نومبر کی 11 تاریخ کو اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے مجھے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا‘ اس کے لیے سپیشل کانووکیشن کا انتظام کیا گیا تھا‘ گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے جب ڈگری سونپی اور پورے ہال نے تالیاں بجائیں تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ یہ آنسو آنے بھی چاہیے تھے‘ میں 32 سال پہلے اس یونیورسٹی کا نالائق اور غیر معروف طالب علم تھا مگر آج اللہ نے مجھے اس اعزاز کے قابل بنا دیا‘ میں اپنے آنسو کیسے کنٹرول کرسکتا تھا چناں چہ میں دیر تک آنکھوں کی نمی پینے کی کوشش کرتا رہا۔
میں 1989ء میں پہلی مرتبہ بہاولپور آیا تھا‘ میرے والد مجھے وکیل بنانا چاہتے تھے چناں چہ میں نے پنجاب یونیورسٹی کے لاء کالج میں داخلہ لے لیا‘ ہاسٹل میں اپنا سامان فٹ کیا اور باقی زندگی کورٹ کچہریوں میں گزارنے کا فیصلہ کر لیا‘ میرے ایک دوست بھی میری طرح ایل ایل بی کرنا چاہتے تھے مگر بدقسمتی سے وہ میرٹ پر نہ آ سکے اور انہوں نے اگلے سال دوبارہ کوشش کا فیصلہ کیا تاہم انہوں نے خود کو مصروف رکھنے کے لیے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا‘ میں انہیں چھوڑنے کے لیے ان کے ساتھ بہاولپور آ گیا‘ یہ میرا بہاولپور اور صحافت کے ساتھ پہلا تعارف تھا‘ ہم ٹرین کے ذریعے پہنچے‘ سردیاں شروع ہو رہی تھیں‘ صحرا کی صبحیں پوری دنیا میں ٹھنڈی ہوتی ہیں لیکن بہاولپور کی وہ صبح کچھ زیادہ ہی ٹھنڈی تھی‘ ہم نے ریلوے سٹیشن سے چائے اور دو دو بن لیے‘ آپ یقین کریں چائے اوربن بھی ٹھٹھرے ہوئے تھے‘ اس زمانے میں وہاں سائیکل رکشہ چلتا تھا‘ سائیکل کے پیچھے رکشہ فٹ ہوتا تھا‘
اس میں دو لوگ بیٹھ جاتے تھے اوررکشے والا اسے کھینچتا تھا‘ ہم بھی سامان سمیت سائیکل رکشہ پر چڑھ گئے‘ رکشہ ڈرائیور مسکین اور لاغر تھا‘ وہ سائیکل چلاتے ہوئے سرائیکی زبان کا کوئی گیت گاتا تھا لیکن جوں ہی چڑھائی آتی تھی تو لمبی لمبی ‘بھاری بھاری سرائیکی گالیاں گانے کی جگہ لے لیتی تھیں‘ میں نے گانے کا گالیوں سے کمبی نیشن پہلی بار دیکھا تھا‘ میں دیر تک ہنستا رہا‘ ہم بہرحال سیدھا یونیورسٹی پہنچ گئے‘ اس زمانے میں ماس کمیونی کیشن کا ڈیپارٹمنٹ اولڈ کیمپس میں ہوتا تھا‘ ایک طرف وائس چانسلر اور یونیورسٹی انتظامیہ کے دفتر تھے اور دوسری طرف برآمدے میں صحافت اور لاء کی کلاسز ہوتی تھیں‘
صحافت کا شعبہ اوپر تھا اور لاء ڈیپارٹمنٹ نیچے‘ دونوں کے سامنے کینٹین تھی اور بیک سائیڈ پر لڑکیوں کے ہاسٹل‘ نیو کیمپس شہر سے دور صحرا میں تھا‘ یہ بغداد الجدید کہلاتا تھا اور زیادہ تر شعبے وہاں ہوتے تھے‘ اولڈ کیمپس سے ہر آدھ گھنٹے بعد بغدادالجدید کے لیے بس چلتی تھی اور طالب علم سارا دن اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آتے جاتے رہتے تھے‘ ہم دونوں ہاتھ رگڑتے ہوئے ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ پہنچ گئے‘ یہ اس شعبے کی پہلی کلاس اور پہلا بیچ تھا‘ یونیورسٹی نے 1989ء میں اپنا ڈگری کورس شروع کیا تھا چناں چہ جس نے بھی اپلائی کیا اسے داخلہ مل گیا‘
میں اپنے دوست کے ساتھ کلاس میں بیٹھ گیا‘ تھوڑی دیر بعد ایک بزرگ کلاس میں تشریف لائے‘ وہ سر سے گنجے اور چہرے سے خاصے تجربہ کار دکھائی دیتے تھے‘ ہم سب احترام میں کھڑے ہو گئے جب کہ وہ ہکا بکا ہو کر ہمیں دیکھنے لگے‘ چند سیکنڈ بعد پتا چلا ہم جسے استاد سمجھ رہے ہیں وہ طالب علم ہے‘ اس کے بعد ایک اورصاحب آئے‘ ان کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں اور وہ بھی ٹھیک ٹھاک بال بچے دار دکھائی دیتے تھے‘ کلاس ان کے احترام میں بھی کھڑی ہو گئی لیکن جلد ہی نیوٹن کے چوتھے قانون سے پتا چلا یہ بھی طالب علم ہے‘ ان کے بعد ایک بزرگ خاتون تشریف لائیں اور وہ بھی آخر میں سٹوڈنٹ نکلیں غرض لوگ آتے گئے اور ہر شخص شروع میں استاد اور آخر میں سٹوڈنٹ نکلتا رہا‘ آخر میں دو نوجوان لڑکے کلاس میں داخل ہوئے‘
ہم انہیں سٹوڈنٹ سمجھ کر بیٹھے رہے لیکن وہ استاد نکلے‘ ایک میاں ذوالقرنین تھے اور دوسرے سجاد احمد پراچہ تھے‘ پتا چلا شاگرد بڑے اور استاد عمر میں چھوٹے ہیں اور طالب علموں کو پڑھنا اور استادوں کو پڑھانا نہیں آتا‘ یہ ایک اتنی دل چسپ صورت حال تھی کہ میں نے لاء چھوڑ کر صحافت میں داخلہ لینے کا فیصلہ کر لیا‘ میں اٹھ کر سیدھا کلرک کے پاس گیا اور اس سے پوچھا ’’کیا میں اب صحافت میں داخلہ لے سکتا ہوں؟‘‘ وہ ایک خشک مزاج کا سیریس شخص تھا‘ اس نے مکھی مارنے کے سٹائل میں فارم میرے سامنے پھینکا اور کہا ’’ہاں اگر تم آج فارم جمع کرا دو اور کل فیس تو تمہارا داخلہ ہو سکتا ہے لیکن تمہیں اس جیل میں آنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ میں نے ہنس کر اس کا شکریہ ادا کیا‘ فارم پر کیا‘ اسی دن فیس جمع کرائی اور یوں صحافت اور بہاولپور دونوں کا ہو گیا۔
میں آج جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو اپنے آپ سے ایک سوال ضرور کرتا ہوں ’’میں اگر اس دن اپنے دوست کو بہاولپور چھوڑنے نہ جاتا تو کیاآج میں جاوید چودھری ہوتا؟‘‘ مجھے ہر بار یہی جواب ملتا ہے ہرگز نہیں‘ میں حقیقت میں کچھ بھی ہو سکتا تھا‘ میں بہت اچھا وکیل بن سکتا تھا‘ شاید جج بھی بن جاتا یا پھر سی ایس ایس کر کے سرکاری ملازم ہو جاتا لیکن یہ طے تھا میں صحافی ہوتا اور نہ آج میری کوئی جان پہچان ہوتی‘ یہ سب اس ذات کا کرم ہے جو لوگوں کے راستے اور مقدر بدلتی رہتی ہے‘ میں نے بہرحال صحافت پڑھنی شروع کر دی‘میں پڑھنے کا تکلف ہی کر رہا ہوں‘ میں نے صحافت کے شعبے میں جانا شروع کر دیا تھا‘ میاں ذوالقرنین فلاسفر ٹائپ شخص تھے‘ انہیں بے شمار ناول اور افسانوں کے اقتباسات ازبر تھے‘ میں نے ان سے یہ فن سیکھ لیا‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت اچھا حافظہ دے رکھا ہے‘ مجھے آدھی آدھی کتاب یاد ہو جاتی تھی‘ میں آج تک یہ فن اندھا دھند استعمال کرتا ہوں اور میاں ذوالقرنین کا شکریہ ادا کرتا ہوں‘
سجاد پراچہ محنتی شخص تھے‘ ان کے چہرے پر ہر وقت ایک شرمیلی سی مسکراہٹ رہتی تھی‘ یہ مسکراہٹ آج بھی اپنی جگہ قائم ہے‘ میں نے ان سے بھی بہت کچھ سیکھا‘ ہماری کلاس ’’تجربہ کار‘‘ لوگوں پر مشتمل تھی‘ ان سب کو سب کچھ آتا تھا لیکن یہ صحافت اور کتاب دونوں سے پرہیز کرتے تھے اور یہ اس دور اور اس کلاس کی بہت بڑی خوبی تھی چناں چہ وہاں سارا دن قہقہے لگتے رہتے تھے‘ کوئی کسی سے الجھتا نہیں تھا‘ سب خوش تھے‘ بہاولپور حقیقتاً ایک شان دار شہر تھا‘ اس شہر میں بڑے شہروں کی تمام سہولتیں موجود تھیں‘ ائیرپورٹ بھی تھا‘ ریلوے جنکشن بھی‘ ریڈیو سٹیشن بھی‘ بڑی اور پرانی لائبریریاں بھی اور یونیورسٹی بھی‘ اس کے ساتھ ساتھ چولستان جیسا صحرا اور ستلج جیسا دریا بھی تھا اور ہاکڑا جیسی ہزاروں سال پرانی تہذیب بھی اور عباسی خاندان کے پرانے نواب بھی اور ان کے محلات اور قبرستان بھی‘ میں ان تمام چیزوں کے درمیان پنڈولم کی طرح لرزتا رہا‘ میں نے جی بھر کر کتابیں پڑھیں‘ جی بھر کر شہر میں گردش کی اور جی بھر کر چولستانی تہذیب دیکھی لیکن اگر کوئی کام نہیں کیا تو وہ پڑھائی تھی‘
میں کلاس کا نالائق ترین طالب علم تھا‘ کلاسز بھی پوری نہیں تھیں‘ ٹیچرز سے بھی تعلقات اچھے نہیں تھے اور کلاس فیلوز کے ساتھ بھی کھچائو تھا لہٰذا میں ڈیپارٹمنٹ میں ’’پرسونا نان گراٹا‘‘ تھا لیکن آپ اس کے باوجود رٹے کا کمال دیکھیے‘ میں نے ڈیپارٹمنٹ میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کر لی اور اس شعبے کا پہلا گولڈ میڈلسٹ بھی ہو گیا اور اس کے بعد گرتا پڑتا‘ گھسٹتا‘ رگڑتا صحافت میں بھی آ گیا‘ اللہ تعالیٰ کو نہ جانے کس وقت مجھ پر ترس آ گیا اور اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا‘ اس کے بعد کی کہانی کوئی کہانی نہیں ہے چناں چہ میں بہاولپور کی طرف واپس آتا ہوں۔
بہاولپور سے ایک اخبار نکلتا تھا روزنامہ ستلج‘ ایک دن اس کی سیڑھیاں اترتے ہوئے میری ملاقات ایک گورے چٹے نوجوان سے ہو گئی‘ اس نے مجھے اپنی پھٹی پرانی موٹر سائیکل پر لفٹ دی اور میں نے بدلے میں اسے تھڑے پر بٹھا کر کھانا کھلایا‘ تھڑے پر کھانے کا یہ اس کا پہلا تجربہ تھا لہٰذا وہ شرمندگی سے دائیں بائیں دیکھ کر لقمے لے رہا تھا اور میں قہقہے لگا رہا تھا‘ اس کا نام محمد شہزاد تھا اور وہ پنجاب ہائی وے میں اوورسیز تھا‘ اس نے انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا ہوا تھا‘ یہ اس زمانے میں ایف اے کے برابر سمجھا جاتا تھا‘ اس میں دو حیران کن خوبیاں تھیں‘ وہ بہت خوب صورت لکھتا تھا اور دوسرا اس میں بلا کی حس مزاح تھی‘ ہم دونوں شاید بچھڑی ہوئی روحیں تھیں‘اس لیے دونوں کی خوف ناک دوستی ہو گئی اور یہ سارا دن اور آدھی رات میرے ساتھ رہتا تھا‘ میرے ساتھ ڈیپارٹمنٹ آتا تھا اور میرے ساتھ ہی ہاسٹل اور جب پورے شہر میں اُلو بولنے لگتے تھے تو یہ اپنی پرانی موٹر سائیکل پر پھٹ پھٹ کرتا ہوا گھر چلا جاتا تھا‘
میرے کلاس فیلوز کہتے تھے ’’تم لوگ فیس ایک دیتے ہو لیکن پڑھتے دو ہو‘ یہ ناانصافی ہے‘‘ اور ہم قہقہہ لگا کر کینٹین پر چلے جاتے تھے‘ میں نے اسے ایک دن کہا ’’ شہزادتم بی اے کیوں نہیں کر لیتے؟‘‘ اس کا جواب تھا ’’مجھے اس کا کیا فائدہ ہو گا؟‘‘ میں نے ہنس کر کہا ’’تم اس کے بعد اپنا نام محمد شہزاد بی اے لکھ سکو گے‘‘ اس نے بھی قہقہہ لگایا مگر ہم نے اگلے دن اس کا بی اے کا پرائیویٹ داخلہ بھجوا دیا اور ہمارے پانچ لوگوں نے اسے پڑھانا بھی شروع کر دیا‘
یہ بی اے نہیں کرنا چاہتا تھا مگر ہمارا دل رکھنے کے لیے اس نے پیپرز دے دیے اور خوش قسمتی سے پاس بھی ہو گیا‘ہمارے یونیورسٹی انتظامیہ سے بہت اچھے تعلقات تھے‘ وائس چانسلر مصباح العین اردو سپیکنگ تھے‘ کیمسٹری کے پروفیسر تھے اور وہ ہماری شرارتوں کو بہت پسند کرتے تھے‘ ہم نے ان سے درخواست کر کے شہزاد کو ماس کمیونی کیشن میں داخل کرا دیا جس کے بعد یہ چھپ کر نہیں بلکہ سینہ تان کر ڈیپارٹمنٹ میں آنے لگا‘میری مدت اس وقت پوری ہو چکی تھی‘ میں ڈگری مکمل کر کے لاہور چلا گیا جب کہ شہزاد پڑھتا رہا اور یہ آج پروفیسر ڈاکٹر محمد شہزاد رانا ہیں اور بہاولپور یونیورسٹی کے میڈیا اینڈ ماس کمیونی کیشن ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں (جاری ہے)۔