اللہ جوائی کی چیخیں نکل گئیں‘ وہ اپنی چھ بیٹیوں کے ساتھ اپنے نئے گھر کے سامنے موجود تھی‘ بیٹیوں کا باپ چند مہینے پہلے کنوئیں کی کھدائی کے دوران اس کے اندر زندہ دفن ہو گیا تھا‘ بڑی مشکل سے اس کی نعش نکالی گئی‘ اس کو وہ سارے مناظر یاد آرہے تھے‘آج وہ جھونپڑی سے گھر میں شفٹ ہو رہی تھی‘ چھور کے مولوی یعقوب نعمانی جو تھرپارکر میں ہمارے جھونپڑی سے
گھر تک کے پراجیکٹ ڈائریکٹر ہیں اس کے لیے نیا گھر بنوایا تھا‘ اللہ جوائی اپنی چھوٹی اور بڑی چھ بیٹیوں کے ساتھ نئے گھر میں داخل ہوئی‘ اس نے اپنے نئے گھر کو سجایا بھی ہوا تھا‘ اس کی مالی مدد بھی کی گئی‘ بچیوں کے ساتھ گھر میں داخل ہوتے ہوئے خوشی اور غمی کے احساسات تھے‘ بچیاں خوش تھیں کہ نئے گھر میں آگئی ہیں مگر اللہ جوائی کو مرحوم خاوند یاد آ رہا تھا جو اس سے اور بچیوں سے بے انتہا پیار کرتا تھا۔ وہ کبھی کبھی اللہ جوائی سے کہتا تھا بچیاں بڑی ہو رہی ہیں‘ میرا تجھ سے وعدہ ہے جلد ہی ان کے لیے نیا اینٹوں والا گھر بنائوں گا‘ ہمارے گھر میں کھڑکیاں بھی ہوں گی‘ میں گھر کی دیواروں پر لکڑیاں بھی فٹ کراکے دوں گا‘ ان پر آپ اپنے برتن سجا لینا‘ اللہ جوائی نے کبھی تصور میں بھی پکا گھر نہیں دیکھا تھامگر وہ خاوند کی باتوں کو سن کر خوش ہو جاتی تھی‘ اسے پیار بھری نظروں سے دیکھتی تھی‘ آج جب وہ پکے گھر میں داخل ہوئی تو اس کی چیخیں نکل گئیں۔ بالکل ویسا ہی منظر تھا جیسا اس کا خاوند کہا کرتا تھا‘ چمکتی پکی دیواریں اور ان پر لکڑیاں فٹ کر کے سجے ہوئے برتن اور اس کے ساتھ سولر پینل کی روشنی سے چمکتا دمکتا گھر اور ہوا کے تازے جھونکے دیتا سولر پنکھا سب کچھ ناقابل یقین تھا‘ اس نے آنکھیں بند کیں اور کھولیں‘ ہم سب اللہ جوائی اور اس کی بچیوں کو خوش دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی کی پوری ٹیم عمر کوٹ کے دور دراز علاقے میں موجود تھی‘ تعمیرات کے شعبے کے انچارج مولوی محمد یعقوب بھی تھے اوردور دراز کے اس گوٹھ میں خوشیاں تقسیم ہو رہی تھیں‘شاید ڈاکٹر آصف جاہ کو انہی غریبوں کی دعائوں کی بدولت اللہ نے نئی زندگی دی تھی ورنہ 18 جون 2020ء کو اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے
ڈاکٹر صاحب کا خوف ناک حادثہ ہوا‘ گاڑی چکنا چور ہو گئی مگر کسی غیر مرئی طاقت نے انہیں ہاتھوں میں پکڑ کر گاڑی سے نکالا اور باہر بٹھا دیا ‘ میو ہسپتال میں زندگی کی ڈوریں کئی دفعہ کٹتے کٹتے جڑیں۔ اللہ نے غریبوں ‘ بے آسروں‘ ناداروں اور فاقہ کشوں کی دعائوں کی بدولت اور ان کی مزید خدمت کرنے کے لیے نئی زندگی دی۔ الحمد للہ جان لیوا حادثے کے بعد کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے تحت سوشل ویلفیئر اور غریبوں ‘ ناداروں کے سرپر دست شفقت رکھنے کا کام مزید بڑھ گیامثلاًتھر کے
صحرا کو میٹھے پانی کے کنوئوں سے سیراب کرنے کا کام 10 سال سے جاری ہے‘ تھرپارکر پاکستان کا وسیع و عریض ساڑھے19 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا صحرا ہے یہاں ہر طرف ریت اڑتی نظر آتی ہے‘ غریبوں کے لیے نہ کھانے کو کچھ ہے اور نہ پینے کو صاف پانی۔ تھرپارکر ہزاروں گوٹھوں پر پھیلا ہواصحرا ہے‘ گوٹھ دور دور تک کچے کے علاقے میں ہیں‘ گوٹھوں میں عورتیں پانی بھرنے کے لیے صبح سویرے 10 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتیں اور دو تین گھڑے سر پر رکھ کر گھر کے لیے پانی لاتیں‘
اس سے ان کی گردن ٹوٹ جاتی تھی یا پھر یہ مستقل گردن درد کا شکار رہتی تھیں۔ کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی نے 2012ء میں تھرپار کر میں ریلیف کا کام شروع کیااور گوٹھ گوٹھ‘ نگر نگر پھر کے تھرپارکر کے دور دراز کچے کے علاقے کے گوٹھوں میں 1200 سے زائد میٹھے پانی کے کنوئیں بنوائے‘ آج ان کے میٹھے پانی سے روزانہ ہزاروں جانور اور انسان سیراب ہو رہے ہیں ‘ کنوئیں بنانے کے بعد
کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے تحت گرین تھر مہم شروع کی گئی جس کے تحت تھر کے صحرا کو سرسبز بنانے کی ٹھانی گئی‘ تھر کی زمین پر کبھی کاشت نہیں ہوتی تھی‘ اللہ کا نام لے کر کاشت شروع کی تو تھر کی زمین سونا اگلنے لگی‘ چند ماہ میں ہر طرف لہلہاتے کھیت نظر آنے لگے‘گندم بھی اگی ‘ سبزیاں بھی اور جانوروں کے لیے چارہ بھی‘ گزشتہ چار سال میں 2000 ایکڑ رقبے پر 200 گرین یعنی سرسبز فارم بنائے گئے ہیں جن سے غریب لوگوں کی غذائی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے18 جون 2020ء کے حادثے کے بعد سوچا کیوں نہ تھر کے باسیوں کو جھونپڑیوں سے نکال کر پکے گھروں میں شفٹ کیا جائے‘ 2020ء میں دادو میں سیلاب آیا تھا جس کی وجہ سے غریبوں کی جھونپڑیاںپانی میں بہہ گئی تھیں۔ تھر میں ایک جھونپڑی میں آگ لگی جس کی وجہ سے ساتھ والی بیسیوں جھونپڑیاں بھی جل گئیں لہٰذا سوسائٹی نے اللہ کا نام لے کر گھر بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مخیر حضرات نے دل کھول کر تعاون کیا‘اللہ نے کرم کیا اور گزشتہ سال سے اب تک 150 پکے
‘خوب صورت اور دیدہ زیب گھر بنا کر تھرکے باسیوں کے حوالے کیے جا چکے ہیں‘ مزید گھروں کی تعمیر جاری ہے‘ مفت گھر بنا کر دینے کا یہ سستا ترین منصوبہ ہے‘ آپ تھوڑی سی رقم خرچ کر کے سات اور آٹھ افراد کے ایک خاندان کو مستقلاً پکے گھر میں شفٹ کر سکتے ہیں ۔ کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے تحت ملک بھر میں بے شمار فلاحی سلسلے چل رہے ہیں جن میں ہسپتال ‘ اسکول‘ مدرسہ‘
کمیونٹی سنٹرز‘ دستکاری مراکز‘ ڈیلی دستر خوان‘ افطاری اور عید پیکیج وغیرہ شامل ہیں‘ بنگلہ دیش میں مقیم روہنگیا مسلمانوں ‘ فلسطینی مسلمانوں‘ شام کے متاثرین اور حال ہی میں افغانستان کے مسلمانوں کی مدد کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ افغانستان کے مسلمانوں کے لیے حال ہی میں ریلیف کارروان رمضان پیکیج اور کپڑوں وغیرہ کے 25 کنٹینر افغانستان روانہ کیے جا چکے ہیں۔
کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے تحت گزشتہ کئی سالوں سے فلاحی ہسپتالوں اور ملک بھر میں قائم ڈسپنسریوں کے علاوہ مختلف فلاحی منصوبوں پر بھی کام جاری ہے‘ ان منصوبوں میں علاج و معالجہ کی مفت سہولتوں کے علاوہ تھر اور بلوچستان میںمیٹھے پانی کی فراہمی ‘ عمر کوٹ اور تھرپار کر میں غریب لوگوں کو جھونپڑیوں سے نکال کر پکے گھروں میں منتقل کرنا ‘ خود روز گار اسکیم‘ مساجد کی تعمیر‘ اسکولوں کا قیام اور کئی دوسرے فلاحی سلسلے شامل ہیں۔ ملک میں جاری فلاحی منصوبہ جات کے
ساتھ ساتھ بیرون ملک متاثرین شام کی امداد‘ روہنگیا ‘ فلسطین اور افغانستان کے مسلمانوں کو مستقل بنیادوں پر ریلیف اشیاء کی فراہمی بھی جاری ہے۔ ان تمام منصوبوں کو جاری رکھنے اور ان کو آگے بڑھانے کے لیے ملک بھر کے مخیر حضرات سے گزارش ہے یہ دل کھول کر عطیات دیں۔ ان شاء اللہ ان کے عطیات سے غریبوں ‘ ناداروں اور آفت زدگان کو فوری اور ضروری امداد کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ اگر آپ بھی اس کارِ خیر میں حصہ لینا چاہیں تو خود تشریف لا کر سوسائٹی کی کارکردگی
کا جائزہ لیں اور تسلی ہونے پر بھر پور تعاون فرمائیں۔ یہ تعاون ادویات‘ آلات کی فراہمی ‘ نقدی اور مختلف منصوبہ جات کے لیے چیکوں وغیرہ کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ چیک بنام ہیلتھ کیئر سوسائٹی‘ اکائونٹ نمبر 5448-9 نیشنل بنک آف پاکستان ‘ مون مارکیٹ ‘ علامہ اقبال ٹائون لاہور بھیجے جائیں۔تمام عطیات فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سر ٹیفکیٹ بار کوڈ 2(36)(c)
بتاریخ 27 اگست 2019ء کے مطابق انکم ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔اس سلسلے میں کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے روح رواں ڈاکٹر آصف محمود جاہ سے اس نمبر 0333-4242691 پر رابطہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ ادارہ بھی کریڈیبل ہے‘ میں ڈاکٹر آصف محمود جاہ کو دس سال سے جانتا ہوں‘ کسٹم آفیسر تھے‘ نوکری کے دوران یہ سوسائٹی بنائی اور کمال کر دیا‘ یہ آج کل وفاقی ٹیکس محتسب کی حیثیت سے کام بھی کر رہے ہیں اور سوسائٹی بھی چلا رہے ہیں‘ مجھے یقین ہے آپ کے عطیات درست جگہ پر ضرورت مندوں پر استعمال ہوں گے‘ آپ کا ایک پیسہ ضائع نہیں ہوگا۔