آج سے دس سال قبل میں لندن میں کسی صاحب سے ملنے گیا‘ میری ان سے فون پر بات چیت ہوئی تھی‘ انہوں نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی تھی‘ ہمارا وقت طے نہیں ہوا تھا بس یہ فیصلہ ہوا تھا میں شام کے وقت ان کے گھر آ جائوں‘ میں برطانیہ کے ایک بڑے پاکستانی بزنس مین کا مہمان تھا‘ ان کے فلیٹ میں رہ رہا تھا اور ان کا انگریز ڈرائیور اور گاڑی استعمال کرتا تھا‘ میں ڈرائیور کے ساتھ ایڈریس تلاش کرتا ہوا ان صاحب کے گھر پہنچ گیا‘ بیل دی‘ ان کی بیوی باہر آئی‘ میں نے اپنا نام بتانے کے بعد بتایا ‘
میں شمیم صاحب سے ملنا چاہتا ہوں‘ مجھے انہوں نے شام کا وقت دیا تھا‘ خاتون نے بتایا ‘وہ چیک اپ کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئے ہوئے ہیں‘ دس منٹ میں آ جائیں گے‘ میں نے خاتون کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی میں بیٹھ کر شمیم صاحب کا انتظار کرنے لگا‘ تھوڑی دیر بعد ایشین حلیے کے ایک صاحب آئے اور اس گھر میں داخل ہو گئے‘ وہ یقینا شمیم صاحب تھے‘ میں گاڑی سے اتر کر ان کے گھر کی طرف جانے لگا تو مجھے ڈرائیور نے روک دیا‘ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا‘ وہ بولا ’’سر وہ صاحب ابھی گھر آئے ہیں‘ آپ پہلے انہیں سیٹل ڈائون ہونے دیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا مطلب‘‘ وہ بولا ’’سر جب بھی کوئی شخص باہر سے گھر آتا ہے تو وہ تھوڑی دیر کے لیے کلچرل شاک کا شکار ہوتا ہے‘ اسے سیٹل ڈائون ہونے کے لیے ٹائم چاہیے ہوتا ہے‘ لوگوں کو اس دوران مہمان کا آنا اری ٹیٹ (Irritate) کر دیتا ہے لہٰذا شائستگی کا تقاضا ہوتا ہے آپ کبھی کسی شخص کے دروازے پر سیٹل ڈائون پریڈ میں دستک نہ دیں‘ یہ اس شخص اور اس کے خاندان کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے‘‘ یہ میرے لیے بالکل نئی بات تھی‘ میں نے ڈرائیور پیٹر کا شکریہ ادا کیا‘ دس منٹ گاڑی میںبیٹھا رہا اور پھر شمیم صاحب کے دروازے پر دستک دی۔ میں نے اس کے بعد سیٹل ڈائون پریڈ کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا ہم سب انسان جب ایک ماحول سے دوسرے ماحول میں جاتے ہیں تو ہم کلچرل شاک کا شکار ضرور ہوتے ہیں‘ دفتروں کے اندر بھی ملازمین کو صبح سیٹل ڈائون ٹائم دیا جاتا ہے‘ ملازمین دفتر پہنچتے ہی کام شروع نہیں کرتے‘ انگریز کے دور میں سرکاری ملازمین صبح دفتر آ کر پہلے چائے پیتے تھے‘ اخبار پڑھتے تھے اور جب یہ گھر کے ٹرانس سے نکل کر مکمل طور پر دفتر کے ماحول میں آ جاتے تھے تو یہ پھر کام شروع کردیتے تھے‘ میں نے اس واقعے کے بعد اپنی عادت بنا لی‘ میں جب بھی کسی دفتر جاتا ہوں تو میں اس وقت تک کسی شخص کو کام نہیں کہتا جب تک میںاسے سیٹل ڈائون محسوس نہیں کر لیتا‘ آپ آج تجربہ کر کے دیکھ لیں‘ آپ صبح کے وقت کسی دفتر جائیں اور کسی بھی صاحب کو اس وقت کوئی کام کہہ کر دیکھیں جب وہ تازہ تازہ گھر سے آفس آیا ہو‘ وہ آپ کو فوراً انکار کر دے گاجب کہ اس کے برعکس جب وہ باہر یاگھر سے آیا ہو اور آپ چپ چاپ اس کے سامنے کھڑے ہو جائیں یا بیٹھ جائیں اور اس کے سیٹل ڈائون ہونے کا انتظار کریں تو وہ تھوڑی دیر بعد خود آپ کی طرف متوجہ ہوگا اور پھر نہایت شائستگی سے پوچھے گا ’’جی فرمائیے میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں‘‘
آپ آزما لیں آپ اس وقت اسے جو بھی کام کہیں گے وہ حتی المقدور آپ کی مدد کرے گا‘ سیٹل ڈائون کا انتظار شائستگی اور تہذیب کی بنیاد ہے‘ یہ مہذب لوگوں کا وطیرہ ہوتا ہے لہٰذا آپ بھی اگر خود کو مہذب یا تہذیب یافتہ کہلوانا چاہتے ہیں تو آپ بھی یہ عادت اپنا لیں‘ مجھے ترکوں کی چار عادتوں نے بھی بہت متاثر کیا‘ مثلاً آپ جب کسی تہذیب یافتہ ترک فیملی میں جاتے ہیں تو وہ سب سے
پہلے آپ کے سامنے پانی کا گلاس اور قہوے کا کپ رکھتے ہیں‘ آپ نے اگر پانی کا گلاس پہلے اٹھا لیا تو اس کا مطلب ہو تا ہے آپ کو بھوک محسوس ہو رہی ہے اور میزبان کو آپ کے لیے کھانے کا بندوبست کر لینا چاہیے اور آپ اگر پہلے قہوہ پینا شروع کر دیںگے تو اس کا مطلب ہو تا ہے آپ کھانا کھا کر آئے ہیں اور میزبان کو کسی قسم کا تردد نہیں کرنا چاہیے‘ یہ روایت پنجاب کے دیہات میں بھی ہوتی تھی‘
جب کسی پنجابی گھر میں مہمان آتا تھا تو میزبان اسے کہتا تھا آپ جوتا اتار کر پائوں چارپائی کے اوپر رکھ کر بیٹھیں‘یہ مہمان کی پلاننگ جاننے کا مہذب طریقہ تھا‘ مثلاً مہمان اگر بھوکا ہوتا تھا یا وہ ایک دو دن مہمان بننا چاہتا تھا تو وہ جوتے اتار کر بیٹھ جاتا تھا جس کے بعد میزبان اس کے کھانے پینے اور رہنے کا بندوبست کر دیتا تھا‘ دوسری صورت میں وہ گھڑی دو گھڑی کا مہمان سمجھا جاتا تھا‘
اسی طرح ترکوں کے پرانے محلوں میں جب کوئی شخص بیمار ہو جاتا ہے تو لواحقین دہلیز پر پیلے رنگ کے پھول رکھ دیتے ہیں‘ اس کا مطلب ہوتا ہے گھر کے اندر مریض ہے‘ آپ گلی میں شور نہ کریں لہٰذا لوگ پیلے پھول دیکھ کر گھر کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور نہ بات چیت کرتے ہیں‘ ترک خاندانوں میں آج بھی جب میزبان مہمان کے سامنے فروٹ رکھ دے تو اس کا مطلب ہوتا ہے ہمارے سونے یا اگلی مصروفیت کا وقت ہو گیا ہے لہٰذا آپ تشریف لے جائیں اور مہمان میزبان سے رخصت مانگ لیتا ہے۔
دنیا بھر کے اچھے اور مہذب ریستورانوں میں بھی جب انتظامیہ کسٹمر کو’’ کمپلی مینٹری‘‘ سویٹ ڈش پیش کر دے تو اس کا مطلب ہوتا ہے آپ ٹیبل اب اگلے مہمان کے لیے خالی کر دیں‘ ریستوران اسی طرح اگر لائیٹس بند کرنا شروع کر دیں یا ویٹر آپ سے بار بار یہ پوچھے ’’سر آپ کو مزید کوئی چیز تو نہیں چاہیے‘‘ تو اس کا مطلب ہوتا ہے ’’آپ اب جا سکتے ہیں‘‘ لہٰذا اس کے بعد عزت اسی میں
ہوتی ہے آپ بل ادا کریں اور رخصت ہو جائیں‘ آپ اسی طرح جب کسی تہذیب یافتہ شخص کے گھر جاتے ہیں اور وہ آپ سے پوچھے بغیر آپ کی خدمت شروع کردیتا ہے‘ وہ آپ کے لیے چائے یا کافی لے آتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے وہ آپ کی بے انتہا عزت کر رہا ہے‘ اس وقت چائے یا کافی سے انکار میزبان کی بے عزتی ہوتی ہے لہٰذا آپ چائے یا کافی نہیں بھی پیتے تو بھی آپ چند سپ ضرور لیں
اور رخصت ہونے تک پلیٹ اور کپ اپنے سامنے رکھیں‘ میں ایک صاحب کو جانتا ہوں‘ وہ روزے کی حالت میں بھی میزبان کو انکار نہیں کرتے ‘ کھانے کا سامان جب ان کے سامنے چن دیا جاتا ہے تو وہ کپ اور پلیٹ سامنے رکھ کر میزبان سے گفتگو شروع کر دیتے ہیں اور یہ اسے بھنک تک نہیں پڑنے دیتے کہ یہ کچھ کھاپی نہیں رہے‘ یہ پلیٹ میں چمچ اور کانٹا تک چلاتے رہتے ہیں‘ لقمہ منہ تک لاتے ہیں اور بات کرتے کرتے واپس پلیٹ میں رکھ دیتے ہیں لیکن میزبان کی دل آزاری نہیں ہونے دیتے‘ دوسری سٹیج
میں میزبان جب آپ کو چائے‘ گرین ٹی یا کافی کا آپشن دیتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے یہ جلدی میں ہے یا اسے آپ کے آنے کی توقع نہیں تھی لہٰذا آپ اگر چائے کافی سے معذرت بھی کر لیں گے تو اسے فرق نہیں پڑے گا اور تیسری سٹیج میں میزبان آپ کو کھانے پینے کی پیش کش تک نہیں کرتا‘ اس کا مطلب ہوتاہے آپ کام کی بات کریں اور چلتے بنیں‘ آپ کو اس سٹیج پر میزبان کے ساتھ فرینک ہونے
یا لمبی گپ شپ کی غلطی نہیں کرنی چاہیے‘ آپ پوری سنجیدگی کے ساتھ مختصر بات کریں اور اجازت لے لیں‘ آپ اگر اس کے پاس بیٹھ گئے یا فرینک ہونے کی کوشش کی یا آپ نے اگر لمبی بات چیت شروع کر دی تو آپ وہاں سے بے عزتی کرا کر ہی نکلیں گے‘ پوری دنیا میں مہذب لوگ کھانا کھاتے‘ واش روم سے نکلتے‘ حجامت کراتے‘ فیملی کے ساتھ گھومتے پھرتے اور عبادت گاہوں سے نکلتے لوگوں سے نہیں ملتے‘ یہ تمام کام نجی ہوتے ہیں اور دنیا کے 80فیصد لوگ یہ نجی کام دوسروں سے خفیہ رکھنا چاہتے ہیں‘
آپ بھی یہ غلطی نہ کیا کریں‘ اسی طرح جب دو لوگ بات کر رہے ہوں تو آپ ان کی بات چیت کے درمیان کودنے کی غلطی نہ کیا کریں‘ آپ اطمینان سے ذرا سے فاصلے پر کھڑے ہو جائیں‘ وہ دونوں چند منٹ بعد خود بخود آپ کی طرف متوجہ ہو جائیں گے‘ آپ اس کے بعد بے شک اپنی بات کریں‘اسی طرح مہذب لوگ کبھی دوسروں کی جسمانی خامی کی طرف نہیں دیکھتے‘ یہ کانے شخص کی آنکھوں میں نہیں
جھانکیں گے‘ کالے رنگ یا خراب جلد کے لوگوں کے چہروں کی طرف نہیں دیکھیں گے‘ لنگڑے‘ لولے‘ چھوٹی قامت اور لمبے شخص کو غور سے نہیں دیکھیں گے اور کسی بیمار شخص سے اس کی بیماری‘ ملزم سے اس کے مقدمے‘ طلاق یافتہ شخص سے اس کی طلاق اور ناکام شخص سے اس کی ناکامی کی وجہ نہیں پوچھیں گے‘ یہ انتہا درجے کی بدتمیزی ہوتی ہے جب کہ ہم ہمیشہ لنگڑے کے لنگ کو غور سے دیکھتے ہیں اور طلاق یافتہ سے اس کی طلاق کی وجہ ضرور پوچھتے ہیں‘ ہم سٹارٹ ہی دوسروں کی خامیوں سے لیتے ہیں۔یہ چند چھوٹی چھوٹی تہذیبی عادتیں ہیں‘ آپ انہیں اپنا لیں‘ ہو سکتا ہے ان سے آپ کی زندگی مزید بہتر ہو جائے۔