کوئٹہ(نیوز ڈیسک)پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی اسمبلی نے رولنگ دی ہے کہ سخت گیر موقف کے حامل بلوچ قوم پرست رہنماؤں اور کارکنوں کے لیے ناراض بلوچ کی اصطلاح استعمال نہ کی جائے بلکہ ان کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔بلوچستان میں عسکریت پسندی اور شدت پسندی کی دو طرح کی کارروائیاں ہورہی ہیں۔ان میں سے مذہبی شدت پسندی کی کارروائیوں میں ملوث لوگوں کو حکام کی جانب سے دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔تاہم قوم پرستی کے حوالے سے عسکریت پسندی کی کارروائیوں میں ملوث لوگوں اور ان کی حمایت کرنے والوں کے لیے ’ناراض بلوچ‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔اگرچہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے دونوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن حکام کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ’ناراض بلوچوں‘ سے مذاکرات کے لیے بھی کوششیں ہورہی ہیں۔مگر بلوچستان اسمبلی کے رواں سیشن کے آخری روز کے اجلاس میں ان کے خلاف سخت لب و لہجہ استعمال کیا گیا۔اجلاس میں اس معاملے پر بات رکن اسمبلی ماجد ابڑو پر چند روز قبل بولان کے علاقے میں ہونے والے حملے کے حوالے سے ایک تحریک استحقاق پر بحث کے دوران ہوئی۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے سردار عبد الرحمان کھیتران کا کہنا تھا کہ قوم پرست عسکریت پسندوں کو ’ناراض بلوچ‘ نہ کہا جائے۔انھوں نے کہا ’یہ کون سی پالیسی ہے کے آپ ان دہشت گردوں کو واپس لاکر آباد کر رہے ہیں۔ آپ ان کو 20 ہزار سے لے کر پانچ لاکھ اور 20 لاکھ روپے دے کر یہ کہہ رہے ہیں کہ شاباش آپ نے اچھا کام کیا ہے۔‘قائمقام اسپیکر میر عبد القدوس بزنجو نے حکومت کی جانب سے مذاکرات کی کوششوں کو ایک اچھا قدم قرار دیا۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر اس کے باوجود کوئی مذاکرات نہیں کرتا تو یہ ان کا اپنا قصور ہے۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ اور تنظیم حکومت کے املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کو مارتے ہیں وہ دہشت گرد ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ قائم مقام سپیکر نے یہ رولنگ بھی دی کہ آئندہ شدت پسندی کی کارروائیوں میں ملوث افراد کو ’ناراض بلوچ‘ نہ کہا جائے۔