اسلام آباد(نیوز ڈیسک) برطانوی خبر رساں ایجنسی ”رائٹرز“ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے معاشی مرکز اور سب سے بڑے شہر کراچی کا کنٹرول طاقتور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے ایک طاقتور ریاستی ادارے کو منتقل کرنے کی مہم جاری ہے، ملک کی طاقتور خفیہ ایجنسی کی جانب سے پس پردہ رہ کر معاملات چلانے کا دور گزر چکا ہے اور اب وہ اس شہر کا کنٹرول ایم کیو ایم سے لینے کی مہم کی قیادت کررہی ہے۔خبر رساں ایجنسی نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میںایک اعلیٰ سرکاری افسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ کراچی پر غلبے کا معاملہ خاموشی کے ساتھ سرکتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ ”کراچی بہت بڑا ہے۔ بہت سی زمین، بہت زیادہ کاروبار، وسائل۔ اب کراچی پر کسی ایک پارٹی کو حکمرانی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔“خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ کراچی پر ایم کیو ایم اور خصوصاً الطاف حسین کی گرفت کمزور ہونے سے دیگر ایسی سیاسی پارٹیوں کے لئے جگہ پیدا ہوجائے گی جنہیں فوج کے زیادہ ہمدرد سمجھا جاتا ہے، مثلاً عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف۔ یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ دفاعی اداروں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے وزیراعظم نواز شریف کے لئے بھارت کے ساتھ تلخی کم کرنا مشکل ہوجائے گا، جس کا انہوں نے 2013ءکا الیکشن جیتنے کے بعد وعدہ کیا تھا۔دوسری جانب کراچی کی پولیس کو تشدد کے خاتمے کے لئے نہایت کمزور یا کرپٹ سمجھا جاتا ہے، لہٰذا شہریوں کی اکثریت فوج پر انحصار کرنے کے لئے رضامند ہے۔ ”رائٹرز“ کے مطابق سینئر سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ کراچی میں سویلین انتظامیہ کو ایک طرف کردیا گیا ہے اور رینجرز کے سربراہ اور صوبہ سندھ کے چیف ملٹری کمانڈر فیصلے کررہے ہیں۔
مزید پڑھئے:یوگا ورزش جو آ پ دفتر بیٹھےبھی کر سکتے ہیں
دونوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں ریاست کے دفاعی اداروں کے سربراہوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اہلکاروں کے مطابق ایم کیو ایم کے مرکز پر چھاپے یا الطاف حسین کے خلاف گزشتہ ماہ درج کئے گئے کیس سے پہلے بھی گورنمنٹ سے مشاورت نہیں کی گئی۔ 13 سال سے گورنر کے عہدے پر فائز عشرت العباد اور سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کو بھی ان ریگولر سیکیورٹی میٹنگز سے باہر رکھا جارہا ہے جن کی وہ کبھی سربراہی کیا کرتے تھے۔ ”رائٹرز“ کے مطابق کراچی میں اپنائی جانے والی نئی حکمت عملی سے واقفیت رکھنے والی ایک شخصیت کا کہنا ہے کہ اگر الطاف حسین الگ ہوجائیں تو ایم کیو ایم باقی رہے گی، اگر وہ الگ نہیں ہوتے تو ان کے ساتھ پارٹی بھی جائے گی۔