اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ نے حکومت سے مردم شماری کرانے کا ٹائم فریم 2 ہفتوں میں طلب کر لیا ، چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کاغذی کارروائی سے کوئی دلچسپی نہیں ، حکومت بتائے مردم شماری کروانے میں سنجیدہ بھی ہے یا نہیں۔ سپریم کورٹ میں مردم شماری نہ کرانے کیخلاف ازخود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں بینچ نے کی۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ یا دیگر کاغذی کارروائی سے کوئی دلچسپی نہیں ، آئین کی کتاب کو الماریوں میں سجا کر رکھ دیا گیا ہے ، پہلی دفعہ آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ۔
کیا وفاقی حکومت مردم شماری کرانے میں سنجیدہ ہے؟ ۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے مردم شماری میں تاخیر پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ حکومت کی جانب سے عدالت کو جمع کرائی گئی رپورٹس میں کوئی دلچسپی نہیں، حکومت مردم شماری میں دلچسپی رکھتی ہے یا نہیں اس حوالے سے تحریری جواب دیا جائے، حکومت نے آئینی کتابوں کو الماری میں سجا رکھا ہے اور آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورزی پہلی مرتبہ نہیں کی گئی۔ سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ انٹرنیشنل کنونشن کے تحت دس سال میں ایک مرتبہ مردم شماری ضروری ہے لیکن مردم شماری کیلئے مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری لینا بھی ضروری ہے تاہم آئین میں مردم شماری لازم ہے مگر ٹائم فریم نہیں دیا گیا۔
اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا مردم شماری حکومت کی مرضی سے ہوگی جب کہ حکومت کے موقف سے نظر آرہا ہے کہ آئندہ 200 سال میں بھی مردم شماری ضروری نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا مردم شماری کے لئے فوج کی ضرورت آئینی ہے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ گزشتہ 2 سال سے ہر سال مردم شماری کے لئے بجٹ مختص کیا جاتا ہے جس کے بعد عدالت نے مردم شماری کے لئے حکومت سے ٹائم فریم طلب کرتے ہوئے سماعت 2 ہفتے کے لئے ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ نے حکومت سے مردم شماری کرانے کا ٹائم فریم دو ہفتوں میں طلب کر لیا
15
جولائی 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں