کہا جاتا ہے کہ سیاست بڑی بے رحم چیز ہے۔ جب میں نے ساتھ چھوڑ جانے والوں کے بارے میں پوچھا جو ان کے مخالف کی کابینہ میں بیٹھے ہیں تو انہوں نے پنجابی میں کہا(پیرا ںتے گھٹ لگدا ایلیکن دکھ وی ہوندا اے ،چیڑے لوکاں دا آسرا، وزیر بنایا انہاں دی عزت کیتی او خلاف گلاں کرن تے دکھ تے ہوندا اے )۔ پائو ںپر چوٹ کم لگتی ہے لیکن اس کا دکھ تو ہوتا ہے، جن لوگوں پر آسرا ہو، وزیر بنایا ہو انہیں عزت دی ہو وہی لوگ خلاف باتیں کرنے لگیںتو دکھ تو ہونا ہے۔یہ بڑا برا محسوس ہوتا ہے، جن لوگوں کو ہم نے وزارتیں اور عزت دیں، اب وہ ہمارے خلاف بات کرتے ہیں تو یقینا تکلیف ہوتی ہے۔ جب میں نے ان سے ایسے لوگوں کے نام معلوم کئے تو انہوں نے فورا ہی ایک سابق وزیر کا نام لیا لیکن درخواست کی کہ اس نام کو ضبط تحریر میں نہ لایا جائے۔ تب انہوں نے بوسن، بھٹی اور ہراج وغیرہ کے نام لئے جو انہیں دھوکہ دے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت مسلم لیگ(ق) اکیڈمی کا کام کررہی ہے۔ جس نے ہر پارٹی میں موجود سیاست دانوں کی تربیت کا فریضہ انجام دیا۔ اپنے پسندیدہ ترین سیاست دان کا نام دریافت کرنے پر انہوں نے فوری سابق وزیر اعظم محمد خان جو نیجو کا نام لیا۔ وجہ دریافت کرنے پر کہا کہ وہ ایک حقیقت پسند اور ایماندر شخص تھے۔ جب میں نے ان سے پوچھا کوئی خواہش جو پوری نہ ہوئی ہوتو ان کا کہنا تھا کہ وہ ملک کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ خواہش ہنوز تمام نہیں ہوئی۔