کراچی(نیوزڈیسک)حکام نے کہا ہے کہ حکومتِ سندھ نے پیر کے روز 2012ء میں ہوئے بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی آتشزدگی کے سانحے کی دوبارہ تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی کی کی تشکیل نو کرتے ہوئے اس کا نیا سربراہ مقرر کیا ہے، اور اس میں انٹرسروسز انٹیلی جنس، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس بیورو کے نمائندوں کو شامل کیا گیا ہے۔حکام نے بتایا کہ محکمہ داخلہ نے مطلع کیا ہے کہ نوتشکیل شدہ کمیٹی میں ایڈیشنل آئی جی سندھ پولیس خادم حسین بھٹی کی جگہ ڈی آئی جی ریپیڈ رسپانس فورس ڈاکٹر آفتاب پٹھان کو شامل کیا گیا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ پچھلی کمیٹی ایک اور رکن ڈی آئی جی کرائم برانچ مشتاق مہر کی جگہ ڈی آئی جی ایسٹ منیر شیخ کو شامل کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ اس سانحے کو ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہلاکت خیز صنعتی آتشزدگی قرار دیا گیا ہے۔ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کی آتشزدگی میں ڈھائی سے زیادہ افراد کی جانیں چلی گئی تھیں۔ایک اہلکار نے سندھ کے محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے اس نوٹیفکیشن کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا ’’اس کمیٹی کی تشکیل نو میں اہم نکتہ اس تحقیقاتی ٹیم میں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی سے ایک ایک اہلکار کی بطور رکن شمولیت ہے۔‘‘انہوں نے مزید بتایا کہ اس تحقیقاتی ٹیم کے دیگر دو اراکین پاکستان رینجرز سندھ کے کرنل سجاد بشیر اور فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر الطاف حسین کو تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔پچھلی ٹیم کے سربراہ کی برطرفی اور اس ٹیم کی تشکیل نو کے پسِ پردہ وجوہات کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے مذکورہ اہلکار نے کہا کہ سندھ پولیس کے سربراہ غلام حیدر جمالی نے یہ فیصلہ پچھلے سربراہ کے حوالے سے میڈیا کی رپورٹوں کے بعد کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ایڈیشنل آئی جی خادم حسین بھٹی خود ایف آئی اے میں کچھ انکوائری کا سامنا کررہے ہیں۔لہٰذا انہوں (پولیس کے سربراہ) نے تحقیقات کے نتائج کو غیر متنازعہ رکھنے کے لیے متعلقہ حکام کو اس ٹیم کی نئے سربراہ کے ساتھ تشکیلِ نو کی تجویز پیش کی۔اہلکار نے مزید کہا ’’اسی طرح کراچی آپریشن کی حالیہ پیش رفت اور اس سانحے سے متعلق چند ملزمان کے تازہ ترین انکشاف کے بعد مؤثر اور مکمل نتائج کے لیے انٹیلی جنس حکام کو اس میں شامل کیا جانا ضروری ہوگیا تھا۔‘‘بلدیہ ٹاؤن فیکٹری آتشزدگی کے بارے میں رینجرز کو ملنے والی نئی اطلاعات کے بعد حکام نے ’’تمام امکانات اور زاویوں‘ کے ساتھ اس سانحے کی دوبارہ تحقیقات کا فیصلہ کیا۔ستمبر 2012ء کے اس سانحے کو تقریباً فراموش کردیا گیا تھا، اور یہ پچھلے مہینے اس وقت دوبارہ سرخیوں کی زینت بنی، جب رینجرز کے ایڈوکیٹ جنرل میجر اشفاق احمد نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے قتل کے ملزم رضوان قریشی کی رپورٹ سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرائی۔
جے آئی ٹی کی جانب سے ریکارڈ کیے گئے رضوان قریشی کے بیان کے مطابق اس فیکٹری کے مالک کے بیس کروڑ روپے کے بھتّے کی عدم ادائیگی کے بعد نذرِ آتش کیا گیا تھا۔ جے آئی ٹی رپورٹ نے ملزم کو متحدہ قومی موومنٹ کا کارکن ظاہر کیا تھا، تاہم اسے متحدہ کی جانب سے مسترد کردیا گیا تھا۔مذکورہ اہلکار نے کہا کہ اگرچہ اس تشکیل نو کے باوجود اس ٹیم کا وہی اختیار برقرار رہے گا،جس کے تحت اس نے اس سانحے کے ’’تمام امکانات اور زاویوں‘‘ کا جائزہ لیا تھا۔اس ٹیم سے کہا گیا ہے کہ وہ تحقیقات ایک مہینے کے اندر اندر مکمل کرکے اپنی حتمی رپورٹ پیش کردے۔انہوں نے بتایا ’’لیکن تیس دن کی مدت کا آغاز تاحال نہیں ہوا ہے۔‘‘اس بات کی وضاحت کرتے ہوئیاہلکار نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اس ٹیم کے لیے اب تک اپنے اراکین کو نامزد نہیں کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’’جیسے ہی وزارتِ داخلہ کے ذریعے یہ نامزدگی موصول ہوگئی، یہ ٹیم کام شروع کردے گی اور تیس دن کے اندر اندر اپنا کام مکمل کرلے گی۔‘‘
بلدیہ ٹاؤن فیکٹری آتشزدگی: تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل نو
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں