ایکٹ آف پارلیمنٹ فوج کو عدالتوں کا کام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ انہیں اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے کی اجازت ہے ۔ فوج کو عدالتوں کے اختیار نہیں دیئے جا سکتے کیونکہ اس سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی ۔آئین کے بنیادی خدوخال میں آزاد عدلیہ شامل ہے ۔ قانون ساز اسمبلی نے قانون بنانے میں حکمت سے کام لیا ہے ۔ اداروں کو ان کے دائرہ کار کے مطابق اختیارات دیئے گئے ہیں۔ آرٹیکل 5 کے تحت شہریوں کا اپنے ملک کا فرمانبردار ہونا ضروری ہے ۔ تمام تر قوانین قرآن و سنت کی روشنی میں بنائے جائیں گے ۔ نظریہ پاکستان کا نظریہ تبدیل نہیں ہو گا اور ملک کو لا دین نہیں بنایا جا سکتا ۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس وقت کے اٹارنی جنرل سے پوچھا تھا کہ کیا پاکستان بھارت کے ساتھ کنفڈریشن بنا سکتا ہے اور اس حوالے سے اس کے کیا اختیارات ہیں ؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ کو اس کا تمام تر اختیار ہے مگر وہ اس سلسلے میں اپنا اختیار استعمال نہیں کرے گی کیونکہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان جو نظریاتی اختلاف ہے اور جس کی وجہ سے مسلمانوں نے علیحدہ ملک حاصل کیا تھا وہ ختم ہو جائے گا اور یہ نظریہ سے متصادم ہو گا ۔ اعلی عدلیہ کے اختیارات کو ترمیم کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ بعض بنیادی خدوخال کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔ اعلی عدلیہ کو تمام تر غیر آئینی اقدامات کو ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔ آئین میں سپریم کورٹ کا الگ سے ذکر ہے ۔ جس سے اس کے اختیارات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے آرٹیکل 184(3) کے تحت تمام تر اختیارات موجود ہیں جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ نے جو فیصلہ پڑھا ہے اس کو سپریم کورٹ نے اوور رول کر دیا تھا ۔