اسلام آباد(نیوز ڈیسک)سپریم کورٹ نے18ویں اور 21ا ئینی ترامیم کے خلاف دائر تمام درخواستوں کو مسترد کردیا ہے۔فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق اکیسویں ا ئینی ترمیم کے حق میں 11 جبکہ مخالفت میں 6 ججوں نے فیصلہ دیا جبکہ 18ویں ترامیم کے حق میں 14جبکہ مخالفت میں 3ججز نے فیصلہ دیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کا 22 صفحات پر اضافی نوٹ بھی فیصلے کا حصہ ہے،جس میں کہا گیا ہے کہ وہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی بات سے متفق ہیں کہ21ویں ترمیم کوکالعدم ہونالازمی ہے۔تفصیلی فیصلہ کچھ دیر بعد جاری کیا جائیگا۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17رکنی بینچ نے 27جون کو درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا،بینچ نے اٹھارہویں اور اکیسویں ترمیم سے متعلق 35 درخواستوں پر سماعت کی تھی اورفریقین کے دلائل 27جون کو مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ اٹھارہویں ا ئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں میں ججز کی تقرری کے طریقہ کار جب کہ اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں میں فوجی عدالتوں کے قیام کو چیلنج کیا گیا ہے۔ درخواست گزروں میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور دیگر وکلا تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ درخواستوں میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں کا قیام موجودہ عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار ہے، فوجی عدالتی نظام بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے،اگر کوئی بھی قانون بنیادی انسانی حقوق اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہو تو سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے ایسے کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ اگرچہ سپریم کورٹ کو آئین سازی کا اختیار نہیں ہے لیکن اْسے آئین کی تشریح کا اختیار ضرور حاصل ہے۔ درخواستوں میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق قانون کو کالعدم قرار دے۔وفاق کا موقف ہے کہ ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے اور ایسے حالات میں وہی اقدامات کیے جاتے ہیں جو ملک اور اس کی عوام کے مفاد میں ہوں، فوجی عدالتوں کے قیام سے درخواست گزاروں کا بنیادی حق متاثر نہیں ہوتا لہٰذا ان درخواستوں کو مسترد کردیا جائے۔