مجھے بچپن میں میرے ایک استاد نے بتایا تھا ’’انسان زندگی میں کوئی چیز سیکھنا چاہتا ہواور اگر اسے سیکھنے میں مشکل پیش آ رہی ہوتو وہ پڑھانا شروع کر دے‘ اسے وہ چیز‘ وہ سبجیکٹ سمجھ آ جائے گا‘‘ مجھے یہ نقطہ اس وقت سمجھ نہیں آیا تھا لیکن میں نے جب لائف اور بزنس کوچنگ شروع کی تو دوسروں کو فائدہ ہوا یا نہیں مگر زندگی کے بارے میں میرے اپنے کانسیپٹ کلیئر ہوتے چلے گئے‘
میں نے زندگی کو پہلے سے بہتر سمجھنا شروع کر دیا‘ میرے کلائنٹ اب مجھ سے پوچھتے ہیں آپ نے خود کبھی کوئی فیکٹری نہیں چلائی‘ آپ خود طلاق یافتہ بھی نہیں ہیں آپ کو ان تکلیفوں کا کیسے اندازہ ہو جاتا ہے؟ میں ہنس کر عرض کرتا ہوں ’’دل کا ڈاکٹر بننے کے لیے ہارٹ اٹیک ضروری نہیں ہوتا‘‘یہ بھی ہنس پڑتے ہیں تو میں ان سے عرض کرتا ہوں ’’میں نے یہ سب کچھ آپ لوگوں سے سیکھا‘ آپ لوگ آتے گئے‘ میں آپ کی کہانیاں سنتا گیا‘ ایک کا کام یاب ماڈل دوسرے اور دوسرے کا ماڈل پہلے کو دیتا گیا اور میرا ’’نالج بیس‘‘ بڑا ہوتا گیا اور بس‘ یہ ہے فارمولا‘ ڈاکٹر مریضوں سے سیکھتا ہے‘ آپ بھی یقین کریں میں نے زندگی اور بزنس کے زیادہ تر مسائل کے حل لوگوں کو پڑھا پڑھا اور سمجھا سمجھا کر سیکھے ہیں‘‘ لوگ میری بات پر یقین نہیں کرتے‘ یہ سمجھتے ہیں میں مذاق کر رہا ہوں لیکن میں سچ کہہ رہا ہوں‘ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی زمانہ ہے اور اس کے سب سے بڑے پروفیسر لوگ ہیں‘ آپ وقت کے کلاس رومز میں بیٹھتے رہیں اور لوگوں سے ان کے تجربات سنتے رہیں‘ آپ کے دائیں بائیں علم کا ڈھیر لگ جائے گا‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ بھی کر کے دیکھ لیں‘ آپ بھی مان جائیں گے۔کراچی میں میرے ایک کلائنٹ ہیں‘ یہ ماشاء اللہ اس وقت ارب پتی ہیں‘ کنسٹرکشن کے کاروبار سے وابستہ ہیں‘ بڑی بڑی ہائوسنگ سکیموں میں ڈویلپمنٹ کا کام کرتے ہیں‘ سڑکیں بناتے ہیں‘ پل اور سیوریج کا سسٹم بنا کر دیتے ہیں اور ٹائون پلاننگ کرتے ہیں‘ یہ فیملی ایشوز میں پھنس گئے تھے
اور یہ دو تین ماہ میرے پاس تشریف لاتے رہے‘ مجھے انہوں نے ایک بار اپنی زندگی کی کہانی سنائی اورمیں نے اس کہانی سے روزگار‘ نوکری اور کاروبار کا ماڈل بنا لیا‘ یہ ماڈل اب تک درجنوں لوگوں کو خوش حال بنا چکا ہے‘ یہ صاحب اندرون سندھ کسی چھوٹے سے گائوں میں انتہائی غریب خاندان میں پیدا ہوئے تھے‘ مدرسے میں تعلیم حاصل کی تھی‘ بورڈ سے وظیفہ لیا اور بی اے کرنے میں کام یاب ہو گئے‘ یہ اس کے بعد جاب کے لیے کراچی آ گئے اور روز صاف ستھرے کپڑے پہن کر مختلف دفتروں کے
چکر لگانے لگے لیکن انہیں کام یابی نہیں ہو رہی تھی‘ انہوں نے چپڑاسی تک کی جاب کی کوشش کی مگر یہ جاب بھی ان کے نصیب میں نہیں تھی‘ ان کا کمرہ کرائے کا تھا‘ ادھار کھانا کھاتے تھے اور رشتے داروں سے پیسے مانگ کر بسوں اور رکشوں کا کرایہ دیتے تھے‘ یہ سارے سورس بھی ایک دن ختم ہو گئے‘ رشتے داروں نے مزید ادھار دینا بند کر دیا ‘ کمرے کا کرایہ بھی چڑھ گیا اور یہ پورا پورا دن بھوکے رہنے لگے‘ یہ ایک روز انتہائی پریشانی میں گھر سے پیدل نکل کھڑے ہوئے‘ راستے میں ایک
مکان بن رہا تھا‘ گلی میں اینٹوں کا ڈھیر لگا تھا اور مزدور یہ اینٹیں اٹھا اٹھا کر ترتیب سے لگا رہے تھے‘ مستری لوگ اس ترتیب کو اپنی زبان میں اڈہ یا ٹھپہ کہتے ہیں‘ سومرو صاحب نے یہ دیکھا‘ رکے اور ان کے ذہن میں ایک دل چسپ آئیڈیا آیا‘ انہوں نے اپنی فائل سائیڈ پر رکھی‘ شرٹ کے کف فولڈ کیے اور مزدوروں کے ساتھ اینٹیں اٹھا کر اڈہ لگانا شروع کر دیا‘ مزدوروں نے انہیں روکا لیکن ان کا کہنا تھا‘ میں آپ لوگوں کی مفت مدد کر رہا ہوں‘ مجھے اس کے بدلے آپ سے کچھ نہیں چاہیے‘ مزدور حیرت سے
انہیں دیکھتے رہے‘ یہ بہرحال اینٹیں اٹھاتے رہے اور اڈہ لگاتے رہے‘ یہ سارا دن یہ کام کرتے رہے‘ ٹھیکے دار دور بیٹھا تھا‘ وہ انہیں غور سے دیکھتا رہا‘ ان کا کام ختم ہو گیا تو انہوں نے اپنے کف سیدھے کیے‘ کپڑے جھاڑے‘ فائل اٹھائی اور چپ چاپ چل پڑے‘ ٹھیکے دار نے دیکھا تو وہ دوڑ کر ان کے پاس آیا اور انہیں تھوڑے سے پیسے پکڑانے کی کوشش کی‘ انہوں نے مسکرا کر انکار کر دیا اور کہا میں نے یہ کام کسی معاوضے کے لالچ میں نہیں کیا‘ گرمی تھی‘ میں نے دیکھا مزدور بیچارے دھوپ میں
کام کر رہے ہیں‘ میں نے ان کی ہیلپ کرنا شروع کر دی‘ ٹھیکے دار نے کہا ’’لیکن آپ کو یہ معاوضہ ہر صورت لینا پڑے گا‘‘ سومرو صاحب نے وہ پیسے لے لیے لیکن وہ پیسے لینے کے بعد گھر نہیں گئے‘ وہ سیدھے سامنے دکان پر گئے‘وہاں سے دودھ سوڈا بنوایا‘ واپس آئے اور ٹھیکے دار اور مزدوروں سب کو وہ دودھ سوڈا پلا دیا‘ ٹھیکے دار اور مزدور ان کے ساتھ فری ہو گئے اور ان سے ان کا بیک گرائونڈ پوچھنے لگے‘ انہوں نے اپنی ساری کہانی سنا دی‘ یہ کہانی سن کر ٹھیکے دار نے انہیں آفر کی
آپ دن کو نوکری تلاش کرتے رہا کریں لیکن شام کو آ کر میرا حساب ٹھیک کر دیا کریں‘میں آپ کو اس کے بدلے میں ہزار روپے مہینہ دے دیا کروں گا‘ یہ فوراً مان گئے‘ یہ اب سارا دن نوکری تلاش کرتے تھے اور شام کو ٹھیکے دار کا حساب ٹھیک کر دیتے تھے‘ یہ سلسلہ ایک مہینے تک چلا‘ اس دوران انہوں نے محسوس کیا اینٹیں‘ بجری‘ ریت اور سیمنٹ کے سپلائرز تعداد اور مقدار میں ڈنڈی مارتے ہیں‘ یہ ٹھیکے دار سے رقم بھی زیادہ لے لیتے ہیں اور مٹیریل بھی کم دیتے ہیں‘ یہ ایک دن ٹھیکے دار کے
پاس گئے اور اس کو پیش کش کی ’’میں آپ کی لیکج بھی روکوں گا اور آپ کو مارکیٹ سے سستا مٹیریل بھی لے کر دوں گا‘کیا یہ آپ کو منظور ہے؟‘‘ ٹھیکے دار نے ہاں کر دی‘ انہوں نے کہا ’’لیکن میری ایک شرط ہے‘‘ ٹھیکے دار نے پوچھا ’’کیا‘‘ یہ بولے ’’میں جتنی لیکج روکوں گا اور آپ کو وینڈرز سے جتنی رعایت لے کر دوں گا وہ ہم آپس میں آدھی آدھی کیا کریں گے‘‘ ٹھیکے دار کو کیا چاہیے تھا‘
وہ فوراً مان گیا‘ یہ اس کے بعد ایک طرف اینٹوں والوں سے پوری اینٹیں اور مٹیریل سپلائی کرنے والے سے بجری‘ ریت اور سیمنٹ پورا لینے لگے اور دوسری طرف یہ فیکٹریوں سے ڈائریکٹ بات کر کے ان سے مارجن لینے لگے‘ اس سے انہیں اور ٹھیکے دار دونوں کو فائدہ ہونے لگا‘ یہ آہستہ آہستہ اپنا کام بڑھاتے رہے اور چھ ماہ بعد انہوں نے ٹھیکے دار کو سپلائی شروع کر دی اور آپ یہ جان کر حیران ہوں گے تین سال بع
د یہ خود بہت بڑے ٹھیکے دار تھے اور ان کے پاس گاڑی بھی تھی‘ مکان بھی اور ملازمین بھی اور یہ آج ارب پتی ہیں‘ ان کا دعویٰ تھا یہ ساری اچیومنٹ انہوں نے تین گھنٹے مفت کام کر کے حاصل کی تھی‘ یہ اگر اس دن اینٹیں نہ اٹھاتے تو یہ آج بھی نوکری تلاش کر رہے ہوتے یا پھر بیس تیس ہزار روپے کی جاب کر رہے ہوتے‘ ان کا کہنا تھا‘ ہمارے نوجوان جتنا وقت نوکری تلاش کرنے میں ضائع کرتے ہیں یہ اگر اس کا صرف دس فیصد کسی کمپنی‘ ادارے یا دکان پر مفت کام کرلیں تو یہ دنوں میں برسرروزگار ہو جائیں گے۔
مجھے یہ آئیڈیا پسند آیا‘ میں نے اس آئیڈئیے پر جاب فارمولا بنایا اور یہ بے روزگار نوجوانوں کو دینا شروع کر دیا‘ آپ یقین کریں نتائج نے حیران کر دیا‘ آپ بھی اگر نوجوان ہیں اور بے روزگار ہیں تو آپ بھی یہ ٹرائی کر سکتے ہیں‘ آپ کو چند دنوں میں نوکری بھی مل جائے گی اور زندگی میں ترقی کرنے کا گُر بھی‘یہ فارمولا بہت آسان ہے‘ آپ سب سے پہلے یہ فیصلہ کریں آپ نے نوکری کرنی ہے یا اپنا کاروبار‘اگر نوکری کرنی ہے تو کس شعبے میں؟ آپ شعبہ منتخب کر نے کے بعد اس شعبے کی
دوتین کمپنیاں سلیکٹ کریں اور کل سے ان کے دفتر یا ادارے میں جانا شروع کر دیں‘ آپ ان سے ہرگز ہرگز نوکری نہ مانگیں‘آپ انہیں مفت کام کی پیشکش کریں‘ آپ ان سے کہیں‘ میں آپ کے دفتر میں ٹی بوائے کا کام بھی کر سکتا ہوں اور باتھ روم بھی صاف کر سکتا ہوں اور کچن میں بھی ہیلپ کر سکتا ہوں‘ وہ لوگ اگر آپ کو اندر نہیں گھسنے دیتے تو آپ ان کے دفتر کے باہر بیٹھ جائیں اور اندر کام کرنے والوں کی گاڑیاں صاف کرنا شروع کر دیں لیکن واپس نہ جائیں‘ آپ یقین کریں آپ کے لیے اس دفتر میں جگہ ب
ھی پیدا ہو جائے گی اور آپ اس کی چوٹی تک بھی پہنچ جائیں گے۔ آپ یہ یاد رکھیں پیسہ اور عہدہ یہ دونوں کام کی ’’بائی پراڈکٹ‘‘ ہیں‘ آپ کام کریں گے تو ہی امیر ہو سکیں گے یا کسی بڑے عہدے پر پہنچ سکیں گے‘ لفظ کام یاب میں کام پہلے آتا ہے اور یاب بعد میں‘ یہ لفظ ’’یاب کام‘‘ نہیں ’’کام یاب ‘‘ ہے‘ اس کا مطلب ہے آپ کو کام پہلے تلاش کرنا ہوگا اور یاب آپ کو بعد میں ملے گا لیکن ہم کام سے پہلے ’’یابی‘‘ تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یوں ہمارا بے تحاشا وقت اور توانائی ضائع ہو جاتی ہے لہٰذا میرا مشورہ ہے آپ تعلیم کے دوران یہ فیصلہ کر لیں آپ نے کام کیا کرنا ہے اور آپ کی تعلیم جوںہی ختم ہو جائے
آپ اگلے دن کام پر پہنچ جائیں‘ یہ عین ممکن ہے آپ کو شروع میں دفتر میں مرضی کا کام نہ ملے مگر آپ پرواہ نہ کریں‘ آپ بس کسی نہ کسی طرح ٹرین میں سوار ہو جائیں‘ خواہ آپ کو پائیدان پر پائوں ٹکانے کی جگہ ہی کیوں نہ مل جائے‘ آپ بس ٹرین کے ساتھ لٹک جائیں‘ آپ یقین کریں ان شاء اللہ‘ ان شاء اللہ آپ کو ڈبے میں داخل ہونے کا موقع بھی ملے گا اور آپ کی مرضی کی سیٹ بھی اور دوسری بات پیسہ کام کے بعد ملتا ہے‘ آپ جتنا اچھا کام کریں گے آپ کو اتنا پیسہ ضرور ملے گا‘ دیر ضرور ہو سکتی ہے لیکن قدرت کے کارخانے میں اندھیر نہیں ہوتی آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھ لیں‘ نتائج آپ کو بھی حیران کر دیں گے۔