اسلام آباد(نیوزڈیسک)سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کر سکتی ہے تو نیب کے قانون میں کیوں نہیں ، چیئرمین کو ہٹانے کا طریقہ نیب قانون کے سیکشن 6 اور 8 میں درج ہے ، کیوں نہ نیب کی اندرونی غیرتسلی بخش کارکردگی کی تفتیش ایف آئی اے کو دے دیں۔جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے بدعنوانی کے میگا سکینڈلز کیس کی سماعت کی ، عدالت نے 29 میگا سکینڈلز ، 150 سکینڈلز کی فہرست کے ساتھ جمع نہ کرانے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا بدعنوانی کے یہ مقدمات پہلے والی فہرست کے ساتھ کیوں نہیں آئے۔درخواست گزار اسد کھرل نے عدالت کو بتایا بدعنوانی کے ان29 مقدمات میں کرپشن کا حجم 562 ارب روپے ہے جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کیوں ناں نیب کی اندرونی غیرتسلی بخش کارکردگی کی تفتیش ایف آئی اے کو دے دیں۔ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب اکبر تارڑ کا کہنا تھا نیب پک اینڈ چوز نہیں کر رہا ، جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت کے علم میں ہے کہ نیب ادھوری معلومات فراہم کر رہا ہے ، کیا کرپشن کے خاتمے میں وفاقی حکومت کی دلچسپی ہےکیا وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر چیئرمین کی تقرری کے بعد بری الذمہ ہیں ، چیئرمین نیب جو مرضی کرتا رہے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ? ،کیا وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے نیب کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک لانے کیلئے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کر سکتی ہے تو نیب کے قانون میں کیوں نہیں