پاکستانی تاریخ میں بے شمار بھائی گزرے ہیں لیکن ’’بخاری برادرز‘‘ دو ہی تھے اور ان کا متبادل آج تک مارکیٹ میں نہیں آیا‘ بڑے بھائی کا نام پیر احمد شاہ بخاری تھا‘ یہ لوگ پشاور کی مشہور پیر فیملی سے تعلق رکھتے تھے‘ پشاور کے گورنمنٹ ہائی سکول میں پڑھتے تھے‘ انگریز ٹیچر واٹکنز پرنسپل تھے‘وہ پیر احمد شاہ بخاری کو فرانسیسی لہجے میں پیر کہتے تھے‘ فرنچ زبان میں
پیر کوپیٹر کہا جاتا ہے اور پیٹر فارسی میں پطرس ہو جاتا ہے‘ احمد شاہ نے جوان ہو کر پطرس بخاری کے قلمی نام سے مضامین لکھنا شروع کر دیے اور پھر پطرس بخاری کے نام سے پورے ہندوستان میں شہرت پائی‘ یہ آل انڈیا ریڈیو کے ڈی جی بھی رہے‘ گورنمٹ کالج لاہور کے پرنسپل بھی بنے اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے بھی تھے‘ دوسرے بھائی پیر ذوالفقار احمد بخاری تھے‘ یہ ذیڈ اے بخاری کے نام سے مشہور ہوئے اور ہندوستان میں ریڈیو کی بنیاد رکھی‘ زیڈ اے بخاری قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل بنے‘ بخاری برادرز بلا کے ذہین‘ انتہائی پڑھے لکھے‘ ادب فہم‘ اعلیٰ پائے کے براڈکاسٹر اور ادیب تھے‘ دونوں مزاح کی دولت سے بھی مالا مال تھے‘ پطرس بخاری کے مضامین کے بغیر اردو اور اردو ادب دونوں گھنٹے کے بغیر چرچ یا وضو کے بغیر نماز ہے جب کہ زیڈ اے بخاری کے بغیر اردو زبان میں الیکٹرانک میڈیا کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی‘مشترکہ ہندوستان میں ایک وقت تھا جب ان دونوں بھائیوں کی وجہ سے ریڈیو بی بی سی (بخاری برادرز کارپوریشن) کہلاتا تھا‘ زیڈ اے بخاری نے 1961ء میں سرگزشت کے نام سے اپنی بائیوگرافی لکھی ‘ یہ کتاب ہر دور میں مشہور رہی‘ میں نے سرگزشت پہلی بار طالب علمی کے دور میں پڑھی تھی‘ اس کا اثر مدتوں شعور کی دیوار پر آکاس بیل کی طرح منڈھا رہا لیکن پھر روزگار کی گرد اس کے نقش دھندلا گئی‘ میں نے چند ماہ قبل برادر عرفان جاوید کی تحریک پر پرانی کتابیں دوبارہ پڑھنا شروع کیں‘ سرگزشت بھی ان میں شامل تھی‘ یہ کتاب شروع کی تو پھر کوئی اور کام نہ کر سکا‘ بڑے لوگوں کی کتابیں بھی واقعی بڑی ہوتی ہیں۔میں آج اس مشیر کے بارے میں بھی لکھنا چاہتا تھا جس نے چند دن قبل وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا آپ سلیکٹرز کے ساتھ سیدھے ہو جائیں‘ وزیراعظم نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا‘
ہمارا گراف دو برسوں میں بہت نیچے چلا جائے گا‘ اپوزیشن آپ کو پانچ سال پورے دے کر 2023ء کے فیئر الیکشن کا مطالبہ منوا چکی ہے لہٰذا اگلا وزیراعظم شہباز شریف ہو گا یا بلاول بھٹو‘ حکومت الیکٹورل ریفارمز کا بل پاس کرا کر بھی ای وی ایم لا سکے گی اور نہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلا سکے گی لہٰذا ہمارے پاس سیاسی شہادت کے سوا کوئی آپشن نہیں بچتا‘ آپ سیدھے ہو جائیں‘ زیادہ سے زیادہ الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنا دے گا یا پھر اتحادی نکل جائیں گے
لیکن ہم پھر گلی گلی جا کر دنیا کو بتائیں گے وہ کون تھے جنہوں نے شہباز شریف کے خلاف فیصلہ نہیں ہونے دیا اور بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری کو جیل میں نہیں جانے دیا‘ یہ مشورہ وزیراعظم کو ٹھیک لگا لیکن وزیراعظم کے پیر صاحب نے یہ فرما کر انہیں روک دیا ’’ابھی وہ وقت نہیں آیا‘‘ یوں فیصلہ رک گیا لیکن ان کو خبر ہو گئی جن کو خبر نہیں ہونی چاہیے تھی‘ اس کے بعد کیا ہوا انکشافات کا
یہ سلسلہ چلتا رہے گا لیکن آج کا دن زیڈ اے بخاری کے نام۔زیڈ اے بخاری نے لکھا‘ میں ریڈیو کا افسر بن گیا تو میں نے انگریزی معاشرت بھی اختیار کر لی‘ کباڑیے سے کرسی‘ میز‘ صوفے اور ڈائننگ ٹیبل خرید لی‘ چھری کانٹے کا بندوبست بھی کر لیا‘ سوٹ بھی پہننا شروع کر دیے ‘ سر پر ہیٹ بھی رکھنے لگا اور انگریزوں کی طرح پائپ بھی پینے لگا‘ بڑے بھائی (پطرس بخاری) اس وقت کیمبرج میں پڑھ رہے تھے‘ میں نے انہیں سوٹس میں تصویریں اتروا کر بھیج دیں‘ ان کی طرف سے ایک سطری جواب آیا
’’ماشاء اللہ‘ سبحان اللہ‘ اب اپنا نام بھی ڈی سوزا رکھ لو‘‘ بخاری صاحب نے لکھا‘ 1915ء میں والد صاحب نے سیر کے لیے مجھے لاہور بھجوا دیا‘ میں اپنے ایک عزیز کے گھر میں رہائش پذیر تھا‘ سارا سارا دن لاہور کی سیر کرتا تھا اور رات کے وقت گھر آ جاتا تھا‘ واپسی کا ارادہ کیا تو پتا چلا لاہور سے پشاور کے کرائے میں تین روپے کم ہیں‘ مجھے میزبان سے مانگنے کی ہمت نہ ہوئی لہٰذا میں نے سوچا میں ان کی کوئی کتاب چراتا ہوں‘ مارکیٹ میں بیچتا ہوں اور کرایہ پورا کر کے گھر واپس چلا جاتا ہوں‘
میں نے ایک دن ان کے کتابوں کے طاق سے ایک موٹی سی کتاب اٹھائی اور باہر نکل گیا‘ لوہاری گیٹ سے باہر جا کر میں نے کتاب دیکھی تو وہ حضرت داتا گنج بخشؒ کی کشف المحجوب تھی‘ میرے آنسو نکل آئے‘ میں جی بھر کر رویا اور روتے روتے داتا دربار پہنچ گیا‘ فاتحہ پڑھی اور سرگھٹنوں میں دے کر بیٹھ گیا‘ نہ جانے کتنی دیر بیٹھا رہا‘ آخر میں کتاب اٹھائی اور واپس چل پڑا‘ چلتے چلتے تھک گیا تو راستے میں ایک بینچ پر بیٹھ گیا‘ مجھ پر ہیبت طاری تھی‘ بہت دیر تک مبہوت بیٹھا رہا‘ آخر اٹھا‘
بینچ پر ہاتھ پڑا تو کوئی چیز چبھنے لگی‘ دیکھا تو بینچ پر تین روپے پڑے تھے۔بخاری صاحب براڈ کاسٹنگ کورس کے لیے لندن گئے‘ سوٹ سلوانے کے لیے درزی کے پاس گئے تو پتا چلا درزی اس وقت تک سوٹ سی کر نہیں دیتا جب تک کسی پرانے گاہک کا ریفرنس نہ ہو‘ بخاری صاحب نے ٹیلی گرام کے ذریعے اپنے باس فیلڈن کا خط منگوایا اور پھر درزی ان کے سوٹ سینے پر راضی ہوا‘ یہ بھی معلوم ہوا برطانیہ کی اشرافیہ سلے سلائے کپڑوں‘ ریڈ میڈ ٹائیوں ‘ جرابوںاور بنیانوں کو معیوب سمجھتے ہیں
چناں چہ یہ لوگ پہننے کی ہر چیز درزیوں سے سلواتے تھے‘ بخاری صاحب حجام کے پاس گئے تو اس کے طاق میں تیل کی درجنوں بوتلیں رکھی تھیں اور ان پر مشہور لوگوں کے نام لکھے تھے‘ پوچھنے پر معلوم ہوا لندن کے معززین اپنا اپنا تیل الگ رکھتے ہیں اور جب بھی حجام کے پاس آتے ہیں تو ان کی بوتل سے تیل لے کر ان کے سر پر لگایا جاتا ہے‘ پائپ کا تمباکو بھی ہر معزز شخص کے لیے
الگ بنتا تھا‘ گاہک کا ایک نمبر ہوتا تھا اور وہ اپنا نمبر بتا کر تمباکو خریدتا تھا‘ وائسرائے لارڈ ولنگڈن ریٹائر منٹ کے بعد لندن واپس آ گیا ‘ اس سے ملاقات کے لیے گئے تو وہ بہت چھوٹے سے گھر میں رہ رہا تھا اور لیڈی ولنگڈن اپنے گھر میں خود صفائی کر رہی تھی‘ ہندوستان میں ان کا کروفر دیدنی ہوتا تھا لیکن لندن میں وہ عام مڈل کلاس شہری تھے‘ بخاری صاحب لارڈ ولنگڈن سے ملے تو لارڈ نے ان سے پوچھا‘ آپ لندن میں کس شخص سے زیادہ متاثر ہوئے‘ جواب دیا‘ لیڈی آکسفورڈ‘ سرجان ریتھ اور بی یسیٹس‘ ولنگڈن نے پوچھا ’’تم سرجان ریتھ سے کیوں متاثر ہوئے‘‘ میں نے جواب دیا ’’یہ بی بی سی کا بانی ہے‘
آپ کو اس کی عظمت کے لیے مزید کیا ثبوت چاہیے‘‘ لارڈ ہنس کر بولا‘ جان ریتھ بی بی سی کا بانی سہی مگر اس کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو بھی بی بی سی بن کر رہتی‘ اگر جان ریتھ واقعی بڑا آدمی ہے تو پھر دیکھتے ہیں یہ ریٹائر ہونے کے بعد کیا تیر مارتا ہے‘ بخاری صاحب نے لکھا‘ لارڈ کی بات درست ثابت ہوئی‘ جان ریتھ واقعی ریٹائر ہونے کے بعد کوئی تیر نہ مار سکا اور مجھے لارڈ کی یہ بات ہمیشہ یاد رہی۔
زیڈ اے بخاری نے دو انتہائی دل چسپ واقعات بھی تحریر کیے‘ یہ واقعات پڑھتے ہوئے میرے جیسے خشک اور حس مزاح سے عاری شخص کا قہقہہ بھی نکل گیا‘ پہلا واقعہ جارج پنجم کے انتقال سے متعلق تھا‘ جارج پنجم برطانوی بادشاہ تھا‘ یہ 20 جنوری 1936ء کو انتقال کر گیا‘ برطانیہ کی پوری سلطنت میں سوگ شروع ہو گیا‘ اس زمانے میں ریڈیو کی نشریات لائیو ہوتی تھیں‘ دہلی ریڈیو میں دو سٹوڈیو تھے‘ ایک سے انائونسر گفتگو کرتا تھا جب کہ دوسرے سے موسیقی نشر ہوتی تھی‘
دونوں میں لوگ ہر وقت تیار بیٹھے رہتے تھے‘ مائیک کے ساتھ ایک گھنڈی لگی تھی‘ یہ ایک طرف گھمانے سے انائونسر کی آواز آن ائیر ہو جاتی تھی اور دوسری طرف گھمانے سے موسیقی کا سٹوڈیو آن ہو جاتا تھا اور سازندے لائیٹ دیکھ کر ساز بجانا شر وع کر دیتے تھے‘ آغا اشرف بادشاہ کے بارے میں انائونسمنٹ کر رہے تھے‘ وہ بادشاہ کی علالت اور رحلت کے بارے میں بتا رہے تھے‘
وہ بادشاہ کی خوبیاں بتاتے بتاتے بولے ’’بادشاہ معظم نے انتقال سے تقریباً پانچ منٹ پہلے فرمایا ’’آغا اشرف کو اس کے ساتھ ہی کھانسی آ گئی اور انہوں نے اضطراری کیفیت میں مائیک کی گھنڈی گھما دی اور موسیقی کا سٹوڈیو آن ائیر ہوگیا وہاں طبلہ نواز بابا ملنگ خان بیٹھے تھے‘ وہ چلا کر بولے ’’یہ میری ہتھوڑی کون حرام زادہ لے گیا ہے‘‘ اب پورا فقرہ یوں تھا‘ بادشاہ معظم نے انتقال سے
تقریباً پانچ منٹ پہلے فرمایا‘ یہ میری ہتھوڑی کون حرام زادہ لے گیا ہے‘‘ دوسرا واقعہ ایک ترجمے سے متعلق ہے‘ گجراتی زبان میں ڑکا لفظ نہیں ہوتا لہٰذا یہ لوگ ڑ کو ڈ(ڈال) میں بدل دیتے ہیں‘ گجراتی لوگ علی گڑھ کو علی گڈھ‘ جونا گڑھ کو جونا گڈھ اور گاڑی کو گاڈی لکھتے اور بولتے ہیں‘ ایک گجراتی فلم ساز کمپنی نے اس دور میں چوڑیاں کے
نام سے فلم بنائی اور ایک مترجم کو اشتہار بنا کر اگلے دن اردو اخبارات میں چھپوانے کا حکم دے دیا‘ مترجم گجراتی تھا‘ اسے درست اردو نہیں آتی تھی‘ اس نے چند فارمولا لفظ اٹھائے اور اشتہار بنوا کر اخبارات کو بھجوا دیا‘ اگلے دن اشتہار شائع ہوا تو وہ کچھ یوں تھا’’ آ رہا ہے‘ آرہا ہے‘ فلاں ابن فلاں فلم کمپنی کا شاہ کار چڈیاں‘ آیے ملاحظہ فرمایے چڈیاں‘‘۔