اسلام آباد (نیوز ڈیسک) آئینی و قانونی ماہرین نے وزیراعظم محمد نواز شریف کی جانب سے پانامالیکس کے معاملے پر پارلیمنٹ میں وضاحت نہ دینے بارے بیان پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے منتخب کردہ وزیراعظم پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں تو کس کو ہیں ، جمہوریت میں پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہوتا ہے ، وزیراعظم کا رویہ جمہوری اقدار کے منافی اورآئین سے رو گردانی کے مترادف ہے ،ملک میں قانون شکنی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی ،وزیراعظم بہادری کا مظاہرہ کرکے اپنے اثاثوں سے متعلق پارلیمان کو اعتماد میں لیں بصورت دیگر خلیج بڑھے گی ۔ ان خیالات کا اظہار سپریم کورٹ بار کے صدر بیر سٹر سید علی ظفر ،سینئر قانون دان حشمت حبیب ، اکرام چوہدری ،سردا ر عبدالرزق خان ایڈوکیٹ نے آن لائن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بیرسٹر علی ظفر کانے کہا کہ وزیراعظم قانونی طور پر پارلیمنٹ کا حصہ ہیں لیکن قانونی طور پارلیمنٹ انہیں جواب دینے پر مجبور نہیں کر سکتی ، لیکن اخلاقی ، روائتی ،اور پارلیمانی رویے کے تحت اچھا ہوتا کہ وزیراعظم اپنے اور خاندان کے اثاثوں سے متعلق پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیتے ، وزیراعظم نے قوم سے ٹی وی پر خطاب کر لیا ہے اخلاقی اور اصولی طور پر اگر پارلیمانٹ مطالبہ کر رہی ہے تو انہیں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر معاملے کو حل کرنا چاہیے ، سینئر قانون دان اکرام چوہدری نے کہا کہ پانامالیکس پیپرکے انکشافات کے بعد برطانیہ کے وزیراعظم نے اپنے اثاثوں سے متعلق تفصیلات بتائی ہیں ،اصولی طور پر وزیرآعظم پاکستان کو بھی ازخود اپنے اثاثوں سے متعلق پارلیمان کو پہلے ہی اعتماد میں لینا چاہیے تھا ، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا ،کوئٹہ میں کرپشن الزامات پر سکیرٹری خزانہ کی گرفتاری کے بعد وزیر خزانہ نے استعفیٰ دیدیا ،اس لیے کہ ہو سکتا ہے اس میں وہ بھی ملوث ہوں ، دنیا میں جب بھی ایسے معاملات ہوتے ہیں تو اقتدار کی حامل شخصیات اقتدار سے علیحدگی اختیار کر کے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتی ہیں،وزیراعظم کا یہ رویہ اخلاقی اور اصولی طور پر درست نہیں جب کمیشن کے ذریعے معاملات آگے بڑھیں گے تو تلخیاں بڑھیں گی ،جمہوریت میں وزیراعظم پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتا ہے ،وزیراعظم کے اس رویے کو ہٹ دھرمی قرار دیا جاسکتا ہے ، اصولی اور قانونی طور پر وزیراعظم کا رویہ درست نہیں ، پارلیمنٹ میں سوال نامے کے ذریعے اراکین پارلیمنٹ سوال کرتے ہیں اس رویے کے بعدسوال نامہ کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہو گی، انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کا نام تو لیا جاتا ہے لیکن کام اپنے اقتدار اور مفادات کے لیے کیے جاتے ہیں ۔ سردار عبدالرازق خان ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہوتا ، وزیراعظم پارلیمنٹ کو جوابدہ اور پارلیمنٹ کے ذریعے عوام کو جوابدہ ہوتا ہے ، وزیراعظم نواز شریف پر پاناما پیپر ز میں الزام ہے انکے نا بالغ بچوں نے آف شور کمپنیاں بنائی ہے الیکشن اور نیب کے اینٹی کرپشن قوانین کے تحت منتخب اراکین کو اپنے اور خاندان کے اثاثے ظاہر کرنا ہوتے ہیں ،وزیراعظم تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے دوران دوسروں کو پارلیمنٹ میں بات کرنے کا مشورہ دیتے تھے لیکن اپنی باری پر پارلیمان میں جواب دینے سے بھاگ رہے ہیں ، وزیراعظم کی جانب سے پارلیمنٹ میں وضاحت نہ کرنے کا فیصلہ جمہوری اقدار کے منافی اور آئین سے رو گردانی کے معتراد ف ہے وزیراعظم اپنے امرانہ رویے سے ملک میں انارکی کو دعوت دے رہے ہیں وزیراعظم کے اس عمل سے لگتا ہے وہ ملک میں پھر سے احتجاج کی سیاست کو فروغ دینا چاہتے ہیں ، جبکہ سینئر قانو دان حشمت حبیب کا کہناتھا کہ وزیراعظم آئینی اور قانونی طور پر پارلیمنٹ کو جواب دینے کے پابند نہیں ہیں ،یہ انکا بنیادی حق ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو جواب دیں یا نہیں ، پانامہ لیکس رپورٹ میں وزیراعظم کی کمپنی کا ذکر نہیں صرف انکے صاحبزادوں کا ذکر ہے ، بیٹوں پر الزامات کا جواب پارلیمنٹ میں دینے کے پابند نہیں ہیں ، انہوں نے کہا کہ پاناما لیکس پیپر ز میں آف شور کمپنیوں کا تذکرہ ہے ، آف شور کمپنیاں قانون کے تحت جرم نہیں ہیں ، کسی ملک میں اکاؤنٹ کوئی بھی کھلوا سکتا ہے ،انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس پیپر میں اگر وزیراعظم کا ذکر ہوتا تو پھر وہ پارلیمنٹ کو قانونی طور پر وضاحت دینے کے پابند تھے ۔