ٹیکسلا(نیوزڈیسک) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ کہ کوئی بھی عدالتی فیصلہ کسی کی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ آئین اور قانون کے مطابق ہوتا ہے۔ پاناما کیس کے فیصلے کے بعد لوگ عجیب وغریب منطق بیان کر رہے ہیں۔ اس کو دو تین کا فیصلہ قرار دینا درست نہیں ہے۔ معاملہ اب بھی عدالت میں ہے اسے سپریم کورٹ پر چھوڑ دیں۔ کسی بھی حل کے لیے سپریم کورٹ سے بڑا ادارہ کون سا ہے؟ عدالت عالیہ کو
سب کیلئے قابل قبول ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاناما کیس کا فیصلہ متفقہ ہے۔ لیکن اسے فیصلے کو الگ الگ معنی دیے جا رہے ہیں۔ کوئی دو ججوں کی تعریف اور باقی 3 سے متعلق منفی باتیں کر رہا ہے۔ دو ججز نے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھا۔ جے آئی ٹی بنانے کے لیے پانچوں ججوں کے دستخط موجود ہیں۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ الزام لگانے والوں کے پاس شواہد نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خدارا قانون اور آئین پر رحم کیا جائے۔ عدالتی فیصلے کو سیاست کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے۔چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے خود کو احتساب کیلئے پیش کرنے کی روایت قائم کی حالانکہ ان پر کوئی پریشر نہیں تھا۔ تمام سیاسی جماعتیں جے آئی ٹی کے حق میں تھیں مگر اب عدالتی فیصلے پر عدالتیں لگائی جا رہی ہیں اور احتجاج کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ عدالتی فیصلے پر تبصرے پر گریز کرنا چاہیے۔ وزیر داخلہ نے بتایا کہ ڈان لیکس کی رپورٹ پیر یا منگل کو پیش کر دی جائے گی۔انہوں نے بتایا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کو سپورٹ کریں گے اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پارٹی رہنماؤں کو سخت ہدایات دی ہیں کہ فیصلے کو تقسیم کریں۔ جو سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے وہ سب کو قبول ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری پرفارمنس پر تجزیہ نہیں بلکہ ناکردہ گناہوں پر ہوتا ہے۔ ہمارا موازنہ گزشتہ ادوار کی حکومتوں، معیشت
اور امن و امان کی صورتحال سے کیا جائے۔ الیکشن کو گزرے چند دن ہوئے تھے کہ دھرنے شروع ہوگئے اور کہا کہ یہ دھاندلی کر کے آئے ہیں۔ اب بھی یہ لوگ فیصلہ نہیں بلکہ شور شرابہ اور دھرنا چاہتے ہیں۔