ہنی سنگھ انڈیا کے مشہور پنجابی سنگر اور ریپر ہیں‘ یہ یویوہنی سنگھ کے نام سے مشہور ہیں‘ 1983ء میں کرم پورا دہلی میں پیدا ہوئے‘ باغی فطرت کے مالک تھے‘ بچپن ہی سے والدین اور اساتذہ سے لڑنا شروع کیا‘ والدین کو میوزک کا شوق تھا‘ والد محمد رفیع کے فین تھے‘ ان کے پاس رفیع صاحب کی پوری کولیکشن تھی جب کہ والدہ گانے کی شوقین تھیں‘ ہنی سنگھ کی آنکھ روزانہ محمد رفیع کی آواز سے کھلتی تھی‘ گانے کا شوق وہاں سے ہو گیا‘کالج میں پہنچے تو میوزک بنانا شروع کر دیا‘
بال (کیس) کٹوانے کی وجہ سے والد ناراض ہو گئے‘ ہنی سنگھ کو گھر چھوڑنا پڑ گیا اور یہ چھوٹے سے کوارٹر میں رہنے لگے‘ یہ سارا سارا دن کمپیوٹر پر میوزک بناتے رہتے تھے‘ فطرتاً جنونی ہیں لہٰذا یہ دن رات میوزک میں لگے رہتے تھے‘ قدرت مہربان ہوئی اور یہ 2003ء میں 20 سال کی عمر میں مقبول ہونا شروع ہو گئے‘ 2010ء میں ان کا طوطی بولنے لگا اور یہ بھارت اور دنیا بھر میں پھیلی پنجابی آبادی میں مشہور ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ 2012ء میں ہنی سنگھ نے دو فلموں کاک ٹیل اور مستان کو دو گانے دیے اور یہ دونوں گانے بھارت کی فلمی تاریخ کے مہنگے ترین گانے تھے‘ ہنی سنگھ نے فی کس 84 ہزار ڈالر وصول کیے‘ ان کے کنسرٹ بھی سارا سال ہوتے تھے اور یہ ان سے کروڑوں روپے کماتے تھے‘ یہ جب بھارت سے باہر جاتے تھے تو جہاز کی بزنس کلاس کی ساری سیٹیں ان کے سٹاف کے لیے بک ہوتی تھیں‘ خود فرسٹ کلاس میں سفر کرتے تھے‘ شہرت اور دولت نے ان کا دماغی توازن بگاڑ دیا اور یہ خود کو بھگوان سمجھنے لگے‘ یہ خود کو بھگوان کہتے بھی تھے‘ سارا سارا دن شراب اور چرس پیتے تھے اور انتہا درجے کے واہیات گانے بناتے تھے لیکن یہ کیوں کہ عوام میں مشہور تھے لہٰذا لوگ ان کے برے اور واہیات گانے بھی پسند کر لیتے تھے‘ 2011ء میں شادی ہو گئی لیکن بیوی اور خاندان کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے نہیں تھے‘
بیوی کی ایک دو بار پٹائی بھی کر دی اور معاملہ پولیس سٹیشن تک پہنچ گیا‘ شہرت‘ دولت اور طاقت ایک ایسی خوف ناک مثلث (ٹرائی اینگل) ہوتی ہے جس سے صرف نبی اور اولیاء ہی بچ سکتے ہیں‘ دنیا کے باقی 99 فیصد لوگ اس مثلث میں قدم رکھ کر اپنا توازن کھو بیٹھتے ہیں‘ انسان کو اس لیتھل ٹرائی اینگل (زہریلی مثلث) سے صرف دو عادتیں بچا سکتی ہیں‘ عاجزی اور سادگی‘ یہ دونوں عادتیں شہرت‘ دولت اور طاقت کی تابکاری کے سامنے سب سے مضبوط شیلڈ ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ انبیاء اور اولیاء کرام کو یہ شیلڈ پیدائش سے پہلے عنایت کر دیتا ہے لہٰذا یہ تابکاری سے محفوظ رہتے ہیں جب کہ باقی سب لوگ ہنی سنگھ ثابت ہوتے ہیں لہٰذا ہنی سنگھ بھی بہک گیا اور یہ تکبر اور نشے کا شکار ہو گیا‘
یہ واڈکا کی چار چار بوتلیں اور چرس کے بارہ بارہ سگریٹ پی جاتا تھا اور ظاہر ہے اس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ نکلنا تھا اور وہ نکلا‘ ہنی سنگھ ’’بائی پولر سینڈروم‘‘ کا شکار ہوگیا‘ اس نے سٹیج اور سیٹس پر بدتمیزی شروع کر دی اور یوں اس کا سٹارڈم اچانک ختم ہو گیا‘ یہ گھرمیں بند ہو گیا اور اس کے بعد ساڑھے سات سال تک گھر سے نہیں نکلا‘ ان میں اڑھائی سال ایسے بھی تھے جن میں اس نے اپنے کمرے سے باہر قدم نہیں رکھا تھا‘ یہ اس دوران کسی سے نہیں ملا‘ اس کا تعلق صرف ماں تک محدود ہو گیا تھا اور اس تعلق میں بھی ہاں اور ناں صرف دو لفظ رہ گئے تھے‘
بہرحال ساڑھے سات سال کی اس ’’جلاوطنی‘‘ کے بعد ایک نئے ہنی سنگھ نے جنم لیا اور یہ ایک ایمان دار‘ شان دار‘ عاجز اور توحید پرست انسان بن کر کمرے سے نکلا اور26اگست 2024ء کو ساڑھے سات سال کے وقفے کے بعد اس کا نیا البم گلوری آیا‘ یہ اس میں ماضی کے ہنی سنگھ سے بالکل مختلف تھا‘ یہ اب صوفی سنت اور اللہ لوگ بن چکا ہے‘ شراب اور چرس مکمل بند کر دی ہے اور مذہب کا مطالعہ کر رہا ہے‘ اس نے اسلام کو بھی پڑھا اور یہ اس کی تعلیمات سے بھی متاثر ہوا۔
مجھے چند دن قبل اس کا ایک طویل انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ انٹرویو دو گھنٹے پر محیط تھا او ر اس کا ’’کن ٹینٹ‘‘ واقعی لاجواب تھا‘ میں انٹرویو ایک ہی نشست میں دیکھ گیا‘ ہنی سنگھ نے انٹرویو میں اپنی پوری ’’ٹرانسفارمیشن‘‘ بتائی‘ اس کا پہلا رائز کیسے ہوا‘ فن کی پیک کیسے چھوٹی‘ نشے کا عادی کیسے ہوا‘ تکبر کا شکار کیسے بنا‘ خود کو بھگوان کیسے سمجھنا شروع کر دیا‘ بریک ڈائون کیسے ہوا‘ گھر میں ساڑھے سات سال کا ’’بن باس‘‘ کیسے لیا اور پھر ایک نیا جنم کیسے ہوا؟ ہنی سنگھ نے یہ ساری داستان پوری سچائی کے ساتھ بتائی‘ یہ بھی بتا دیا اس نے ریکوری کے بعد بیئر اور واڈکا کب کب پی‘ اس کی ہر بات انسپائرنگ اور سبق آموز تھی لیکن دو باتوں نے میرا دل جکڑ لیا‘ اس کا کہنا تھا مجھے شراب نے اتنا تباہ نہیں کیا جتنا تباہ میں چرس کے ہاتھوں ہوا‘ اس کا کہنا تھا شراب آپ کے جگر پر اثر انداز ہوتی ہے اور آپ کے پاس اس کا کوئی نہ کوئی توڑ ہوتا ہے لیکن چرس آپ کے دماغ کو سکیڑ دیتی ہے‘
یہ اس پر قابو پالیتی ہے جس کے بعد آپ غلط فیصلے کرتے چلے جاتے ہیں اور یوں آپ ختم ہو جاتے ہیں‘ اس کا کہنا تھا چرس پر ہر صورت پابندی ہونی چاہیے‘ لوگوں کو اس سے دور رہنا چاہیے‘ یہ نسلوں کو تباہ کر دیتی ہے‘ یہ سن کر میں نے اپنے آپ سے پوچھا ’’کیا ہمارا ملک چرس سے محفوظ ہے؟‘‘ اس کا جواب نہیں تھا‘پاکستان چرس اور اس کی بھی ماں آئس میں بری طرح دھنس چکا ہے‘ ہم نے آج سے 35 سال قبل انڈین پنجاب کو ہیروئن کا نشانہ بنایا تھا‘ پاکستانی سمگلرز نے انڈین پنجاب کو ہیروئن کے ذریعے ’’اڑتا پنجاب‘‘ بنا دیا تھا اور ہماری ریاست تماشا دیکھتی رہی تھی‘ آج بھارت آئس کے ذریعے اس کا بدلہ لے رہا ہے‘
اس نے ہماری اپر کلاس اور مڈل کلاس میں آئس گھسا دی ہے اور ہم خاموشی سے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں‘ چرس پہلے سے پاکستان میں موجود تھی‘ ہم اسے ’’قلندری نشہ‘‘ کہتے تھے‘ اب اس قلندری نشے میں آئس شامل ہو چکی ہے چناں چہ پاکستان کی نوجوان نسل چرس اور آئس دونوں کا شکار ہے‘اس سے آپ ملک کے مستقبل کا اندازہ کر لیجیے‘ کاش آرمی چیف اس پر بھی توجہ دیں اور جنرل فیصل نصیر کو ڈیٹا جمع کرنے کی ذمہ داری دے دیں اور جب ڈیٹا جمع ہو جائے تو دہشت گردی کی طرح اس کے خلاف بھی جہاد کا اعلان کر دیں ورنہ ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہے گی‘ ہم اگر معاشی طور پر تگڑے بھی ہو گئے تو بھی زمین بوس ہو جائیں گے۔
ہنی سنگھ کی دوسری بات دوبئی سے متعلق تھی‘ اس کا کہنا تھا مجھے ایک گینگ نے دھمکی دی‘ پولیس نے دھمکی کو جینوئن قرار دے دیا جس کے بعد میں سخت سیکورٹی حصار میں رہنے لگااور میرا دم گھٹنے لگا چناں چہ میں دوبئی شفٹ ہو گیا‘ اینکر نے پوچھا‘ آپ نے دوبئی کا انتخاب کیوں کیا؟ اس کا فوری جواب تھا ’’دوبئی دنیا کا محفوظ ترین شہر ہے‘ میں لاس اینجلس‘ نیویارک‘ لندن اور آسٹریلیا میں اتنا محفوظ نہیں ہوں جتنا میں خود کو دوبئی میں محفوظ محسوس کرتا ہوں‘‘ ہنی سنگھ کے اس اعتراف نے بھی میرا دماغ پکڑ لیا‘ آپ ذرا تصور کیجیے‘ انڈیا کا وہ ٹاپ پنجابی سنگر جس نے لتا منگیشکر‘ محمد رفیع اور کشور کمار سے دس گنا زیادہ معاوضہ لیا جس کے کروڑوں فینز ہیں اور جو اگر دنیا کے کسی بھی ملک میں رہنا چاہے تو وہ ملک اسے فوراً شہریت دے دے گا لیکن وہ پوری دنیا اور اپنے ملک پر دوبئی کو فوقیت دے رہا ہے‘ کیا یہ حیران کن بات نہیں؟ آپ دوبئی کا موسم دیکھ لیں‘ اس کے صرف دو موسم ہیں‘
گرمی اور شدید گرمی‘ اس کا رقبہ محض 4114مربع کلومیٹر ہے‘ اس میں پہاڑ‘ دریا اور ندیاں بھی نہیں ہیں اور اس میں چنار کے درخت اور انگور کے باغ بھی نہیں ہیں‘ دوبئی میں دوسرے عرب ملکوں کے مقابلے میں تیل بھی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن یہ اس کے باوجود پوری دنیا کے سرمایہ کاروں‘ فن کاروں‘ بزنس مینوں اور سیاحوں کا مرکز ہے لہٰذا دائود ابراہیم ہو‘ ہالی ووڈ کے سٹار ایکٹرز ہوں‘ بل گیٹس اور وارن بفٹ ہوں یا پاکستان‘ بھارت‘برطانیہ‘ روس‘ یوکرائن‘ سنٹرل ایشیا اور ایران کے بزنس مین ہوں یا پھر ہنی سنگھ جیسے فن کار ہوں‘ یہ سیدھے دوبئی جاتے ہیں‘ یہ دنیا بھر سے پیسے کماتے ہیں اور اسے خرچ دوبئی میں کرتے ہیں‘ کیوں؟ آپ نے کبھی سوچا اس کی تین وجوہات ہیں‘ امن‘ استحکام اور بزنس فرینڈلی انوائرمنٹ اور یہ تینوں وجوہات کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ستون کی حیثیت رکھتی ہیں‘
آج ہم نے اگر آئی ایم ایف سے ڈیل کرنی ہو یا دو پاکستانی بزنس مینوں نے سودا کرنا ہو یا دو مافیاز نے آپس میں ملنا ہو تو یہ سیدھے دوبئی جاتے ہیں‘ کیوں؟ اور اس میں پاکستان کے لیے ایک زبردست سبق چھپا ہوا ہے اور وہ سبق یہ ہے آپ بے شک ایس آئی ایف سی (سپیشل انویسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل) جیسے درجنوں ادارے بنا لیں لیکن آپ کے پاس سرمایہ کاری نہیں آئے گی‘ کیوں؟ کیوں کہ پاکستان میں دوبئی جیسا ایک بھی ایسا شہر نہیںجس میں امن‘ استحکام اور بزنس فرینڈلی ماحول ہو‘ جس میں لوگ خود کو محفوظ سمجھتے ہوں لہٰذا ہم اگر ملک میں سرمایہ کاری چاہتے ہیں توپھر ہمیں کسی ایک شہر کو دوبئی جیسا پرامن‘ محفوظ‘ مستحکم اور بزنس فرینڈلی شہر بنا نا ہوگا جس کے بعد دنیا بھر کے لوگ یہاں آ جائیں گے اور ہمیں انہیں لانے کے لیے کسی قسم کی جدوجہد نہیں کرناپڑے گی‘
دوسری صورت میں آپ خواہ ایک سو ایس آئی ایف سی بنا لیں یہاں کوئی نہیں آئے گا چناں چہ میرا مشورہ ہے آپ کوئی نیا شہر ڈویلپ نہ کریں آپ صرف اسلام آباد کو دوبئی بنا دیں‘ اس کے سارے قوانین اور ساری روایات دوبئی جیسی کر دیں‘ آپ کو کسی ایس آئی ایف سی کی ضرورت نہیں رہے گی ورنہ چند ماہ بعد ایس آئی ایف سی کی میٹنگز بھی دوبئی میں ہوں گی اور وزیراعظم بھی پام جمیرا سے ملک چلایا کریں گے۔