نکولس دوم روس کا آخری زار تھا‘ 1894ء میں 26 سال کی عمر میں بادشاہ بنا‘ جرمن شہزادی ایلکس (زارنیہ الیگزینڈرا) سے شادی کی اور 1918ء کی جولائی کی ایک رات پورا خاندان دنیا کی سب سے بڑی سلطنت سمیت زمین کا رزق بن گیا اور یوں داستاں تک نہ رہی داستانوں میں۔نکولس دوم قوت فیصلہ سے محروم شخص تھااورتاریخ بتاتی ہے قوت فیصلہ سے محروم لوگوں کے ہاتھوں میں
جب طاقت آتی ہے تو یہ اپنے سمیت ہر چیز کو برباد کر دیتے ہیں‘ نکولس نے بھی یہی کیا‘ اس نے پہلے جاپان کے ساتھ جنگ چھیڑی اور اپنی پوری نیوی برباد کر لی پھر پہلی جنگ عظیم میں خود کمانڈر ان چیف بن کر محاذ پر چلا گیا‘ ماں سمجھ دار خاتون تھی‘ اس کا کہنا تھا ’’تم اگر جنگ ہار گئے تو یہ زار کی ہار ہو گی‘ تم جرنیلوں کو جنگ لڑنے دو تاکہ اگر ہار جائو تو شکست کو جسٹی فائی کر سکو‘‘ وہ نہیں مانا‘ محاذ پر گیا اور جنگ میں روس کے لاکھوں فوجی مارے گئے‘ دوسری طرف روس کے اندر قحط‘ بے روزگاری اور کساد بازاری کا بازار گرم ہو گیا‘ لاکھوں کسان‘ مزدور اور ہنر مند بے روزگار ہو گئے‘ ایک وقت کا کھانا بھی ناممکن ہو گیا‘ لاء اینڈ آرڈر اور جسٹس سسٹم دم توڑ گیا‘ سڑکوں پر نوجوانوں کے جتھے پھرتے تھے اور وہ کسی کو بھی‘ کسی بھی وقت لوٹ لیتے تھے اور لٹنے والے کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا تھا‘ شاہی محلات کے اندر تک چوری ہو جاتی تھی‘ لوگوں نے بھوک سے تنگ آ کر سینٹ پیٹرز برگ کا محاصرہ کر لیا‘ زار نے ہجوم پر گولی چلانے کا حکم دے دیا‘ ہزاروں لوگ مارے گئے‘ محل کے سامنے لاشوں کا انبار لگ گیا اور کوئی اٹھانے والا نہیں تھا‘ مزدوروں اور کسانوں نے انقلاب کی بنیاد رکھی‘ ولادی میر لینن آگے بڑھا اور پورا ملک اس کے پیچھے چل پڑا‘دوسری طرف محل کے اندر کی حالت یہ تھی ملکہ الیگزینڈرا راسپوٹین جیسے جعلی پیر کی مریدنی بن چکی تھی‘ ولی عہد ایلکس بلڈ کینسر کا مریض تھا‘ ملکہ کا خیال تھا شہزادہ راسپوٹین کی دعا سے سلامت ہے لہٰذا راسپوٹین کے ہر مشورے اور ہر مطالبے پر ’’آمین‘‘ کہنا ملکہ کا فرض تھا‘ راسپوٹین ایک عیاش اور کرپٹ پادری تھا اور اس نے ملکہ کے قرب کا جی بھر کر فائدہ اٹھایا‘ شہزادیاں تک اس کے ہاتھ سے محفوظ نہیں تھیں چناں چہ پھر وہ دن آ گیاجب ہجوم نے محل کا گھیرائو کیا‘ شاہی خاندان گرفتار ہوا‘ سال بھر قید تنہائی میں رکھا گیا اور 17 جولائی 1918ء کو پورے خاندان کو گولی مار کر جنگل میں دفن کر دیا گیا‘ قبروں کے نشان تک مٹا دیے گئے اور یوں روس کے شاہی خاندان کا 304 سالہ طلسم ٹوٹ گیا۔
نکولس دوم کا 1894ء سے لے کر 1917ء تک 23 سالہ دور تاریخ میں انقلاب روس کہلاتا ہے‘ ہم اگر ایران کے 1980ء کے انقلاب کو بھی انقلاب مان لیں تو یہ تاریخ کا سیکنڈ لاسٹ انقلاب تھا‘ اس سے قبل انقلاب فرانس آیا تھا‘ یہ انقلاب1789ء سے1799ء کے درمیان آیا اور اس نے بھی نسل انسانی کے حافظے پر بے تحاشا اثرات چھوڑے ‘ یہ دنیاکی جدید تاریخ کے تین بڑے انقلاب ہیں‘
ہم انہیں انقلابوں کی ماں بھی قرار دے سکتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ دنیا میں جب بھی کسی کونے میں انقلاب آیا تجزیہ کاروں نے اسے انقلاب فرانس‘ روس اور ایران سے ملا کر دیکھا لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں یہ تینوں انقلاب 2سو32 سال کی تاریخ کے اہم ترین واقعات ہیں‘ اب سوال یہ ہے ان تینوں اور دنیا کے باقی انقلابوں کی وجوہات کیا تھیں؟بے شمار وجوہات ہیں لیکن مورخین تین بڑی وجوہات پر متفق ہیں اور وہ ہیں وسیع پیمانے پر بے روزگاری‘ بے مہار مہنگائی اور ریاست کا کم زور ہوتا ڈھانچہ‘
یہ تینوں وجوہات دنیا کے ہر انقلاب میں مشترک ہوتی ہیں‘ روس کے آخری زار کے دور میں اڑھائی کروڑ لوگ بے روز گار ہوئے‘ کسانوں سے کھیت‘ مزدوروں سے مزدوری اور ملازموں سے ملازمتیں چھن گئیں‘ مہنگائی اس قدر زیادہ تھی کہ لوگ اپنے بچے بیچ دیتے تھے لیکن اس کے باوجود مہینہ گزارنا مشکل ہو جاتا تھا اور ریاست کی حالت یہ تھی بیوروکریٹک سسٹم بیٹھ چکا تھا‘ سرکاری ملازم ہر دوسرے دن ہڑتالوں پر چلے جاتے تھے‘ پولیس چور کے ساتھ مل جاتی تھی‘ عدالتوں کے فیصلے
مافیاز لکھ کر بھجوا دیتے تھے‘ فوج مطلق العنان تھی‘ بادشاہ ملکہ کے زیر اثر تھا‘ ملکہ پیر راسپوٹین کے پائوں میں بیٹھی رہتی تھی اور راسپوٹین شراب‘ عورت اور پیسے وصول کر کے کسی کو بھی‘ کسی بھی عہدے پر تعینات کر دیتا تھا لہٰذا پورا ملک بیٹھ گیا‘ انقلاب فرانس کے دوران فرانس میں بھی یہی ہوا‘ بادشاہ ملکہ کے پلو کے ساتھ بندھا تھا اور ملکہ میری اینٹونیٹ عوام کو مشورے دے رہی تھی آپ کو بریڈ نہیں ملتی تو کیک کھا لیں اور ایران کے انقلاب میں بھی سڑکوں پر عوام کا ریلہ بہہ رہا تھا
اور دوسری طرف بادشاہ کی گھڑی ایک گھنٹہ پیچھے رہ جاتی تھی توشاہی گھڑی ٹھیک کرانے کی بجائے پورے ملک کی گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کر دی جاتی تھیں اور عدالتوں کے فیصلے جج نہیں لکھتے تھے ایران کی خفیہ ایجنسی ساواک کے دفتروں میں لکھے اور جاری کیے جاتے تھے لہٰذا گلیوں میں بھی خون بہا اور سلطنت بھی پارہ پارہ ہو گئی۔پاکستان روس‘ فرانس اور ایران نہیں ہے‘
ہم ہو بھی نہیں سکتے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ تینوں ملک بہر حال کسی قوم کے ملک ہیں‘ ایران اڑھائی ہزار سال پرانی قوم ہے‘ فرانس کی تاریخ دو ہزار سال قدیم ہے اور روس اس وقت بھی موجود تھا جب یورپ میں کوئی ملک‘ کوئی قوم آباد نہیں تھی لہٰذا یہ تینوں انقلاب کا جھٹکا برداشت کر گئے‘ وہاں صرف عنان اقتدار اور آئین تبدیل ہوا لیکن ہم معذرت چاہتا ہوں قوم ہیں اور نہ ہی ہماری کوئی تاریخ ہے‘
ہم ہزاروں سال سے سنٹرل ایشین طالع آزمائوں کی روندی ہوئی زمینیں ہیں چناں چہ آپ میری بات لکھ لیجیے اگر پاکستان میں روس‘ فرانس اور ایران جیسے حالات پیدا ہو گئے تو ہم بکھر جائیں گے‘ ہم ایک ملک نہیں رہیں گے‘ پاکستان (نعوذ باللہ) خواب کی طرح ٹوٹ جائے گا۔میں آپ سب سے معذرت چاہتا ہوں‘ میں آپ کو مایوس نہیں کرنا چاہتا لیکن آپ بھی کسی روز یہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے ہم حقیقتاً انقلاب کے اس دہانے پر ہیں جس میں اب صرف ایک لاش گرنے کی دیر ہے اور پھر یہ ملک کسی سے
بھی سنبھالا نہیں جائے گا’’ کسی سے بھی نہیں‘‘ آپ بے روزگاری دیکھ لیجیے‘ پاکستان تاریخی بے روزگاری کا شکار ہے‘روزگار کی شرح ایک اور دس ہے‘ دس لوگوں میں سے ایک کماتا ہے اور نو کھاتے ہیں اور کمانے والوں کی ہمت بھی اب جواب دے رہی ہے اور بے روزگاری کی وجہ کیا ہے؟ بے ہنری اور غیرکاروباری ماحول‘ ہم نے اس ملک میں کام کرنے والوں‘ روزگار دینے والوں اور کام یاب ہونے والوں کو گالی بنا دیا ہے‘ آپ اگر دہی بھلے کی ریڑھی بھی لگا لیں تو خاندان سے لے کر
حکومت تک ہر شخص آپ کا مخالف ہو جائے گا‘ کوئی آپ کو دلاسا تک نہیں دے گا‘ ہم نے ملک میں آج تک لوگوں کو سکل نہیں سکھائی‘ ملک میں دس کروڑ لوگ بے روزگار ہیں لیکن ڈرائیور تلاش کرتے ہیں تو بیس بیس سال ڈرائیور نہیں ملتا‘ ایوریج کک‘ مستری‘ الیکٹریشن اور پلمبر تک نہیں ہیں‘ ایوان صدر کی ٹونٹیاں تک لیک کر رہی ہیں اور وزیراعظم بھی گندا کھانا کھا کر فوڈ پوائزننگ کا شکار ہو جاتے ہیں‘ ملک میں مہنگائی کی حالت یہ ہے کھانے کا سامان سٹاک ایکسچینج کی طرح اوپر نیچے
ہوتا ہے اور پیچھے رہ گئی ریاست تو کورونا امدادی فنڈ میں کرپشن کی آڈیٹر جنرل کی رپورٹ بھی آئی ایم ایف جاری کراتا ہے اور گورنر سٹیٹ بینک ہو‘ سیکرٹری خزانہ ہو یا وزیر خزانہ ہو یہ سارے فیصلے اب آئی ایم ایف سے ہوتے ہیں‘ ملک میں پہلی مرتبہ ایسی حکومت آئی ہے جس نے ملک کے ہر طبقے کو ہلا کر رکھ دیا‘ آپ ملک کا کوئی سیکٹر دیکھ لیں‘ آپ کو ہر دیوار کے پیچھے سے
سسکیاں سنائی دیں گی لیکن ان سنجیدہ حالات میں سنجیدگی کا عالم یہ ہے ملک میں آڈیو آڈیو اور ویڈیو ویڈیو کا کھیل ہو رہا ہے‘ ایک آڈیو آتی ہے اور جواب میں دوسری طرف سے بھی آڈیو آ جاتی ہے اور پورا ملک اس کے پیچھے لگ جاتا ہے‘شنید ہے لندن سے چند مزید ویڈیوز بھی آ رہی ہیں‘ یہ ویڈیوز نومبر 2018ء میں اس وقت بنائی گئی تھیں جب چیف جسٹس ثاقب نثار انیل مسرت کی دعوت پر
ڈیم کے لیے فنڈ جمع کرنے کے لیے لندن گئے تھے‘ یہ مختلف اوقات میں جو کچھ فرماتے رہے لوگ وہ ریکارڈ کرتے رہے اور یہ اب کسی بھی وقت مارکیٹ میں ہوں گی جب کہ دوسری طرف ایک ویڈیو تیار بیٹھی ہے جس میں شریف فیملی کے ایک اہم صاحب کسی فارم ہائوس میں تنظیم سازی میں مصروف ہیں۔آپ ملک کے چیلنجز دیکھیں اور ریاست اور سیاست کے ایشوز ملاحظہ کریں چناں چہ
اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ وہی نکلے گا جو ایسے حالات میں نکلا کرتا ہے لیکن مجھے افسوس اس نتیجے کا نہیں‘ مجھے افسوس ملک کے طاقتور عہدیداروں کے رویوں پر ہے‘ یہ لوگ کھلی آنکھوں سے چھپکلی کھا رہے ہیں اور ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی‘ کیوں؟ اس کیوں کا فیصلہ بہرحال مورخ لکھے گا اور مورخ اب زیادہ دور نہیں ہے‘ اللہ اس ملک کی حفاظت کرے ملک تقریباً ہاتھ سے نکل چکا ہے۔