میری اظہار الحق صاحب سے پہلی ملاقات 1994ء میں ہوئی‘ یہ ملٹری اکائونٹس میں اعلیٰ پوزیشن پر تعینات تھے اور میں ڈیلی پاکستان میں میگزین ایڈیٹر تھا‘ میں نے اس زمانے میں مختلف ادیبوں اور شاعروں کے بارے میں لکھنا شروع کیا تھا‘ اظہار صاحب نے تازہ تازہ کالم نگاری شروع کی تھی‘
ان کی تحریر میں روانی‘ ادبی چاشنی اور جذبات ہوتے تھے اور میں چند ہی دنوں میں ان کی تحریروں کا نشئی ہو گیا‘ ان سے رابطہ ہوا تو پتا چلا یہ شاعری‘ تحریر اور افسری تینوں سے کئی گنا بڑے انسان ہیں‘ انتہائی عاجز‘ انتہائی سادہ‘ انتہائی ایمان دار اور انتہائی مہربان چناں چہ میں ان کا عقیدت مند ہوتا چلا گیا‘ وقت گزرتا رہا اور اس دوران ہماری اوقات بھی بدلتی رہی‘ یہ 22 ویں گریڈ میں پہنچے اور ریٹائر ہوگئے لیکن ان کی کالم نگاری کا سلسلہ چلتا رہا‘ میں بھی زندگی میں دھکے کھاتا ہوا کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر لڑھکتا رہا اور اس لڑھکن میں میرا ہاتھ کسی وقت ان کے ہاتھ سے نکل گیا‘ ہمارے درمیان فاصلہ آ گیا‘ یہ اس دوران آسٹریلیا بھی چلے گئے مگر اس دوری کے باوجود میں ان کی تحریریں مسلسل پڑھتا رہا اور ہر بار واہ واہ کرنے پر مجبور بھی ہو جاتا تھا‘ مجھے دو ماہ قبل اچانک اظہار صاحب یاد آئے‘ میں نے ان کا نمبر تلاش کیا اور پھر بڑی دیر تک ان کے ساتھ بات چیت ہوتی رہی‘ گفتگو کا محور میرا کنفیوژن تھا‘ میں زندگی کے تیسرے فیز میں داخل ہو گیا ہوں‘ پروفیشن میں جو کچھ کرنا تھا وہ کر لیا‘ زندگی میں جتنی توپیں اور تیر چلانے تھے چلا لیے‘ بہن بھائی اپنی زندگیوں میں مگن ہو چکے ہیں‘ بچے بڑے ہو چکے ہیں اور میں اندھا دھند کام کر کے تھک چکا ہوں لہٰذا میں باقی زندگی کو ری ڈیزائن کرنا چاہتا ہوں‘ میں اس سلسلے میں اپنے سینئرز سے رابطے کر رہا ہوں‘ میں نے اظہار صاحب کو اپنا پلان بتایا تو ان کا جواب تھا ’’آپ یہ سب کچھ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں؟‘‘
میں نے جواب دیا ’’عربی کی ایک کہاوت ہے آپ جب بھی مشورہ کریں سمجھ دار سے نہ کریں‘ تجربہ کار سے کریں اور آپ اس تجربے سے گزر چکے ہیں‘‘ انہوں نے قہقہہ لگایا اور کہا ’’چلو تم نے مجھے یہ تو بتا دیا میں سمجھ دار نہیں ہوں‘‘ اور یوں میری ان سے ری یونین ہو گئی۔
محمد اظہار الحق نے چند دن بعد اپنی تازہ کتاب ’’عاشق مست جلالی‘‘ مجھے بھجوا دی‘ میں کتابوں اور مصنفوں پر لکھنے سے پرہیز کرتا ہوں‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ کم علمی ہے‘ میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ میں کسی پڑھے لکھے شخص پر لکھ سکوں‘ دوم دنیا میں دو قسم کے مصنف ہوتے ہیں‘ ایک وہ جو اپنا تعارف خود ہوتے ہیں‘ یہ لوگ برینڈ ہوتے ہیں اور انہیں کسی دوسرے شخص کے تعارفی الفاظ کی ضرورت نہیں ہوتی اور دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے میں اگر تمام لکھاری مل کر بھی لکھ دیں تو بھی وہ مصنف اور ان کی کتاب‘ کتاب نہیں بن پاتی‘
میری بڑے لوگوں پر لکھنے کی اوقات نہیں تھی اور فضول لوگوں کی خوشامد کی ہمت نہیں تھی لہٰذا میں پرہیز کرتا رہا‘ اظہار صاحب پہلی صف کے شاعر اور کالم نگار ہیں‘ یہ برینڈ ہیں‘ ان کا نام ہی کافی ہے اور ان کی تعریف میری اوقات نہیں لیکن ’’عاشق مست جلالی‘‘ ایک ایسی کتاب ہے جس کا ذکر نہ کرکے میں پیاسوں کے ساتھ زیادتی کروں گا لہٰذا میں اس کتاب کے تذکرے پر مجبور ہو گیا ہوں‘ یہ کتاب اظہار صاحب کی غیر سیاسی تحریروں کا تیسرامجموعہ ہے‘پہلا مجموعہ’’ میری وفات‘‘
کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔’’میری وفات‘‘ ایک ایسا کالم تھا جو اگر کہا جائے پوری دنیا میں وائرل ہوا تو مبالغہ نہ ہو گا‘ آپ نے اگر اب تک ان کا یہ کالم نہیں پڑھا تو پھر آپ نے اپنے ساتھ بہت بڑا ظلم کیا‘ میری درخواست ہے آپ فوری طور پر یہ کالم پڑھیں۔’’ عاشق مست جلالی‘‘ کا پہلا سیکشن بچوں کے بچوں پر ہے ‘اظہار صاحب شایدپہلے کالم نگار ہیں جنہوں نے پوتوں پوتیوں‘ نواسوں اور نواسیوںپر لکھا اور جم کر لکھا‘ ایک صاحب نے پوچھا’’ اتنی بھرپور زندگی گزارنے کے بعد ریٹائرڈ زندگی تو بہت بور گزر رہی ہو گی ؟‘‘
اظہار صاحب نے بتایا اصل لطف تو زندگی کے اسی حصے میں ہے جب آپ کے ارد گرد آپ کے بچوں کے بچے ہوں جو آپ کو بھرپور اہمیت دیتے ہیں‘ ان کالموں کا فیڈ بیک زبردست تھا‘ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے نانے‘ دادے‘ نانیاں‘ دادیاں ان کالموں کو پسند کرتی ہیں اور ان کا انتظار کرتی ہیں۔ اظہار صاحب نے کسی جگہ لکھا ’’ ایک نواب نے اپنے بچپن کے ایک بے تکلف دوست سے جو غریب کسان تھا‘پوچھا کہ بد بخت! تمہاری صحت کا راز آخر کیا ہے؟ میں بادام اور چہار مغز کھاتا ہوں‘
مربے اور پھل تناول کرتا ہوں‘مصفّیٰ پانی میرے لیے فلاں چشمے سے آتا ہے پھر بھی صحت ہے کہ پھُس پھُسی ہی رہتی ہے‘ اِدھر تم ہو کہ کھٹی لسی تمہیں مشکل سے میسر ہے مگر ہٹے کٹے تنومند ہو‘کسان نے کہا کہ نواب صاحب ! آپ کیا کھاتے ہیں؟ مٹی اور راکھ! میں جب ہل چلا کر گھر آتا ہوں تو میرے پوتے اور نواسے میرے اوپر چھلانگیں لگاتے ہیں‘ کوئی چومتا ہے تو کوئی داڑھی کھینچتا ہے پھر وہ مجھے کھینچ کر دکان پر لے جاتے ہیں جہاں میں انہیں ریوڑیاں ‘ بتاشے ‘نُگدی اور مکھانے خرید کر دیتا ہوں‘ انہیں کھاتے دیکھتا ہوں تو سیروں خون بڑھتا ہے‘ یہ ہے صحت کا راز‘‘۔
عاشق مست جلالی میں گاؤں کی اس زندگی کا بھرپور ذکر بھی ہے جسے ہم سب چھوڑ چکے ہیں‘ تنور پر پکی ہوئی روٹیوں کا ذکر ہے‘ باجرے کے میٹھے آٹے‘مکئی اور جوار کے مرنڈے‘ دیسی رنگ برنگ خربوزوں‘ ستو ‘موٹھ کی پھلیوں‘ تازہ دوہے ہوئے دودھ‘ لسی کی چاٹیوں ‘ پودینے‘ سرخ مرچ اور لسی سے بنی ہوئی چٹنی‘ مٹی کی ہانڈیوں‘ عام پشاوری چپل پہن کر میلوں پیدل چلنے ‘سر شام لالٹینوں کے شیشے صاف کرنے اور سُوت سے بُنے ہوئے رنگین پایوں والے پلنگوں کا ذکر ہے۔ لسّی پر بھی ایک بھرپور کالم ہے‘ یہ کالم پڑھ کر کسی صاحب نے امریکا سے میل کی میں گاؤں اور ماں کو یاد کر رہاں ہوں اور رو رہا ہوں۔ اظہار صاحب نے پیزا اور برگر کے خلاف بھی کالم لکھے ہیں جو اس کتاب میں موجود ہیں۔
ایک سیکشن کا عنوان’’ بڑے لوگ ‘‘ ہیں‘ اس سیکشن میں ایدھی صاحب اور پاکستان سے جذام کو ختم کر دینے والی عظیم خاتون رتھ فاؤ کا ذکر ہے۔ ان دونوں ہستیوں کی وفات پر ہمارے ہم وطنوں کو یہ فکر لاحق ہو گئی تھی کہ یہ لوگ جہنم میں جائیں گی یا جنت میں؟اظہار صاحب کا جمشید مارکر اور سوڈان کے عالم اور سیاست دان ڈاکٹر حسن الترابی پر لکھا ہوا کالم بھی پورا مقناطیس ہے‘ ایک سیکشن کا عنوان ہے’’ ہماری زندگیاں ڈکٹیٹ نہ کیجیے‘‘۔
یہ سیکشن ان حضرات کے بارے میں ہے جو کہہ رہے ہیں خدا کا لفظ استعمال نہ کرو‘اظہار صاحب نے ان کی منت کی ہے ہم سے اب ہمارا خدا تو نہ چھینو‘ صدیوں پر محیط اُس اسلامی لٹریچر کا کیا بنے گا جو فارسی‘ ترکی اور اردو میں ہے اور جس میں خدا کا لفظ کروڑوں بار استعمال ہوا ہے۔ سخاوت اور کنجوسی پر لکھا ہے کہ دنیا میں انسانوں کی دو ہی قسمیں ہیں‘ مہمان نواز اور کنجوس اور’’وطن آشوب ‘‘کتاب کا وہ حصہ ہے جس میں وطن کے ساتھ ہونے والے ظلم وستم پر ماتم کیا گیا ہے‘
ٹوبہ ٹیک سنگھ کے محمد اقبال کا ذکر ہے جو نائب قاصد تھا‘ ریٹائر ہوتے وقت اس نے اپنے افسروں سے کہا ‘اس کے بیٹے کو ملازمت دی جائے تا کہ کوارٹر بیٹے کے نام ہو جائے اور وہ در بدر ہونے سے بچ جائے‘ اسے رُول پوزیشن بتائی گئی بیٹے کو ملازمت اُس صورت میں ملتی ہے جب باپ ڈیوٹی کے دوران مر جائے‘ اس پر محمد اقبال دفتر کی چھت پر گیا اور نیچے کود کر خود کشی کر لی‘ یوں سرکار کی شرط پوری ہو گئی۔ سنگا پور کی خاتون اول کا ذکر ہے جو امریکا کے دورے پر گئی تو ہاتھ میں گیارہ ڈالر کا بیگ تھا جو سنگاپور کے ایک سکول میں زیر تعلیم خصوصی بچوں کے ہاتھ کا بنا ہوا تھا۔
ایک غیر ملکی کا ذکر ہے جو پاکستان میں گھوم پھر کر کسی سے پوچھے بغیر خود اس نتیجے پر پہنچا کہ (1) حکمران کرپٹ ہیں (2) افرادی قوت کی ترقی پر توجہ صفر ہے اور(3) عوام سوک سینس سے عاری ہیں۔ کیسے ؟ اس کی تفصیل بھی بتائی گئی ہے۔ اظہار صاحب نے حکومت برطانیہ کی خدمت میں عرض داشت پیش کی آپ بر صغیر میں ریلوے کا نظام قائم کرنے والے’’ رابرٹ‘‘ کے پوتے یا پڑپوتے کو پاکستان بھیج دیں تا کہ ان اڑھائی ہزار ریلوے کراسنگز کا کچھ کیا جا سکے جن پر آج پھاٹک ہیں نہ چوکی دار اور جہاں ٹرینوں کے نیچے آکر سینکڑوں پاکستانی مر رہے ہیں!
عاشق مست جلالی میںان لڑکیوں کا ذکر بھی ہے جو مغربی ملکوں میں پلتی اور بڑی ہوتی ہیں اورا نہیںبعدازاں دھوکے سے وطن واپس لایا جاتا ہے اور زبردستی نیم تعلیم یافتہ کزنز کے ساتھ باندھنے کی تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں‘ کچھ کو مغربی ممالک کے سفارت خانے بچا لیتے ہیںاور باقی کو انکار کرنے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور کتاب کاایک سیکشن ملک میں لائبریریوں کے قحط پر مبنی ہے۔ ملک میں بک شاپس کی تعداد دن بہ دن کیوں گھٹ رہی ہے اور کتابیں خریدنے اور پڑھنے کا کلچر کیوں نہیں ہے؟ اس حصے میں قارئین کے مطالعے کے لیے کچھ کتابیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔ ’’ عاشق مست جلالی ‘‘ بک کارنر جہلم نے بہت اہتمام سے شائع کی ہے اور اسے پڑھنے کے بعد منہ سے صرف ایک ہی فقرہ نکلتا ہے ’’ویل ڈن اظہار صاحب‘‘۔