واش روم بہت ہی گندا تھا‘ فرش گیلا تھا‘ واش بیسن میں داغ تھے‘ ٹوائلٹ پیپر غائب تھا اور کموڈ میں غلاظت تھی‘ ہاتھ دھونے کے لیے صابن لگایا‘ ایک ٹونٹی کے نیچے ہاتھ رکھا ‘وہ نہیں چل رہی تھی‘ دوسری کے نیچے ہاتھ رکھا‘ وہ بھی ٹس سے مس نہ ہوئی‘ میں نے تیسری پر قسمت آزمائی وہ چل پڑی‘ ڈرائیر بھی نہیں چل رہا تھا اور ٹشو پیپر کا باکس بھی خالی تھا‘ باتھ روم کی صفائی کا
لڑکا دوڑ کر آیا اور مجھے چند ٹشو پیپر پکڑا دیے‘ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس سے پوچھا ’’کیا آپ کافی پیتے ہو‘‘ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور پھر ناں میں سر ہلا دیا‘ میں نے پوچھا ’’اور چائے‘‘ اس نے ہاں میں سر ہلایا اور حیرت سے مجھے دیکھتا رہا‘ میں نے پوچھا ’’کیا آپ میرے ساتھ ایک کپ چائے پئیں گے‘‘ اس نے میری طرف دیکھا‘ اس کے بعد اپنی طرف دیکھا اور بولا ’’نہیں نہیں‘ آپ کا بہت بہت شکریہ‘‘ میں نے ہنس کر کہا ’’آپ کو میرے ساتھ چائے پینی پڑے گی‘‘ وہ گومگو کی حالت میں بولا ’’سر میں ڈیوٹی پر ہوں‘ میں یہ کیسے کر سکتا ہوں‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’میں اگر آپ کو ڈیوٹی منیجر سے اجازت لے دوں تو کیا آپ میرے ساتھ چائے پی لیں گے‘‘ اس نے غیر یقینی حالت میں ہاں کر دی‘ میں اسے لے کر ائیرپورٹ کے ڈیوٹی منیجر کے کمرے میں چلا گیا‘ وہ بڑے تپاک سے ملے‘ میں نے ان سے اپنا مدعا بیان کیا تو وہ تھوڑی دیر تک مجھے اور سویپر لڑکے کو دیکھتے رہے اور پھر بولے ’’ اس نے کوئی گڑ بڑ تو نہیں کی‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’کیا آپ گڑبڑ کے بعد لوگوں کو چائے پلاتے ہیں‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور لڑکے کو آدھ گھنٹے کے لیے چھٹی دے دی۔میں اسے ساتھ لے کر کافی شاپ پر گیا‘ اس کے لیے چائے اور اپنے لیے کافی آرڈر کی اور ہم میز پر بیٹھ گئے‘ وہ بے چارہ زندگی میں پہلی مرتبہ کافی شاپ کی کرسی پر بیٹھا تھا لہٰذا مجھے اس کے جسم میں ہلکا ہلکا ارتعاش صاف دکھائی دے رہا تھا‘ میں نے تھوڑی دیر گپ لگا کر اسے ایزی کیا اور پھر اس سے کہا ’’باتھ رومز کو صاف رکھنا آپ کی ذمہ داری ہے‘ آپ اپنی ڈیوٹی صحیح طریقے سے کیوں نہیں کرتے؟ مسافروں کو آپ کے سامنے کتنی دقت ہورہی تھی‘‘ اس نے خوف سے میری طرف دیکھا اور پوچھا ’’کیا آپ میری شکایت لگانا چاہتے ہیں‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’میں نے اگر شکایت کرنی ہوتی تو میں آپ کو چائے کیوں پلاتا‘‘ اس نے اطمینان سے سانس لیا اور پھر کہا ’’آپ وعدہ کریں آپ میری باتیں ڈیوٹی منیجر کو نہیں بتائیں گے‘ میری جاب چلی جائے گی‘‘ میں نے وعدہ کر لیا‘ وہ مسکرا کر بولا
’’سر واش روم میں صفائی کے لیے ہم دو لوگ ہوتے ہیں‘ ہم دس گھنٹے مسلسل کام کرتے ہیں‘ ہمارا سارا واشنگ مٹیریل روزانہ ختم ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود واش رومز صاف نہیں ہوتے‘ ہم کیا کریں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیاصفائی کے لیے لوگ کم ہیں‘‘ وہ بولا ’’ہرگز نہیں‘ دنیا میں ایک واش روم میں ایک بندہ ہوتا ہے جب کہ ہم دو دو ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’پھر ایشو کیا ہے؟‘‘ وہ بولا ’’آپ لوگ‘‘ میں اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولا ’’سر یہ ائیرپورٹ ہے‘ یہاں خوش حال اور پڑھے لکھے لوگ آتے ہیں
لیکن 99فیصد لوگوں کو واش روم استعمال کرنا نہیں آتا‘ یہ فلش نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو بٹن کو اتنی زور سے دبا دیتے ہیں کہ وہ خراب ہو جاتا ہے‘ کموڈ کے اوپر چڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں جس سے کور ٹوٹ جاتے ہیں‘ فرش گیلا کرتے ہیں‘ واش بیسن میں ناک اور گلا صاف کرتے ہیں جس سے غلاظت جالی میں پھنس جاتی ہے‘ ڈرائیر کو دیر تک استعمال کرتے رہتے ہیں‘ ہاتھ صاف کرنے کے لیے دس دس ٹشو ضائع کر دیتے ہیں اور وضو خانے کی بجائے ٹوائلٹ اور واش بیسن میں وضو کرتے ہیں
لہٰذا ایک فلائیٹ کے بعد واش رومز استعمال کے قابل نہیں رہتے‘ ہم ابھی صفائی کر رہے ہوتے ہیں تو دوسری فلائیٹ آ جاتی ہے اور وہ مسافر گند ڈالنے کے ساتھ ساتھ ہمیں برا بھلا بھی کہنا شروع کر دیتے ہیں چناں چہ آپ خود بتائیں جب ایک گھنٹے میں دو سو لوگ واش رومز گندے کریں گے
تو کیا ہم دو لوگ انہیں صاف کر سکیں گے‘آپ یقین کریں لوگ جیبوں میں مٹی کے ڈھیلے ڈال کر آتے ہیں اور کموڈ میں پھنسا کر چلے جاتے ہیں‘ یہ ٹشو پیپر کا پورا پورا رول کموڈ میں پھینک دیتے ہیں اور خواتین بچوں کے پیمپر کموڈ میں ڈال دیتی ہیں‘ ہم یہ گند کیسے صاف کر سکتے ہیں؟‘‘ میں حیرت سے اس کی کہانی سنتا رہا‘ وہ خاموش ہوا تو میں نے اس سے پوچھا ’’اس کا حل کیا ہے‘‘
وہ ہنس کر بولا ’’آپ لوگ‘ آپ لوگ جب تک گند مچانا بند نہیں کریں گے‘ اس وقت تک صورت حال ٹھیک نہیں ہو گی‘ خواہ آپ واش رومز کی صفائی کے لیے دو دو ہزار بندے بھی رکھ لیں‘‘ میں نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا‘ اس کو تھپکی دی اور ائیرپورٹ سے باہر آ گیا۔میرے لیے زندگی کا یہ ایک نیا زاویہ تھا‘ پاکستان میں صرف ایک فیصد لوگ ہوائی سفر کے قابل ہیں اور یہ لوگ خوش حال اور پڑھے لکھے بھی ہیں لیکن آپ ان کی سیوک سینس اور لائف ٹریننگ دیکھ لیں‘ ان لوگوں کو بھی واش روم
استعمال کرنا نہیں آتا‘ آپ جہازوں کے واش رومز کی حالت بھی دیکھتے ہوں گے‘ یہ بھی کسی طرح قابل ستائش نہیں ہوتی لہٰذا آپ خود سوچیے جو لوگ جہاز کے اندر اور ائیرپورٹ پر اپنا گند صاف نہیں کرتے وہ لوگ شہروں‘ محلوں اور گھروں میں کیا کرتے ہوں گے اور دوسرا ملک میں جب ایک فیصد خوش حال لوگوں کی صورت حال یہ ہے تو باقی 99 فیصد لوگوں کا معیار کیا ہو گا؟ اب سوال یہ ہے ان لوگوں کو ٹھیک کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ کیا یہ حکومت کی ڈیوٹی ہے؟ کیا صدر یا وزیراعظم آ کر
انہیں ٹریننگ دیں گے؟ جی نہیں یہ معاشرے کی اجتماعی ڈیوٹی ہے‘ ہم لوگ جب تک ایک دوسرے کو ٹرینڈ نہیں کریں گے‘ ہم سب لوگ جب تک اپنا بوجھ خود اٹھانا شروع نہیں کریں گے ملک کے مسئلے حل نہیں ہوں گے لہٰذا میری حکومت سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر دو کام کریں‘ پانچویں جماعت تک ایتھکس‘ ویلیوز اور سیوک سینس کو سلیبس کا حصہ بنا دیں‘ سکولوں میں بچوں کو پڑھایا جانا چاہیے واش روم کیا ہوتے ہیں‘ یہ کیسے استعمال کیے جاتے ہیں اور ہر شخص کو استعمال کے بعد
ان کی صفائی کرنی چاہیے‘ ہاتھ دھونا‘ ہاتھ خشک کرنا اور ایک دوسرے کو سلام کرنا بھی کیوں ضروری ہے اور دوسروں سے ہاتھ کیسے ملانا چاہیے اور ملاقات کے دوران کس شخص سے کتنے فاصلے پر کھڑا ہونا چاہیے؟ یہ تمام اصول بچوں کو سکول میں سکھانے چاہییں‘ میں نے تین ماہ قبل ڈاکٹروں کو ایک سیشن دیا تھا‘ میں نے انہیں بتایا ہم جب کسی شخص سے ملنے جاتے ہیں تو ہم سے ہاتھ ملانے کا فیصلہ اس شخص نے کرنا ہوتا ہے‘ وہ اگر ہاتھ ملانے میں پہل کرتا ہے تو ہمیں اس کی طرف ہاتھ بڑھا نا چاہیے
ورنہ صرف منہ سے السلام و علیکم کافی ہوتا ہے‘ ہم ہر شخص کی طرف ہاتھ بڑھا دیتے ہیں یا دوسروں سے گلے ملنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں یہ بدتمیزی ہوتی ہے‘ آپ یقین کریں ہال میں موجود تمام لوگوں کا کہنا تھا ہمیں زندگی میں یہ اصول پہلی مرتبہ معلوم ہوا‘معاشرے کو یہ اصول بتانا کس کی ذمہ داری تھی؟ یہ حکومت کی ذمہ داری تھی اور یہ کوتاہی کی مرتکب ہوتی رہی لہٰذا حکومت اسے سلیبس میں شامل کرے‘ دوسری درخواست‘ پورا ملک نالی‘ گلی‘ سڑک‘ پائپ اور پانی کی دہائی دے رہا ہے‘ ریاست کو یہ کام کرنے چاہییں لیکن جس ملک کے قرضے جی ڈی پی کا نوے فیصد حصہ ہوں گے وہ ملک کس
کس کی سڑک‘ گلی اور نالی بنائے گا؟ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا یہ کام ہمیں خود کرنے ہوں گے‘ عوام تھوڑی تھوڑی رقم جمع کریں‘ ہفتے میں ہر شخص چند گھنٹے دے اور اپنی گلی‘ اپنی نالی اور اپنی سڑک بنا لے‘ یہ پائپ بچھائے اور پھر حکومت سے درخواست کرے آپ اب ہمیں گیس سپلائی کر دیں اور کھمبوں اور تاروں کا بندوبست خود کر یں اور بجلی سرکار سے لے لیں‘ لوگ ماضی میں پانی کا کنواں خود کھود لیا کرتے تھے‘ یہ سرکار کا انتظار کیوں کر رہے ہیں؟ آپ کی شلوار پھٹی ہوئی ہے یا آپ کی
قمیض کا کپڑا کم ہے تو یہ پورا کرنا اور اسے ری پیئر کرنا آپ کی ذمہ داری ہے حکومت کی نہیں‘عوام کو یہ نقطہ سمجھنا ہوگا اور یہ باریک نقطہ سمجھانے کے لیے ہمیں سوشل لیڈرز کی ضرورت ہے‘ عمران خان خود ایک سوشل لیڈر ہیں‘ یہ کینسر ہسپتال بھی بنا چکے ہیں اور یونیورسٹی بھی قائم کر چکے ہیں‘ یہ اچھی طرح جانتے ہیں عوام جب تک سامنے نہیں آتے‘ یہ جب تک خود گڑھے نہیں بھرتے ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرتے لہٰذاحکومت کو ڈاکٹرامجد ثاقب جیسے سوشل لیڈرز کی
مدد لینی چاہیے‘ڈاکٹر امجد ثاقب نے اخوت کے ذریعے اڑھائی کروڑ لوگوں کو غربت سے لڑنا سکھا دیا‘ حکومت اگر ان جیسے دو سو لوگوں کی ٹیم تیار کر دے اور یہ لوگ عوام کا ہاتھ پکڑ کر انہیں یہ سمجھا دیں یہ مسئلے آپ کے ہیں اور انہیں حل بھی آپ نے کرنا ہے تو آپ یقین کریں ملک میں پانچ دس برسوں میں بڑی تبدیلی آ جائے گی۔ میری حکومت سے درخواست ہے آپ اخلاقیات کو سلیبس کا حصہ بنا دیں اور ملک میں سوشل لیڈرز کی ٹریننگ کا ادارہ بنادیں‘ یہ ادارہ سوشل لیڈرز تیار کرے‘ لیڈرز آگے لیڈرز تیار کریں اور یہ لیڈرز عوام کی رہنمائی شروع کر دیں‘ ملک پھر بدلے گا ورنہ لوگ گلی‘ سڑک اور سویپر تلاش کرتے کرتے مر جائیں گے۔