جیسے مشرف دور میں جب بھارت سے بات چیت شروع ہوئی تو
صورتحال یہاں تک آن پہنچی کہ کشمیر پر بریک تھرو کی خبریں تک آنے لگیں ،وہ تو پرویز مشرف سیاسی طور پر کمزور ہوکر اپنے مسائل میں گھِر گئے اور بات آگے نہ بڑھ سکی ، ورنہ بہت سارے معاملات پر بہت کچھ طےہوچکا تھا‘لہٰذا اگر بھارت ،افغانستان اور امریکہ سے معاملات طے کرتے ہوئے جنرل قمر باجوہ کسی مزاحمت اورتنقید کی پروا کئے بنا اور مقبول اور غیر مقبول فیصلوں کے چکر میں پڑے بغیر Bold اقدامات اُٹھا لیتے ہیں تو آگے چل کر یقینا ً اچھی خبریں سننے کو مل سکتی ہیں ۔
ہاں یہ ٹھیک کہ بھار ت سے 70سالہ دشمنی اور افغانستان اور امریکہ کے حوالے سے تعلقات میں بداعتمادی ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں اور یہ بھی درست کہ موجودہ حالات میں سول ملٹری تعلقات کو بہتر بنانا اور دہشت گردی پر قابوپالینا کوئی معمولی بات نہیں لیکن جنرل باجوہ جو نہ صرف خواب دیکھتے ہیں اور خوابوں کی تعبیر کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانا بھی جانتے ہیں بلکہ وہ تاریخ کے طالب علم بھی ،لہٰذا انہیں بخوبی علم کہ تاریخ میں وہی زندہ رہیں ،
جو خواب دیکھیں اور پھر ان خوابوں کی تعبیر کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہ کریں ،جیسے سقراط، زہر کا پیالہ تو پی لیا مگر تاریخ اسے آج بھی زندہ رکھے ہوئے ، جیسے نیلسن منڈیلا ، 28سال جیل تو کاٹی مگر جب باہر نکلے تو تاریخ بانہیں پھیلائے کھڑی تھی اور جیسے فرانس کا ڈیگال، اپنے سازشیوں کے منہ پر صدارت مارکر چلتا بنا مگر پھر تاریخ بتائے کہ ان سازشیوں سمیت پورا فرانس اُسی ڈیگال کو منتیں سماجتیں کر کے واپس لایا، بلاشبہ آج جنرل باجوہ کیلئے حالات کٹھن
،راستہ مشکل اور وقت کم مگرصرف 8 مہینوں میں ہی سول ملٹری تعلقات کیلئے نیک نیتی سے کوششیں کرنیوالے ،دہشت گردی کیخلاف ہر حد تک جانے والے ،بھارت اورافغانستان کے معاملات کو درست سمت دینے والے ،امریکیوں کو انکی زبان میں بات سمجھانے والے ،چین سے روس تک اور سعودی عرب سے قطر تک سب سے مسلسل رابطے میں رکھنے والے ، ڈان لیکس ٹویٹ واپس لے کر فوجی تاریخ کا ایک غیر مقبول ترین فیصلہ کرنے والے ہر وقت ہر ایک کو ’’پاکستان کم فرسٹ ‘‘کا سبق پڑھانے والے ، اندر باہر سے جمہوریت کے حامی اورجیو اور جینے دو کی پالیسی اپنانے والے جنرل باجوہ کیلئے یہی دعا کہ اللہ کرے کہ جب وہ وقت پر ریٹائر ہو کر اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیل رہے ہوں تب ملک کا ہر بچہ نارمل پاکستان میں سانس لے رہاہو۔
(یہ تحریر کالم نگار ارشاد بھٹی کے کالم سے لی گئی ہے ۔۔جو آج روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی ہے)