جامعۃ الرشید ملک کا معتبر اسلامی دارالعلوم ہے‘ یہ مدرسہ سندھ کی متمول مذہبی شخصیت مفتی رشید احمد لدھیانوی نے 1977ء میں بنایا تھا‘ مفتی صاحب اپنے زمانے کی بااثر دینی شخصیت تھے‘ یہ افغانستان میں جہاد کا زمانہ تھا‘ مفتی صاحب افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے چناں چہ سینکڑوں کی تعداد میں افغان لیڈرز مفتی صاحب کے شاگرد رہے‘
مفتی صاحب ذاتی حوالوں سے بھی حیران کن انسان تھے‘ انتہا درجے کے صفائی پسند تھے‘ اپنے جامعہ کے غسل خانے تک اپنی نگرانی میں صاف کراتے تھے‘ وہ دیوار کے ساتھ خود ٹیک لگاتے اور نہ کسی دوسرے کو لگانے دیتے تھے‘ ان کا فرمانا تھا اس سے دیوار پر پسینے کے نشان لگ جاتے ہیں اور یہ جمالیاتی حس کی توہین ہے‘ ان کا کوئی طالب علم یا خادم بجلی کا بٹن آن کرتے ہوئے اگر سوئچ یا سوئچ بورڈ پر گندا ہاتھ یا پورا ہاتھ لگا دیتا تھا تو آپ ناراض ہو جاتے تھے‘ فرمایا کرتے تھے سوئچ انگلی سے دبایا جاتا ہے‘ بورڈ کے ساتھ گلے ملنے کی کیا ضرورت ہے؟ مفتی صاحب نے جسم کے بالائی حصے کے لیے الگ اور زیریں حصے کے لیے دوسرا تولیہ رکھا ہوا تھا‘ یہ اپنے شاگردوں کو بھی دو تولیے استعمال کرنے کی تلقین کرتے تھے‘ وقت کے انتہائی پابند تھے‘ ہاتھ صاف کر کے ملاتے تھے‘ نرم گفتار بھی تھے اور پوری توجہ کے ساتھ دوسروں کی بات بھی سنتے تھے‘ مفتی رشید احمد صاحب کا 2002ء میں وصال ہو گیا لیکن یہ کراچی میں ایک شان دار مدرسہ چھوڑ گئے‘ ان کے بعد ان کے شاگرد خاص مفتی عبدالرحیم نے جامعہ کی ذمہ داری سنبھال لی اور کمال کر دیا‘ میرا مفتی عبدالرحیم اور جامعۃ الرشید کے ساتھ پہلا تعارف 2000ء میں ہوا‘
مجھے ان کی دعوت موصول ہوئی اور میں پہلی مرتبہ جامعہ آیا اور سچی بات ہے مجھے ان کے انتظام و انصرام‘ کیمپس کی صفائی اور طالب علموں کے ڈسپلن نے بہت حیران کیا‘ میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ کسی مدرسے میں سوئمنگ پول دیکھا اور اس میں بچے اور استاد باقاعدہ سوئمنگ بھی کر رہے تھے‘ جامعہ کا کچن صاف ستھرا تھا‘ کھانے پکانے‘ کھانا سرو کرنے اور کھانا کھانے والے تینوں میں ڈسپلن اور صفائی تھی‘
کیمپس میں کسی جگہ کوئی کاغذ یا ریپر نہیں تھا‘ جوتے بھی ایک ترتیب سے رکھے ہوئے تھے‘ نمازی مسجد کےسامنے یا کمروں کی دہلیز پر جوتے اتار کر اندر چلے جاتے تھے تو طالب علم آ کر انہیں باقاعدہ سیدھا کر کے ترتیب سے لگا دیتے تھے تاکہ مہمان یا نمازی کو باہر نکلتے وقت جوتوں کا رخ نہ موڑنا پڑے‘ یہ لوگ اس زمانے میں بلڈ بینک بھی چلا رہے تھے‘
پورے کراچی سے خون جمع کر کے ضرورت مندوں کو مفت دیا جاتا تھا‘ انگریزی سکول بھی شروع کیا تھا اور اسلام کے نام سے روزنامہ اور ضرب مومن کے نام سے میگزین بھی شائع کر رہے تھے‘ میں یہ سب دیکھ کر متاثر ہوا تاہم مجھے ان لوگوں کے موقف میں بلاضرورت سختی محسوس ہوئی‘ مثلاً یہ لوگ تصویر کو ’’حلال‘‘ نہیں سمجھتے تھے لہٰذا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے علاوہ تصویر نہیں بنواتے تھے‘ کیمپس میں کیمرہ ممنوع تھا‘
اخبار اوررسائل میں بھی جان داروں اور انسانوں کی تصاویر شائع نہیں ہوتی تھیں‘ تصویر چھاپنا مجبوری ہوتی تھی تو یہ تصویر کا ’’سرکاٹ‘‘ دیتے تھے یا چہرے کے نقش ایڈٹ کر دیتے تھے‘ ٹیلی ویژن کے انتہائی خلاف تھے‘ یہ اس کا نام تک سننا پسند نہیں کرتے تھے‘ انگریزی لباس بھی نا پسند تھا‘ میں پتلون پہن کر جامعہ میں چلا گیا تھا‘ میں نے دیکھا طالب علم اور اساتذہ مجھے حیرت سے دیکھ رہے ہیں لیکن بہرحال قصہ مختصر اس کے باوجود مجھے ان لوگوں نے بے انتہا محبت اور عزت دی اور یوں میرا ان کے ساتھ ایک تعلق استوار ہو گیا اور یہ تعلق آج 2023ء تک قائم ہے‘
میں اس دوران بیسیوں مرتبہ مفتی عبدالرحیم صاحب سے بھی ملا اور ان کے احباب سے بھی‘ مفتی صاحب عرف عام میں استاد صاحب کہلاتے ہیں‘ یہ میرے گھر بھی تشریف لائے اور میرے اہل خانہ کو بے تحاشا دعائیں بھی دیں اور مجھے ان کے ساتھ عمرہ کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔میں 2010ء میں جامعہ کے کانووکیشن میں شریک ہوا تھا اور مجھے پانچ مارچ 2023ء کو جامعہ کے 14 ویں کانووکیشن میں بھی شرکت کا موقع ملا‘
اس تقریب میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری‘ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ‘ سابق کور کمانڈرز اور ریٹائر اور حاضر سروس جنرلز بھی شامل تھے اور میرے دوست اور انتہائی مثبت رجحانات کے مالک صحافی سلیم صافی بھی‘ جامعہ میں 22 سال میں بے تحاشا تبدیلیاں آگئیں‘ پہلی تبدیلی ان کے رویے میں دیکھی‘ آج سے 20سال پہلے تک جامعہ میں تصویر اور کیمرہ کی گنجائش نہیں تھی جب کہ اب جامعہ کا باقاعدہ میڈیا اور ڈیجیٹل سیل بھی ہے اور طلباء اور استاد سیلفیز بھی بنواتے ہیں‘
مفتی عبدالرحیم بھی ٹیلی ویژن کو دو انٹرویوز دے چکے ہیں‘ ایک انٹرویو سلیم صافی نے کیا اور دوسرے کی مجھے سعادت حاصل ہوئی جب کہ یہ یوٹیوب اور ڈیجیٹل میڈیا پر بھی بے شمار مرتبہ آ چکے ہیں‘ جامعہ کے باقی اساتذہ اور طلباء بھی اب کیمرے کو برا نہیں سمجھتے اور یہ تبدیلی مثبت بھی ہے اور قابل تقلید بھی‘ انسان وقت کے ساتھ چلنے والا جان دار ہے‘ یہ وقت کو مسترد کر کے اکثر خسارے میں رہتا ہے اور جامعہ نے اس حقیقت کو تسلیم کر کے سمجھ داری کا ثبوت دیا‘
نائین الیون کے بعد امریکا اور اقوام متحدہ نے الرشید ٹرسٹ کو بلیک لسٹ کر دیا تھا مگر جب مختلف سفیروں اور اسٹیبلشمنٹ کے اہم لوگوں نے جامعہ کے دورے شروع کیے تو یہ ان کا کام دیکھ کر حیران رہ گئے اور یوں یہ پابندیاں ختم ہوتی چلی گئیں‘ طالبان اور افغانستان میں امریکی نژاد حکومت کے اہلکار دونوں مفتی عبدالرحیم کا بہت احترام کرتے تھے‘ مفتی صاحب نے پاک افغان تعلقات میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا‘ یہ آج بھی افغانستان کی طالبان حکومت اور پاکستان کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے میں پیش پیش ہیں‘
یہ لوگ افغان ایشو کے ماہر بھی ہیں چناں چہ ریاست اور عالمی دنیا افغانستان کی صورت حال اور روایات سمجھنے کے لیے ہمیشہ ان کے پاس آتی ہے‘ یہ لوگ دونوں ملکوں بلکہ ترکی میں بھی فلاح وبہود کے سینکڑوں پراجیکٹس چلا رہے ہیں‘ مجھے پانچ مارچ کو یہ جان کر بھی خوشی ہوئی سندھ حکومت نے جامعۃ الرشید کو الغزالی یونیورسٹی کے نام سے یونیورسٹی کا چارٹر بھی دے دیا ہے اور یہ لوگ دین اور دنیا دونوں شعبوں کی اکٹھی تعلیم دیں گے‘
مجھے یقین ہے یہ یونیورسٹی آنے والے دنوں میں عالم اسلام کی اہم ترین درس گاہ ہو گی‘ میں یہ جان کر بھی حیران رہ گیا جامعہ میں سینکڑوں کی تعداد میں نسٹ‘ لمزاور یو کے‘ امریکا اور کینیڈا کے اعلیٰ اداروں سے فارغ التحصیل طالب علم بھی زیرتعلیم ہیں‘ یہ نوجوان جدید تعلیم کے بعد قدیم اور اسلامی تعلیم کے لیے یہاں داخل ہوئے ہیں‘ طالب علموں میں ڈاکٹرز‘ انجینئرز‘ سافٹ ویئر انجینئرز‘ پی ایچ ڈیز اور سوشل اورپیور سائنسز کے سینکڑوں طالب علم ہیں‘
یہ لوگ جدید شعبوں سے ہو کر قدیم علوم کی طرف لوٹے ہیں اور یہ باریش بھی ہیں‘ حلیم بھی‘ باادب بھی اور پکے نمازی بھی اور ان کے علم کا لیول بھی عام یونیورسٹیوں کے طالب علموں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے‘ یہ نوجوان درجنوں جدید اور قدیم کتابیں پڑھتے ہیں‘ جامعہ نے ابوبکر نام کے ایک نوجوان کو میری مدد کی ذمہ داری دے رکھی تھی‘ یہ نوجوان نسٹ یونیورسٹی سے فنانس اینڈ اکائونٹنگ کا ڈگری ہولڈر ہے‘
میں اس کے ہاتھ میں ’’سٹارٹ اپ نیشن‘‘ کتاب دیکھ کر حیران رہ گیا‘ یہ کتاب جدید اسرائیل کے عروج سے متعلق ہے اور میرا خیال ہے یہ ترجمہ کرا کر پوری مسلم دنیا کو پڑھائی جانی چاہیے‘ یہ نوجوان ممتاز مفتی صاحب کا بھی فین ہے اور یہ جدید کتابیں بھی پڑھتا ہے‘ یہ جامعۃ الرشید میں کلیتہ الشرعیہ کا طالب علم ہے‘ جامعہ میں ایسے نوجوانوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے‘
مجھے جن نوجوانوں نے ائیرپورٹ سے لیا تھا وہ بھی نسٹ سے ڈگری ہولڈر تھے اور مجھے ایک نوجوان ڈاکٹر جامعہ سے ہوٹل بھی چھوڑنے آئے‘ ان کا نام ڈ اکٹر عمار تھا‘ یہ سندھ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس تھے اور اب جامعہ میں دینی تعلیم حاصل کر رہے تھے‘ یہ بہت علمی نوجوان ہیں‘ میں ان کے وسیع مطالعہ اور سوچ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا‘ میں یہاں مفتی افنان کا خصوصی طور پر ذکر کروں گا‘
میں ان سے 2003ء میں پہلی مرتبہ ملا تھا‘ یہ اس وقت جامعہ کے طالب علم تھے‘ یہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکا اور سوئٹزر لینڈ میں پڑھتے رہے اور یہ آج کل برطانیہ سے ایل ایل بی کر رہے ہیں‘ انگریزی‘ عربی اور اردو تین زبانیں روانی سے بولتے ہیں اور سننے والے ان کی معلومات اور روانی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔
میرے ساتھ افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر صادق خان بیٹھے تھے‘ یہ این ڈی یو میںپڑھاتے بھی ہیں‘ انہوں نے تسلیم کیا جامعۃ الرشید کی سلائیڈز این ڈی یو سے بھی بہتر ہیں اور یہ دعویٰ غلط نہیں تھا‘ میں نے آج تک کسی یونیورسٹی کے کانووکیشن میں اتنا ڈسپلن اور صفائی نہیں دیکھی‘
پنڈال میں سات آٹھ ہزار لوگ بیٹھے تھے لیکن کسی جگہ ہڑبونگ تھی اور نہ افراتفری‘ تمام لوگوں کو چائے‘ پانی اور کھانا بھی ملا اور جگہ بھی اور کسی نے نعرہ بھی نہیں لگایا‘ پارکنگ میں بھی کوئی گاڑی کسی گاڑی سے نہیں ٹکرائی اور کسی نے کسی کے ساتھ بدتمیزی بھی نہیں کی اور ان تمام انتظامات کے ساتھ ساتھ سیکورٹی کا بندوبست بھی فول پروف تھا‘ ہائیرایجوکیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار بھی یہاں موجود تھے‘
یہ وائس چانسلر بھی رہے ہیں‘ یہ بھی انتظام و انصرام سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے‘ ان کا کہنا تھا ہماری سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو جامعۃ الرشید سے سیکھنا چاہیے‘ میں مزاجاً لبرل ہوں‘ مدارس کی سوچ سے زیادہ متاثر نہیں ہوتا لیکن آپ یقین کریں جامعۃ الرشید نے مجھے ہر بار حیران بھی کیا اور متاثر بھی اور میں اس ادارے کو دیکھ کر
ہر بار یہ کہنے پر مجبور ہو گیا اصل پاکستانی اور اصل مسلمان یہ لوگ ہیں‘ ہم صرف نام کے مسلمان اور نام کے پاکستانی ہیں‘ ہم اس ملک کے صرف بینی فیشری ہیں جب کہ ملک کی اصل خدمت یہ لوگ کر رہے ہیں اور یہ ہی اس ملک کے اصل وارث ہیں۔