میں سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے عوامی نمائندے دیئے گئے اختیارات کے تحت کام کریں گے ۔ ہر قانون جو بنایا جائے وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہئے ۔ انہوں نے پاکستان لائزر فورم کیس کا بھی حوالہ دیا ۔ عدالت نے کہا کہ اسلم خان کا مقدمہ فیڈرل شریعت کورٹ میں ہے ۔ اے کے ڈوگر نے 17 ویں ترمیم پر بات کی ۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ پاکستانی عدالتیں آئین کے بنیادی خدوخال پر یقین رکھتی ہیں اور ان کو مسلسل تسلیم کیا ہے جبکہ بھارتی عدالتوں میں ایسا کچھ نہیں ہے ۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ عدالت کی پرائمری اور سکینڈری پاورز ہوتی ہیں بھارتی فیصلے کے مطابق عدلیہ کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں ۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ بنیادی حقوق کو کسی بھی ترمیم سے ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ کیا بنیادی حقوق میں بھی ترمیم ہو سکتی ہے ۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ 18 ویں ترمیم میں 3 آرٹیکلز میں ترمیم کی گئی ہے ۔ جسٹس سرمد نے کہاکہ کیا بنیادی حقوق کے پل کو ختم کیا جا سکتا ہے جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ بنیادی حقوق کو کسی قانون کے تحت ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ پارلیمنٹ کو اختیارات حاصل ہیں کیا وہ آئین میں ترمیم کے بنیادی حقوق پر قدغن لگا سکتی ہے ۔ اے کے ڈوگر نے کہا کہ ایسا نہیں کیا جا سکتا ۔ بنیادی حقوق کی گارنٹی تو آئین نے خود دے رکھی ہے کوئی بھی ترمیم کسی بنیادی آئینی ڈھانچے کو متاثر نہیں کر سکتی اگر ایسا ہو گا تو اسے عدالت ختم کر سکتی ہے ۔ آرٹیکل 10 اے ، 19 اے اور 25 اے میں ترمیم کی گئی ہے ۔ ان میں اضافہ کیا گیا ہے حقوق کو کم نہیں کیا گیا ۔