میں آپ کو ایک بار پھر سری لنکا لے جاتا ہوں‘ سری لنکا نے 12 اپریل کو خود کو دیوالیہ ڈکلیئر کر دیا جس کے بعد ملک میں بجلی‘ پٹرول اور خوراک کا بحران پیدا ہو گیا‘ سرکاری سطح پر آٹھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ‘ ٹرانسپورٹ کی بندش اور خوراک کے لیے فسادات ہونے لگے‘ لوگ سڑکوں پر آ گئے‘ مارا ماری شروع ہو گئی‘ سرکاری دفتر بند ہو گئے اور بازار اور مارکیٹیں ویران ہو گئیں‘
یہ صورت حال نازک تھی لیکن سری لنکا کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومت نے ہوش کے ناخن نہیں لیے‘ حکومت ڈٹی رہی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے خود کو ’’اے پولیٹیکل‘‘ کی پوزیشن پر قائم رکھا لہٰذا پچھلے ہفتے ملک بھر کے پڑھے لکھے نوجوان سڑکوں پر آ گئے‘ یہ وزیراعظم مہنداراجا پکسے اور صدر گوتابایاراجا پکسے سے استعفیٰ مانگ رہے تھے‘ وزیراعظم نے اس کا دل چسپ حل نکالا‘ اس نے اپنے حمایتی نوجوان اکٹھے کیے‘ انہیں لاٹھیاں دیں اور مظاہرین سے نبٹنے کے لیے روانہ کر دیا‘ یہ لوگ مظاہرین پر پل پڑے‘ حکومت یہ مناظر ٹیلی ویژن پر براہ راست دکھانے لگی‘ عوام نے دیکھا اور یہ خوف زدہ ہونے کی بجائے مظاہرین کے ساتھ کھڑے ہو گئے‘ پورے ملک سے لوگ نکلے اور وزراء اور حکومتی پارٹی کے ایم پی ایز کے گھروں‘ گاڑیوں اور املاک پر حملے شروع کر دیے‘ وزیراعظم کا آبائی حلقہ ہمبن ٹوٹا میں ہے‘ ان کا خاندان سو سال سے وہاں رہ رہا ہے‘ یہ شہر گال کی سائیڈ پر جنوبی سری لنکا میں واقع ہے‘ اس کے ساتھ وہ مشہور بندر گاہ واقع ہے جسے سری لنکا نے 2017ء میں 99سال کی لیز پر چین کے حوالے کیا تھا‘ ہمبن ٹوٹا کی اکثریت وزیراعظم کی حامی ہے لیکن اس کے باوجود لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے وزیراعظم کے آبائی گھر کو آگ لگا دی‘ عوام کولمبو میں وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ کے اندر بھی داخل ہو گئے‘ وزیراعظم نے خاندان کے ساتھ تیسری منزل پر پناہ لے لی لیکن ہجوم تیزی سے ان کی طرف بڑھ رہا تھالہٰذا فوج مجبوراً وزیراعظم ہائوس پہنچی‘ مظاہرین کو منتشر کیا اور وہ وزیراعظم کو نکال کر فوجی چھائونی لے گئی‘ ملک میں اس کے ساتھ ہی کرفیو لگا دیا گیا یوں سری لنکا میں اس وقت گلیوں اور سڑکوں پر فوج ہے‘ وزیراعظم مستعفی ہو چکے ہیں‘ کابینہ ختم ہو چکی ہے‘ صدر اپنا استعفیٰ جیب میں ڈال کر پھر رہے ہیں‘ملک میں کرفیو ہے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ شدید پریشانی میں آسمان کی طرف دیکھ رہی ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ سری لنکا کو اس بحران سے اب صرف آئی ایم ایف نکال سکتا ہے لیکن آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے حکومت چاہیے اور سری لنکا میں اس وقت حکومت موجود نہیں لہٰذا ملک کو اس صورت حال سے کون نکالے گا؟ سری لنکن اسٹیبلشمنٹ اس وقت صرف اس سوال کا جواب تلاش کر رہی ہے۔
میں بار بار عرض کر رہا ہوں سری لنکا کے بعد ہم ٹارگٹ ہیں‘ ہم صرف ایک مہینے کے فاصلے پر کھڑے ہیں‘ہمارے مالیاتی ذخائر مہینے بعد ختم ہو جائیں گے اور اس دوران اگر عمران خان نے بھی کال دے دی تو ہم بھی ملک میں کرفیو لگانے پر مجبور ہو جائیں گے اور اگر خدانخواستہ یہ نوبت آ گئی تو ہمیں کشمیر‘ ایٹمی پروگرام اور گوادر تینوں سے محروم ہونا پڑ جائے گا‘ کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟
میں جمہوریت پسند ہوں‘ میں دل سے سمجھتا ہوں اس ملک کو جمہوریت اور آئین کے سوا کوئی طاقت نہیں چلا سکتی لیکن میں بھی ان حالات میں یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہوں ہمارے پاس اب ’’اے پولیٹیکل‘‘ کی گنجائش نہیں رہی‘ یہ عمارت گر رہی ہے‘ ہم نے اگر اسے بچانا ہے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کو یہ ذمہ داری اٹھانا پڑے گی اور یہ اگر یہ نہیں اٹھاتی تو پھر اسے سری لنکا کی طرح ملک کا ملبہ اٹھانا پڑے گا‘ آپ عمارت کو سہارا دیں یا پھر ملبہ اٹھائیں یہ دونوں کام جلد یا بدیر بہرحال آپ ہی کو کرنا پڑیں گے۔
آپ ذرا سیاسی صورت حال دیکھ لیں‘ عمران خان حکومت مکمل فیلیئر تھی‘ اس نے بالآخر نومبر 2022ء سے پہلے ختم ہو جانا تھا لیکن اسے جلد بازی میں فارغ کر کے ریاست کو مزید کم زور کر دیا گیا‘ عمران خان حکومت کے خاتمے کا صرف تین طاقتوں کو فائدہ ہوا‘ وہ بیرونی طاقتیں جو پاکستان کو کم زور سے کم زور تر دیکھنا چاہتی ہیں‘ یہ طاقتیں اس وقت ہماری صورت حال کو انجوائے کر رہی ہیں
دوسری طاقت پاکستان پیپلز پارٹی ہے‘ اس کے پاس اقتدار میں واپسی کا صرف ایک آپشن بچا تھا‘ اس کی حریف جماعتیں ن لیگ اور پی ٹی آئی دونوں ایک دوسرے سے لڑ لڑ کر ختم ہو جائیں اور اس کے بعد مرزا یار اور گلیاں بچ جائیں لہٰذا اس صورت حال کا پیپلز پارٹی کو فائدہ ہو رہا ہے‘ آپ دیکھ لیں حکومت بنتے ہی آصف علی زرداری گھر بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے ہیں اوران کے وزراء کسی جگہ حکومت کا دفاع نہیں کر رہے‘
یہ خاموشی سے عمران خان اور شہباز شریف کی لڑائی کو انجوائے کر رہے ہیں اور تیسری طاقت عمران خان خود ہیں‘ ان کی حکومت بدانتظامی کے خوف ناک گرداب میں پھنسی ہوئی تھی‘ وزراء باہر نہیں نکل رہے تھے‘ پرویز خٹک 7 جنوری کو ایبٹ آباد کے دورے پر گئے تو لوگوں نے ان کی گاڑی کا گھیرائو کر لیا تھا لیکن حکومت کی روانگی کے بعد عمران خان اور پی ٹی آئی دونوں کو نیا خون مل گیا‘
یہ اب سڑکوں پر بھی ہیں اور لوگ ان کے بیانیے کو قبول بھی کر رہے ہیں‘ یہ صورت حال اگر مزید جاری رہتی ہے تو ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو نقصان ہو گا‘ میاں نواز شریف یقینا اس وقت سوچتے ہوں گے میں اگر جلدبازی نہ کرتا اور عمران خان کو سیاسی شہادت کا موقع نہ دیتا تو آج حالات کتنے مختلف ہوتے؟ یہ اب اس نتیجے پر بھی پہنچ گئے ہوں گے ہم نے اگر کوئی بڑا فیصلہ نہ کیا تو ن لیگ اپنی
عوامی مقبولیت کھو دے گی‘کیوں؟کیوں کہ آئی ایم ایف نے نئے معاہدے سے انکار کر دیا ہے‘ حکومت کو سعودی عرب سے بھی دعائوں کے علاوہ کچھ نہیں ملا‘ چین بھی معاشی بحران کا شکار ہے‘ یہ دنیا کو اندرونی صورت حال سے ناواقف رکھنے کے لیے سیاحت نہیں کھول رہا لہٰذا یہ بھی سی پیک کی رفتار بڑھانے اور پاکستانی معیشت میں رقم ڈالنے کے لیے تیار نہیں‘ یوکرین جنگ کی وجہ سے
یورپ شدید مندی کا شکار ہے‘وہاں کوکنگ آئل اور آٹا نہیں مل رہا‘ گیس کی کمی کی وجہ سے جرمنی کی انڈسٹری بھی خطرات کا شکار ہو چکی ہے‘ امریکا بھی تاریخی مہنگائی کی زد میں ہے‘ معاشی ماہرین کا خیال ہے 2023ء میں امریکا اور یورپ مہنگائی اور بے روزگاری کے تمام ریکارڈ توڑ دے گا اور تیسری طرف آئی ایم ایف بھی معاشی دبائو میں ہے‘ یہ بھی قرضے دینے کی پوزیشن میں نہیں لہٰذا
پھر ہمیں مدد کہاں سے ملے گی؟سوال یہ بھی ہے ان حالات کا جنازہ کس کو اٹھانا پڑے گا؟ کندھے بہرحال ن لیگ ہی کے استعمال ہوں گے اور میاں نواز شریف کو اس خوف ناک حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے‘ یہ جان چکے ہیں ملک دیوالیہ ہو رہا تھا‘ ہم سری لنکا بن رہے تھے اور عمران خان کے دوستوں نے اسے نکال کر ن لیگ کو اس گرتی ہوئی چٹان کے نیچے کھڑا کر دیا ہے اور ہم نے
جذبات میں غلط سیاسی فیصلہ کر دیا‘ یہ یقینا اس وقت مان رہے ہوں گے ہم پھنس چکے ہیں‘ ہم اگر حکومت جاری رکھتے ہیں تو ہم سال کے آخر تک اپنا ووٹ بینک کھو دیں گے اور ہم اگر حکومت توڑ دیتے ہیں تو ملکی بحران مزید گھمبیر ہو جائے گا اور آخری امید بھی دم توڑ دے گی۔میاں نواز شریف کی لندن میں پارٹی لیڈروں سے میٹنگز جاری ہیں‘ مجھے محسوس ہوتا ہے میاں نواز شریف سیاسی ٹمپریچر ڈائون
کرنے کے لیے نئے الیکشن کی تاریخ بھی دے دیں گے اور عمران خان کو انتخابی اصلاحات اور نئے الیکشنز کی پیش کش بھی کر دیں گے اگر عمران خان مان گئے تو ٹھیک ورنہ دوسری صورت میں ریاست کو انہیں ’’سمجھانے‘‘ کی ذمہ داری دی جائے گی‘ ریاست اگر کام یاب ہو گئی اور عمران خان حکومت کے ساتھ بیٹھ گئے تو ٹھیک ورنہ دوسری صورت میں میاں نواز شریف حکومت توڑ دیں گے
اور ملک کو اللہ کے آسرے پر چھوڑ دیں گے اور اگر خدانخواستہ یہ ہو گیا تو پھر ملک کا واقعی اللہ حافظ ہے کیوں کہ فوج براہ راست اقتدار میں نہیںآ سکتی‘ مارشل لاء کی صورت میں ملک پر اقتصادی پابندیاں لگ جائیں گی اور ہماری معیشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی ‘ ملک میں اگر سپریم کورٹ کوئی عبوری حکومت بنا دیتی ہے تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک اس کے ساتھ مذاکرات نہیں کرے گا اور یوں ہم
دنوں میں سری لنکا بن جائیں گے‘ ہمارے پاس اب صرف ایک ہی حل بچا ہے‘ ہم فوری طور پر ’’اے پولیٹیکل‘‘ کے بیانیے سے نکلیں اور ملک کی فکر کریں‘ اسٹیبلشمنٹ تمام سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا بٹھائے اور یہ لوگ جب تک کسی متفقہ لائحہ عمل تک نہیں پہنچتے آپ اس وقت تک انہیں باہر نہ نکلنے دیں خواہ اس میں ہفتے ہی کیوں نہ لگ جائیں اور اس دوران میٹنگ کی کوریج پر پابندی لگا دیں تاکہ
افواہ سازی کی فیکٹریاں بند ہو جائیں‘ دوسرا ملک میں فوری طور پر جلسوں‘ جلوسوں‘ ریلیوں اور لانگ مارچز پر پابندی لگا دیں‘ خدا کی پناہ ہم نے 30 برسوں سے ملک میں لانگ مارچز کے سوا کچھ نہیں کیا؟ یہ سلسلہ اب بند ہو جانا چاہیے اور اگر سیاست دان اکٹھے نہیں ہوتے تو پھر ریاست اپنی پوری رٹ استعمال کرے‘ ہم نے اگر کل سری لنکا کی طرح ملک میں کرفیو ہی لگانا ہے تو پھر ہم آج ریاست کی طاقت استعمال کیوں نہیں کرتے؟ وقت نہیں ہے‘ پلیز آنکھیں کھولیں‘ جو دل کرتا ہے کریں لیکن ملک بچائیں ورنہ ہم اس بجٹ تک نہیں پہنچ سکیں گے۔