اسلام آباد(آن لائن)سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کیس پر فریقین سے دستاویزی شواہد15نومبر کوطلب کرلیا ، وزیر اعظم کے بچوں حسن نواز ، حسین نواز اور مریم صفدر نے جواب داخل کرادیئے، کیس کی سماعت بھی 15 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ پک اینڈ چوز والا معاملہ نہیں،بدعنوانی کرنے والے سب اس کیس کی زد میں آئیں گے، ملک کو انتشار اور بحران سے بچانا چاہتے ہیں کسی کے ساتھ کچھ بھی امتیازی نہیں ہوگا، ہم بادشاہ نہیں کہ قانون سے ہٹ کر جو چاہیں کرتے رہیں،عدالت کے لئے بہت آسان تھا کہ معاملہ نیب کے سپرد کردیتے لیکن ایسا نہیں کیا، جو بھی فیصلہ ہوگا ،قانون کے مطابق ہی ہوگا۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں قائم 5رکنی لارجر بینچ نے پاناما کیس کی سماعت شروع کی تو اس دوران شریف فیملی کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ لندن میں جائیداد نیسکول اور لیکسن نامی آف شور کمپنیوں کی ملکیت ہیں، وزیراعظم نوازشریف اور مریم نواز کا ان سے کوئی علق نہیں، جائیداد کی خریداری کے لئے پیسہ بھی پاکستان سے نہیں بھجوایا گیا۔ جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا جائیداد کی ملکیتی دستاویزات مالکان کے پاس ہیں؟ابھی تک عدالت میں جمع کیوں نہیں کرائی گئیں؟جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ جب تک عدالت کو مطمئن نہیں کیا جاتا،کلین چٹ نہیں دیں گے، حسین نواز عدالت میں آئیں اور مطمئن کریں، کیس بہت سادہ ہے لیکن مطمئن نہ کیا گیا تو کسی اور ہی طرف جائے گا۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ دوسرا راستہ یہ ہے کہ فریقین تحقیقاتی کمیشن کے سامنے دستاویزات پیش کریں لیکن وہاں مہلت نہیں ملے گی۔حکومت کی جانب سے درخواست کی گئی کہ انہیں دستاویزی شواہد جمع کرانے کے لیے 15 روز کا وقت دیا جائے تاہم ان کی یہ درخواست مسترد کردی گئی۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ حکومت کے پاس تو پہلے ہی دستاویزی شواہد موجود ہیں، ہم کم سے کم وقت میں معاملے کو نمٹانا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پیشگی دستاویزی ثبوت طلب کرنے سے مجوزہ کمیشن کو کم سے کم وقت میں فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی، اس معاملے کو عام کیس کی طرح سنا تو مقدمہ سالوں مقدمہ چلے گا۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ وہ اپنی رائے بتائیں کہ کیا معاملے پر کمیشن تشکیل دیا جائے یا نہیں؟چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کمیشن کی بجائے دستاویزات منگوا کر جائزہ لیا جائے؟ہم نہیں چاہتے کہ تاخیر ہمارے کھاتے میں آئے،مناسب وقت نہ دیا تو کل کہا جائے گا کہ کمیشن نے وقت نہیں دیا۔اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ ملکی صورتحال میں اداروں پر بداعتمادی بڑھ گئی ہے،نیب ایف آئی اے ،ایف بی آر کو برائی نظر ہی نہیں آتی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کے خلاف فیصلہ دیا وہ پھر بھی عہدے پر برقرار رہے، کورٹ نے بعد میں حکم دیا کہ آپ وزیراعظم نہیں رہے،ہم کلین چٹ بھی دے سکتے ہیں اور مخالف فیصلہ بھی آ سکتا ہے۔جسٹس کھوسہ نے کہا کہ حکومت کے خلاف فیصلہ آیا تو وزیراعظم کہ چکے ہیں کہ وہ عہدے پر نہیں رہیں گے۔وزیر اعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے حسن، حسین اور مریم کے جوابات عدالت کے سامنے پیش کیے۔سلمان اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ مریم نواز اپنا ٹیکس ریٹرن ادا کرتی ہیں، انہوں نے کسی بھی متذکرہ پراپرٹی کی قیمت ادا نہیں کی۔انہوں نے بتایا کہ مریم نواز نیلسن اور نیسلول کمپنی کی ٹرسٹی ہیں اور انہوں نے یہ الزام مسترد کیا ہے کہ وہ کسی آف شور کمپنی کی مالک ہیں۔حسین نواز نے اپنے جواب میں موقف اپنایا کہ وہ 16 سال سے بیرون ملک قانون کے مطابق کام کررہے ہیں، جنوری 2005 سے قبل متذکرہ جائیدادیں ان کی نہیں تھیں۔سلمان اسلم بٹ نے بتایا کہ حسن اور حسین نے عمران خان کی درخواست میں لگائے گئے تمام الزامات مسترد کردیے۔اس موقع پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے سلمان اسلم بٹ سے استفسار کیا کہ آپ نے جواب کے ساتھ تفصیلات کیوں فراہم نہیں کیں جس پر انہوں نے کہا کہ وقت مختصر تھا البتہ مجوزہ کمیشن میں تمام دستاویزات فراہم کریں گے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اسلم بٹ سے پوچھا کہ ٹرسٹی کا کام کیا ہوتا ہے؟ جس پر انہیں بتایا گیا کہ ٹرسٹی کا کام اپنی خدمات فراہم کرنا ہوتا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ عدالت کو مطمئن کریں کہ خریداری قانون کے مطابق تھی، عدالت کو مطمئن کریں قانون کے مطابق رقم بیرون ملک منتقل کی گئی، آپ عدالت کو مطمئن کریں اور سکون سے گھر چلے جائیں۔سماعت کے دوران مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی کے وکیل اکرام شیخ نے کہا کہ ہم نے بھی اسی معاملے پر درخواست سپریم کورٹ میں دائر کررکھی ہے، آپ سے استدعا کی تھی کہ یہ درخواست اسی بینچ میں منسلک کی جائے۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر مناسب ہوا تو درخواست کو اسی بینچ میں لگائیں گے۔اس موقع پر درخواست گزار طارق اسد نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ کیس عمران خان اور نواز شریف کے خلاف ہے۔چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ کتنے لوگ آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں جن کے نام اسکینڈل میں آئے ہیں جس پر طارق اسد نے کہا کہ400کے قریب کمپنیاں اور لوگوں کے نام پانامہ لیکس میں شامل ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ 800لوگوں کے خلاف تحقیقات ہوں تو یہ کام کئی سال چلے گاحاکم وقت کا معاملہ دوسروں سے الگ ہوتا ہے تاہم یہ کیس انتہائی اہم ہے، پک اینڈ چوز والا معاملہ نہیں، تمام درخواستوں کی سماعت کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو انتشار اور بحران سے بچانا چاہتے ہیں، وہ کام کررہے ہیں جو ہمارا ہے ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کارروائی سے کسی کا بھی استحقاق مجروح نہیں کیا جاسکتا۔کسی کے ساتھ کچھ بھی امتیازی نہیں ہوگا، پاناما کی لپیٹ میں سب آئیں گے،بدعنوانی کرنے والے سب اس کیس کی زد میں آئیں گے۔جس کا بھی کیس سنیں گے وہ آئینی اور قانونی ہوگا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم بادشاہ نہیں کہ قانون سے ہٹ کر جو چاہیں کرتے رہیں۔عدالت کے لئے بہت آسان تھا کہ معاملہ نیب کے سپرد کردیتے لیکن ایسا نہیں کیا، جو بھی فیصلہ ہوگا ،قانون کے مطابق ہی ہوگا۔دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیے کہ اب اس کے بعد کسی فریق کو ایک دن کا بھی مزید وقت نہیں دیا جائے گا ۔ ہم نے کیس کے خلاف الزامات لگانے کا راستہ بند نہیں کیا تاہم الزامات سے متعلق تمام تر دستاویز 15نومبر تک پیش کی جائیں۔
سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت میں شرکت کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور دیگر فریقین عدالت عظمی پہنچے۔پی ٹی آئی نے ڈاکٹر بابر اعوان کو بھی اپنے وکلا کی ٹیم میں شامل کر لیا اور وہ پانامہ کیس میں پی ٹی آئی کی جانب سے وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف دلائل دیں گے۔
پانامہ لیکس کیس ،فریقین سے دستاویزی شواہد15نومبر کوطلب
7
نومبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں