۔پاکستانی اہلکار نے نام ظاہر نہ کر نے کی شرط پر صحافیوں کے ایک گروپ کو بتایا کہ پاکستان نے صدر اشرف غنی کی درخواست پر طالبان کو مذاکرات کےلئے راضی کیا تھا انہوںنے کہاکہ طالبان اشرف غنی سے مذاکرات کےلئے راضی نہیں تھے ۔انہوںنے کہاکہ 31اگست کو مذاکرات کے دوسرے دور کےلئے افغان طالبان کے رہبر شوریٰ کے 8اراکین اسلام آبا د پہنچ گئے تھے انہوںنے کہاکہ دوسرے دور میں تشدد کے واقعات کمی کی تجویز پر اہم پیشرفت کا امکان ہے لیکن افغان حکومت کے فیصلے کی وجہ سے دوسرا دور ملتوی کر دیا ۔انہوںنے کہاکہ سرتاج عزیز ملاقانوں میں افغان حکومت سے مذاکرات کے حوالے سے ان کی رائے پوچھیں گے اور یہ کہ پاکستان اب بھی مذاکرات کی دوبارہ بحالی میں تعاون کےلئے تیار ہے ۔پاکستانی اہلکار نے کہاکہ امن مذاکرات کو ناکام بنانے میں سابق صدر حامد کرزئی اور افغان انٹیلی جنس این ڈی ایس کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ یہ لوگ امن عمل کے مخالف ہیں ۔انہوںنے کہاکہ حامد کرزئی کے دور میں بھارتی خفیہ ایجنسی را اور این ڈی ایس کے درمیان تعلقات مضبوط ہوگئے تھے انہوںنے کہاکہ سرتاج عزیز صدر اشرف غنی اور افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کے ساتھ ملاقاتوں میں پاکستانی رہنماﺅں کے پیغامات انہیں پہنچائیں گے جس میں ان سے کہا جائیگا کہ پاکستان کے خلاف سر کاری طورپر بیانات کا سلسلہ بند کیا جائے ۔پاکستانی اہلکار نے مزید بتایا کہ افغان رہنماﺅں کے بیانات نے دونوں ممالک میں اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے انہوںنے کہاکہ افغان حکومت نے غیر دانشمندانہ فیصلہ کر کے ملا عمر کی موت کی خبر ایسے وقت میں ظاہر کی جبکہ امن مظاہرہ کا دوسرا دور ہونے والا تھا انہوںنے کہاکہ افغان حکومت کا شاید یہ خیال تھا کہ ملا عمر کی وفات کی خبر سے طالبان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں گے لیکن ملا اختر منصور نے حالات پر قابو پا کر اپنی پوزیشن مضبوط کرلی ہے ۔انہوںنے کہاکہ ملا عمر کی موت کا سب کو علم تھا لیکن غلط وقت پر افغان حکومت نے اس کااعلان کر دیا ۔انہوںنے کہاکہ سرتاج عزیز افغان رہنماﺅں پر واضح کرینگے کہ پاکستان نے افغان رہنماﺅں کے سخت بیانات کے باوجود صبر کی پالیسی اس لئے اپنائی ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا قائم رہے