آپ اگر ٹھنڈے دماغ اور گرم دل کے ساتھ مری کی دو برف باریوں کا تجزیہ کریں تو آپ کو پورے ملک کا ایشو سمجھ آ جائے گا‘سات اور آٹھ جنوری کو مری میں پہلی برف باری ہوئی‘ 23 لوگ دنیا سے گزر گئے اور 21جنوری کی رات دوسری برف باری شروع ہوئی اور اس میں کوئی سڑک بند تھی‘ کسی سیاح کو کوئی مسئلہ پیش آیا اور نہ ہی ملک کے قدیم ترین سیاحتی مقام پر کسی قسم کی
ایمرجنسی پیدا ہوئی‘ شہر میں سب کچھ معمول پر تھا‘ سوال یہ ہے آخر7 اور 8 جنوری کی برف باری اور21‘22 اور23جنوری کی سنوفالنگ میں کیا فرق تھا؟ دونوں ایک جیسی تھیں بس ان میں ڈنڈے کا فرق تھا۔ 7 اور8 جنوری کی برف باری میں چار لاکھ سیاح اور ایک لاکھ 64 ہزار گاڑیاں صرف ٹریفک پولیس کے آسرے پر تھیں‘ پنجاب ہائی وے جس نے سڑکیں صاف کرنی تھیں اور فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ جس نے گرے ہوئے درخت اٹھانے تھے یہ دونوں غائب تھے‘ ہائی وے کی ایس ڈی او ایک خاتون تھی‘ وہ برف باری میں خود باہر نہیں نکل سکی تھی‘ یہ ان کی زندگی کی پہلی برف باری بھی تھی لہٰذا انہوں نے گاڑیوں کی مینٹی ننس‘ پٹرول اور عملے کا بندوبست نہیں کیا چناں چہ برف باری کی رات پورا محکمہ غائب تھا اور سڑک پر صرف اور صرف برف تھی لیکن دوسری برف باری سے پہلے چیف سیکرٹری کامران علی افضل‘ کمشنر راولپنڈی نور الامین مینگل ااور ڈی سی طاہر فاروق بھی مری میں تھے اور باقی تمام ڈیپارٹمنٹس بھی‘ اے سی مری کے دفتر میں کنٹرول روم بن گیا اور اس میں پاک فوج‘ ملٹری پولیس‘ 12 ڈویژن‘ پولیس‘ٹریفک پولیس‘ ریسکیو 1122‘ محکمہ صحت‘ پنجاب ہائی وے‘ بجلی‘ فاریسٹ اور راولپنڈی کی سول انتظامیہ گویا تمام متعلقہ اداروں کے نمائندے موجود تھے‘ کنٹرول روم 24گھنٹے آپریشنل تھا‘ آٹھ گھنٹے کی تین شفٹوں میں کام ہوتا رہا‘ کنٹرول روم وائرلیس‘ ٹیلی فون‘ موبائل فون اور سوشل میڈیا سمیت کمیونی کیشن کے تمام ذرائع سے منسلک تھا‘ کسی طرف سے اطلاع آتی تھی اور پورا محکمہ دوڑ پڑتا تھا‘ درخت گرتے بعد میں تھے اور فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ کٹرز لے کر وہاں پہلے پہنچ جاتا تھا۔ ’’سنو فال آفیشل گروپ‘‘ کے نام سے ایک واٹس ایپ گروپ بھی بن گیا جس میں جے او سی مری‘ سٹیشن کمانڈر مری‘ کمشنر‘ ڈی سی‘ اے سی‘ آر پی او اور سی پی او سے لے کر ٹریفک وارڈنز تک سب شامل تھے لہٰذا مری سے وابستہ تمام افسر مری کی پل پل صورت حال سے واقف تھے اور یہ جانی مانی حقیقت ہے ماتحتوں کو جب یہ علم ہو ان کے افسر پکچر میں ہیں تو یہ کسی قیمت پر کوتاہی نہیں کرتے لہٰذجمعہ ‘ہفتہ اور اتوارتین دن مری میں پتہ بھی ہلا تو پوری انتظامیہ جرابوں ہی میں دوڑ پڑی‘ سڑک پر کسی بھی مقام پر گاڑی کھڑی ہو جاتی تھی تو ہائی وے کی مشین نمک لے کر وہاں پہنچ جاتی تھی اور ٹریفک پولیس کمبل اور چائے‘
دوسرا حکومت نے پہلی بار مری میں وہ افسر تعینات کیے جو ماضی میں مری میں کام کر چکے تھے‘ ہائی وے میں دلشاد صاحب کو ایکس ای این لگا دیا گیا‘ یہ بڑا عرصہ مری میں تعینات رہے ہیں‘ تین برس قبل انہوں نے گلیات میں ریسکیو آپریشن کیا تھا اور درجنوں لوگوں کی جان بچائی تھی‘ کامران رشید مری میں تین سال ایمرجنسی آفیسر رہے‘ یہ اب دوبارہ راولپنڈی میں ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر بنا کر
تعینات کر دیے گئے ہیں‘ یہ برف میں ریسکیو کے ایکسپرٹ ہیں اور سب سے بڑھ کر طاہر فاروق کو ڈپٹی کمشنر راولپنڈی لگا دیا گیا‘ یہ میاں شہباز شریف کے دور میں مری میں اے سی رہ چکے ہیں اور انہوں نے بڑے اچھے طریقے سے تین سنو سیزن مینج کیے تھے‘ یہ لوگ تجربہ کار ہیں‘ یہ مری اور برف دونوں کو سمجھتے ہیں لہٰذا انہوں نے حالات کنٹرول کر لیے اور آخری اچھی بات پولیس کا ایف ایم 88.6 سیاحوں کو مسلسل مری کے موسم کے بارے میں مطلع کرتا رہا لہٰذا مری اور سیاح دونوں محفوظ رہے۔
یہ مثال ثابت کرتی ہے ہم اگر کرنا چاہیں تو ہم دو ہفتوں میں ’’سنو پالیسی‘‘ بھی بنا لیتے ہیں اور اس پر سو فیصد عمل بھی کرا لیتے ہیں‘ یہ ہماری مینجمنٹ قوت ہے لیکن ہم میں اس قوت کے ساتھ ساتھ تین خوف ناک برائیاں بھی ہیں‘ ہم ربڑ جیسے لوگ ہیں‘ ہمیں جب کھینچا جاتا ہے تو ہم کھینچ جاتے ہیں لیکن جوں ہی ہمیں چھوڑدیا جاتا ہے ہم ٹھک کر کے دوبارہ اپنی اوقات پر آ جاتے ہیں‘ مری کا سانحہ کیوں کہ نیا ہے چناں چہ چیف سیکرٹری اور جے او سی مری سمیت پوری سول اینڈ ملٹری اسٹیبلشمنٹ مری بیٹھ گئی
لہٰذا برف باری کا یہ سپیل سکون سے گزر گیا لیکن کیا اگلے سال بھی یہی بندوبست ہوگا؟ ہرگز نہیں‘ ربڑ واپس جا چکا ہوگا‘ دوسری برائی ہم ایس او پیز بنا لیتے ہیں لیکن لمبے عرصے تک ان پر عمل نہیں کر پاتے‘ ہم نے مری کے لیے کنٹرول روم اور سنو فال گروپ بنا لیا لیکن کیا یہ دونوں اگلے سال تک قائم رہیں گے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے‘ نہیں! اگلے سال دوبارہ یہی صورت حال ہو گی اور تیسری برائی ہم سسٹم کی بجائے
لوگوں پر انحصار کرتے ہیں‘ اچھے افسر آ جائیں توچیزیں ٹھیک ہو جاتی ہیں‘ ڈھیلے افسر آ جائیں تو پورا سسٹم ڈھیلا پڑ جاتا ہے‘ آپ دیکھ لیجیے گا یہ مری اگلے سال ایک بار پھر ناتجربہ کار افسروں کے ہاتھوں میں ہو گا اور وہ کنڈی لگا کر سو جائیں گے اور لوگ برف میں دہائیاں دے رہے ہوں گے۔چیف سیکرٹری پنجاب کامران افضل ایک نیک اور سمجھ دار انسان ہیں‘ میں دل سے ان کا
احترام کرتا ہوں لہٰذا میری ان سے درخواست ہے یہ مہربانی فرما کر کم از کم مری کا مسئلہ ضرور حل کر جائیں شاید یہ نیکی ان کے کام آ جائے اور یہ دنیا اور آخرت میں سرفراز ہو جائیں‘ میں مری کا آدھا شہری بھی ہوں اور 87 ملک بھی گھوم چکا ہوں چناں چہ میں اپنے تجربے کی بنیاد پر حکومت کو کچھ تجاویز دینا چاہتا ہوں‘ حکومت اگر ان پر عمل کر لے گی تو لاکھوں لوگوں کو فائدہ ہو جائے گا‘
کامران افضل صاحب آپ مہربانی فرما کر مری اور اس کے گردونواح میں ہر قسم کی تعمیر پر پابندی لگا دیں‘ تعمیرات کے ایس او پیز بنوائیں اور پھر کنسٹرکشن کی اجازت دیں اور اس میں بھی کنکریٹ 20فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے‘ تمام عمارتیں سافٹ اور لائیٹ ویٹ سٹرکچر پر بننی چاہییں ‘ مری کنکریٹ کا جنگل بن چکاہے‘ درخت تیزی سے کٹ رہے ہیں لہٰذا یہ کسی بھی وقت ملک کا
سب سے بڑا انسانی المیہ بن جائے گا‘ دوسری درخواست‘ حکومت برف باری سے قبل ٹول ٹیکس میں تین چار گنا اضافہ کر دے اور یہ رقم سیاحوں کے لیے سہولیات اور مشینری کی اپ گریڈیشن پر خرچ کرے‘آپ راستے میں اعلیٰ معیار کے واش رومز‘ ویو پوائنٹس اورپارکنگ بنائیں تاکہ لوگ سفر کو انجوائے کر سکیں‘ مری ایکسپریس وے کے آخر میں دو تین پارکنگ پلازہ بنا دیں‘ لوگ گاڑیاں
وہاں کھڑی کریں اور اس کے بعد پیدل سفر کریں ‘ حکومت سیاحوں کے لیے پارکنگ پلازہ سے مال روڈ تک الیکٹرک کار چلا دے اور اس کا باقاعدہ ٹکٹ وصول کیا جائے تاکہ یہ سروس چلتی رہے‘تین‘ مری میں برف باری کے دوران گاڑیوں کے داخلے پر پابندی لگا دیں‘ سیاح برف باری سے ایک یا دو دن پہلے مری آ جائیں‘ گاڑی مناسب جگہ کھڑی کریں‘ ہوٹل میں قیام کریں اور سنوفال کے
دن برف کو انجوائے کریں‘اس سے سڑکوں کی بندش اور ٹریفک کا مسئلہ حل ہو جائے گا‘ برف باری کے بعد ہائی وے ڈیپارٹمنٹ سڑکیں صاف کرے اور اس کے بعد ٹریفک کی اجازت دی جائے‘ اس بندوبست سے زیادہ سے زیادہ لوگ بھی موسم کو انجوائے کر سکیں گے‘ سڑکوں پر رش بھی نہیں ہوگا
اور ٹریفک بندش بھی نہیں ہو گی‘چار‘ مری ویدر کے نام سے ایف ایم ریڈیو بھی بنوادیں اور جو بھی گاڑی ٹول پلازہ کراس کرے وہ پابند ہو اس میں سارا راستہ یہ ایف ایم آن رہے گا اور جو گاڑی پابندی نہ کرے اسے جرمانہ کیا جائے‘ پانچ‘ حکومت مری کے ہوٹلز اور ریستورانوں کی گریڈنگ کرے‘ ان کے کرائے اور نرخ طے کرے اور مالکان سے ان کی پابندی کرائے‘ جو خلاف ورزی کرے اس کا
ہوٹل اور ریستوران سیل کر دیا جائے‘چھ‘ پوری دنیا میں برفیلے علاقوں میں ونٹر ٹائر استعمال کیے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں یہ سہولت سرے سے موجود ہی نہیں‘ حکومت قانون سازی کر کے یہ لازمی کر دے یا پھر وسیع پیمانے پر ’’چین کی مارکیٹ‘‘ بنوا دے‘ ٹائروں کے لیے اب پلاسٹک کی چینز بھی آتی ہیں‘ لوگ کرائے پر چینز حاصل کریں اور اپنے آپ کو محفوظ بنا لیں‘سات‘
حکومت مری میں پھنسی ہوئی گاڑیاں نکالنے کے لیے بھی سروس شروع کرادے‘ یہ سروس آن پے منٹ ہونی چاہیے اور کوئی شخص ٹول فری نمبر پر رابطہ کر کے یہ سہولت حاصل کر سکے اور آخری مشورہ ہماری حکومت کیپسٹی کے بحران کا شکار ہے لہٰذا آپ پرائیویٹ کمپنیوں کی مدد لیں ‘آپ پارکنگ لاٹ سے لے کر گاڑیاں نکالنے تک کے سارے کام پرائیویٹ سیکٹر کو دے دیں
یہ مسئلہ حل ہو جائے گا ورنہ آپ یقین کریں آپ کے تبادلے کی دیر ہے اور مری ایک بار پھر موت کا بازار بن جائے گاچناں چہ آپ کم از کم ایک شہرکو ضرور ٹھیک کر جائیں‘ مجھے یقین ہے اگر یہ ٹھیک ہو گیا تو پھر دوسرے شہر بھی ٹھیک ہو جائیں گے ورنہ تیسری برف باری میں نیا مری پرانے مری سے بدتر ثابت ہو گا۔