اتوار‬‮ ، 24 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

صرف تین ہزار روپے میں

datetime 25  اکتوبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

دنیا میں جہاں بھی اردو پڑھی جاتی ہے وہاں لوگ مختار مسعود کو جانتے ہیں‘ مختار مسعود بیورو کریٹ تھے‘ ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر رہے‘ لاہور کا مینار پاکستان ان کی نگرانی میں بنا‘ یہ اس وقت لاہور کے ڈپٹی کمشنر تھے‘ چارکتابیںلکھیںاور کمال کر دیا‘ یہ کتابیں صرف کتابیں نہیں ہیں‘ یہ تاریخ‘ جغرافیہ اور پاکستان کے عروج وزوال کی کہی ان کہی داستان ہیں‘ مختار مسعود 91سال کی

بھرپور زندگی کے بعد 2017ء میں انتقال فرما گئے لیکن یہ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے ایک عجیب کام کر گئے‘ آپ نے 2002ء میں اپنی عمر بھر کی جمع پونجی اکٹھی کی‘ یہ دس کروڑ روپے بنے‘ آپ نے یہ دس کروڑ روپے آزاد کشمیر کی ایک فائونڈیشن کے حوالے کیے اور اسے چوکی گائوں میں سکول بنانے کا فریضہ سونپ دیا‘ فائونڈیشن نے سکول کھڑا کر دیا‘ مختار مسعود کو سکول کے افتتاح کی دعوت دی گئی‘ مختار صاحب نے تین شرائط کے ساتھ یہ دعوت قبول کر لی‘ ایک‘ افتتاح کی کوئی تقریب نہیں ہو گی‘ دو‘ یہ چھٹی کے دن چوکی آئیں گے اور تین‘ ان کے ڈونیشن کی کوئی تشہیر نہیں کی جائے گی‘ فائونڈیشن کے پاس شرائط ماننے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا یوں مختار صاحب 2003ء کی ایک سہ پہر اتوار کے دن چوکی پہنچے‘ خالی کلاس روم میں گئے‘ چاق سے بلیک بورڈ پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا اور چپ چاپ واپس آ گئے‘ مختار مسعود کے اس سکول میں آج ہزار طالب علم پڑھ رہے ہیں اور اس ایک ادارے نے پورے علاقے کا مقدر بدل کر رکھ دیا‘ میں نے جب یہ واقعہ سنا تو میں نے پوچھا ’’مختار مسعود نے لاہور چھوڑ کر چوکی میں سکول کیوں بنایا تھا‘‘ وہ بولے‘ ہم نے بھی ان سے یہ پوچھا تھا‘ مختار صاحب نے جواب دیا تھا’’ میرے دادا کشمیر سے چوکی کے راستے پنجاب داخل ہوئے تھے‘ یہ رات وہاں رہے تھے‘گائوں کے لوگوں نے مسافر کی حیثیت سے ان کی بہت خدمت کی تھی‘ دادا نے اپنی یادداشتوں میں چوکی کے لوگوں کی بہت تعریف کی ‘میں سکول بنوا کر

اس گائوں کے لوگوں کا وہ احسان اتارنا چاہتا ہوں‘‘۔مختار مسعود کا یہ سکول ریڈ فائونڈیشن نے بنایا تھا اور یہ اسے چلا بھی رہی ہے‘ یہ میرا ریڈ فائونڈیشن سے پہلا تعارف تھا‘ میں نے اس کے بعد فائونڈیشن کے بارے میں کھوج شروع کیا‘ پتا چلا یہ ادارہ آزاد کشمیر کے ایک عام سے شخص محمود احمد نے 1994ء میں بنایا تھا‘ محمود صاحب چکار کے رہنے والے تھے‘ والد سرکاری ملازم تھے‘

یہ والد کے ٹرانسفر کے ساتھ ساتھ بڑے ہوئے‘ دس جماعتیں دس مختلف علاقوں اور دس مختلف سکولوں میں پوری کیں‘ میٹرک کے بعد کراچی چلے گئے‘ یہ وہاں دن کو مزدوری کرتے تھے اور شام کو ایوننگ کلاسز لیتے تھے‘ پی آئی اے کی نوکری ان کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی‘ یہ گرتے پڑتے پی آئی اے میں بھرتی ہو گئے لیکن پھر انہیں اچانک محسوس ہوا یہ زندگی کوئی زندگی نہیں‘

آپ پیدا ہوئے‘ بڑے ہوئے‘ نوکری کی اور فوت ہو گئے‘ انسان کو زندگی میں کوئی بڑا کام کرنا چاہیے‘ یہ بڑے کام کے بارے میں سوچنے لگے تو ان کے ذہن میں غریبوں کے لیے سکول کا آئیڈیا آگیا‘ محمود صاحب نے دوستوں کے ساتھ آئیڈیا شیئر کیا‘ 25 ہزار روپے اکٹھے کیے اور آزاد کشمیر کے دور افتادہ گائوں میں ایک کمرے اور ایک استاد کے ساتھ سکول کھول لیا‘یہ چھوٹا سا سکول آگے چل کر

ریڈ فائونڈیشن بن گیا‘ مخیر حضرات شامل ہوتے چلے گئے اور فائونڈیشن ملک کا بڑا تعلیمی ادارہ بنتی چلی گئی‘ آج ریڈ فائونڈیشن کے 390 سکول ہیں‘ ان میں ایک لاکھ 12 ہزار طالب علم پڑھ رہے ہیں‘ یہ لوگ 12 ہزار یتیم طالب علموں کو مفت تعلیم‘ یونیفارم اور کتابیں بھی دیتے ہیں‘ فائونڈیشن سردست آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان تک محدود ہے لیکن یہ بہت جلد اپنا نیٹ ورک پورے ملک تک پھیلادے گی‘

میں جوں جوں فائونڈیشن کے بارے میں پڑھتا گیا میں حیران ہوتا گیا لہٰذا میں نے ان کے سکول دیکھنے کا فیصلہ کیا‘ میں پچھلے ہفتے میر پور اور بھمبر گیااور ان کے چار سکول وزٹ کیے‘ آپ یقین کریں میں سکولوں کی کوالٹی‘ صفائی اور ڈسپلن دیکھ کر حیران رہ گیا‘ یہ تمام سکول مختار مسعود صاحب کی طرح مخیر حضرات نے بنوائے تھے‘ بھمبر میں بھڑنگ نام کا ایک گائوں ہے‘

یہ آزاد کشمیر کا سب سے بڑا گائوں ہے‘ اس گائوں میں برطانیہ میں مقیم چودھری عبدالغفور کے خاندان نے ریڈ فائونڈیشن کے ذریعے سٹیٹ آف دی آرٹ سکول بنوا دیا‘ سکول دیکھنے لائق ہے‘ گائوں ڈھیری وٹا میں کراچی کے حبیب خان نے سکول بنایا اور کمال کر دیا‘ حبیب خان چارٹرڈ اکائونٹنٹ تھے‘ کراچی میں رہتے تھے ‘

یہ کبھی کشمیر نہیں آئے‘ کراچی میں بیٹھ کر سکول بنوایا اور آج سکول کی بچیاں ہر صبح حبیب خان اور ان کے خاندان کے لیے دعا کرتی ہیں‘ اسی طرح سکاسن میں عرفان اسلم اور اشتیاق فاروق کے خاندان نے سکول بنوا دیے اور ان سکولوں نے پورے گائوں کی حالت بدل دی‘ مجھے بھمبر میں ریڈ فائونڈیشن کا کالج دیکھنے کا موقع بھی ملا‘ میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کروں گا یہ کالج گورنمنٹ کالج یا ایف سی کالج سے

اچھا ہے لیکن یہ ان دونوں سے کم بھی نہیں ‘ کلاس رومز‘ لیبارٹریاں اور لائبریری ہر چیز صاف‘ ستھری اور خوب صورت تھی‘ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی وزیراعظم راجہ فاروق حیدر اور کشمیری وزراء کے بچے بھی ریڈ فائونڈیشن کے سکولوں میں پڑھتے ہیں۔ریڈ فائونڈیشن کے تین منتظم میرے ساتھ تھے‘ میں نے ان سے ان کا ماڈل پوچھا تو پتا چلا یہ لوگ کرائے کی عمارت میں سکول شروع کر دیتے ہیں‘

بچے پڑھنے لگتے ہیں‘ اس دوران کوئی نہ کوئی ڈونر مل جاتا ہے اور یہ لوگ زمین خرید کر یا پھر ڈونیشن لے کر سکول کی عمارت کھڑی کر دیتے ہیں اوریوں بچے نئی عمارت میں شفٹ ہو جاتے ہیں‘ ریڈ فائونڈیشن کی تمام عمارتیں ایک جیسی ہیں‘ سکول کے لیے دو کنال جگہ اور ایک کروڑ 30 لاکھ روپے درکار ہوتے ہیں‘ یہ رقم ایک شخص بھی دے سکتا ہے اور خاندان اور دوست مل کر بھی سکول بنوا سکتے ہیں‘

سکولوں میں 12 ہزار یتیم بچے پڑھ رہے ہیں‘ ان کے لیے سالانہ 30 کروڑ روپے چاہیے ہوتے ہیں‘ فائونڈیشن ان 30 کروڑ روپوں کے لیے ہر سال چیریٹی فنکشن کرتی ہے اور مخیر حضرات سے مالی امداد کی درخواست کرتی ہے‘ میں نے ان سے عرض کیا‘ آپ اس رقم کے لیے اللہ کے نام پر شیئر کیوں نہیں لانچ کر دیتے‘ یہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے‘ میں نے عرض کیا‘ لوگوں کے لیے

پچاس ساٹھ ہزار یا لاکھ روپے دینا مشکل ہوتا ہے‘ آپ اگر تین ہزار روپے کا شیئر لانچ کر دیں اور ہم سب مل کر ایک لاکھ لوگ تلاش کر لیں تو 12 ہزار یتیم بچے پورے وقار کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں‘ میری بات سے تمام لوگوں نے اتفاق کیا یوں میں نے فوراً پہلا شیئر خرید لیا‘ اب صرف 99 ہزار نو سو 99لوگ باقی ہیں‘ مجھے یقین ہے یہ لوگ ملتے دیر نہیں لگے گی‘ ہمیں 22 کروڑ لوگوں کے

ملک میں صرف ایک لاکھ ایسے لوگ چاہییں جو ہر سال صرف تین ہزار روپے دے دیں‘ یہ تین ہزار روپے 12 ہزار یتیم بچوں کو اپنے قدموں پر کھڑا کر دیںگے‘ مجھے اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ ہے‘ اللہ تعالیٰ یقینا ایسے لوگوں کا بندوبست کر دے گا‘ کیوں؟ کیوں کہ میں جس وقت یہ سطریں لکھ رہا ہوں اس وقت ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور اس مہینے میں ہمارے رسولؐ دنیا میں تشریف لائے تھے‘

آپؐ پیدائش سے پہلے یتیم ہو چکے تھے‘ والد کا انتقال آپؐ کی پیدائش سے چھ ماہ قبل ہو گیا اور آپؐ ابھی چھ برس کے تھے کہ آپؐ والدہ کے سائے سے بھی محروم ہو گئے‘ آپؐ کی کفالت شروع میں دادا حضرت عبدالمطلب نے فرمائی اور ان کے انتقال کے بعد آپؐ کی ذمہ داری آپؐ کے چچا حضرت ابوطالب نے اٹھا لی‘ آپؐ یتیمی اور غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کر سکے‘ امی رہ گئے لیکن آپؐ جب

جوان ہوئے تو آپؐ جہالت اور ظلم کے شکار اس معاشرے کے صادق بھی تھے اور امین بھی‘ اللہ تعالیٰ نے چالیس سال کی عمر میں آپؐ پر وحی کا نزول شروع فرمایا اور یوں آپؐ پوری دنیا کے لیے ایمان‘ علم اور ترقی کا نقطہ آغاز بن گئے‘ ہمارے رسولؐ بھی یتیم تھے اور ریڈ فائونڈیشن کے بارہ ہزار طالب علم بھی یتیم ہیں چناں چہ میری آپ سے درخواست ہے آپ رسول اللہ ﷺ کے

نام پر 12 ہزار یتیم بچوں کا آسرا بن جائیں‘ آپ ریڈ فائونڈیشن کی مدد کریں اور آپ اگر یہ نہیں کر سکتے تو بھی آپ سال میں صرف تین ہزار روپے ادا کر کے ایک لاکھ معاونین کے قافلے میں ضرور شامل ہو سکتے ہیں‘ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں آپ نبی رسالتؐ کی محبت اور توجہ کے مستحق بن جائیں گے۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…