صنعا(نیوز ڈیسک)سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ پانچ دنوں کے لیے یمن میں باغیوں پر بمباری کرنا بند کر دے گا تاکہ عام شہریوں تک ضروری امداد پہنچ سکے۔سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق، جنگ بندی اتوار اور پیر کی درمیانی شب سے نافذالعمل ہوگی۔تاہم اتحاد کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے دوران حوثی باغیوں کی جانب سے کی جانے والی ’عسکری نقل و حرکت‘ پر اس کے خلاف کارروائی کا حق اسے حاصل رہے گا۔جنگ بندی کا یہ اعلان تعز صوبے میں فضائی حملوں کے بعد ہوا ہے جہاں عام شہریوں سمیت 120 لوگوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق جمعے کواتحادی فوج کی جانب سے داغے جانے والے میزائلوں نے بحیرہ احمر کے شہر موخع میں ایک رہائشی علاقے کو نشانہ بنایا جس سے عمارتیں زمیں بوس ہو گئیں۔ہلاک ہونے والوں میں بورھے اور بچے بھی شامل ہیں۔طبی امداد کے علاوہ دوسری ضروری اشیا کی زبردست قلت محسوس کی جا رہی ہے،رضاکار طبی ادارے ڈاکٹرز وداؤٹ بورڈر کے حسن بوسینین نے کہا: ’اس سے یہ واضح ہے کہ اتحادیوں کی جانب سے فضائی حملے کے کیا رجحانات ہیں۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’اب وہ گھر، بازار اور ہر چیز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔‘تائز کے ایک رہائشی عبدالقادر الجنید نے بی بی سی کو بتایا کہ انتہائی بنیادی ضرورتوں کی شدید قلت ہے جن میں ڈیزل اور سبزیاں شامل ہیں۔انھوں نے کہا: ’ہمارے یہاں بجلی منقطع ہے۔ انٹرنیٹ نہیں ہے۔ ہر چیز منقطع ہے۔‘رضاکار امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ یمن پر پابندی نے انسانی بحران کو ابتر بنا دیا ہے۔ ملک کی ڈھائی کروڑ آبادی میں سے 80 فی صد سے زیادہ افراد کو کسی نہ کسی قسم کی امداد کی ضرورت ہے۔سعودی عرب کا کہنا ہے کہ باغی فضائی حملوں سے بچنے کے لیے رہائشی علاقوں میں پناہ لے رہے ہیں۔یمن میں جاری جنگ کے نتیجے میں بیشتر لوگوں کو کسی نہ کسی قسم کی امداد کی ضرورت ہے،لیکن اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ آبادی والے علاقوں میں بمباری کرنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔یہ غیر متوقع جنگ بندی اس وقت شروع ہوء? جب یمن کے صدر منصور ہادی نے سعودی عرب کے شاہ سلمان پر اس کے لیے زور دیا۔اس ماہ کے آغاز میں بھی اقوام متحدہ کی ثالثی میں ایک ہفتے کے لیے جنگ بندی کا اعلان ہوا تھا جو ناکام رہی۔یمن میں جاری جنگ کے دوران ابھی تک کم از کم 1693 شہری مارے جا چکے ہیں جبکہ 4000 زخمی ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ زیادہ تر نقصان فضائی حملوں کی وجہ سے ہوا ہے۔