وہ ہمارے ساتھ پڑھتا تھا‘ جسمانی‘ معاشی اور سماجی تینوں سائیڈز سے کم زور تھا‘ رنگ کالا‘ قد چھوٹا اورہڈیوں کا ڈھانچہ‘ والد گول گپے کی ریڑھی لگاتا تھا‘ وہ سکول کے بعد ریڑھی پر چلا جاتا تھا اور رات تک ’’کھٹے میٹھے‘‘ کی آوازیں لگاتا رہتا تھا‘ وہ ذات کا ’’مہاجر‘‘ تھا‘پنجاب کے شہروں میں1980ء کی دہائی تک ’’مہاجر‘‘ ہوتے تھے‘ یہ لوگ ہندوستان سے ہجرت کر کے پنجاب کے
مختلف شہروں میں آباد ہوئے تھے اور بے وطن ہونے کی وجہ سے ہر قسم کا چھوٹا بڑا کام کرلیا کرتے تھے‘ پنجاب کیوں کہ صدیوں سے ’’کاسٹ سسٹم‘‘ میں بندھا ہوا ہے‘ اس میں برادری مذہب سے زیادہ تگڑی سمجھی جاتی ہے‘ آپ آج بھی بڑے شہروں سے چند کلو میٹر باہر نکل جائیں ‘ لوگ آپ سے پوچھنا شروع کر دیں گے ’’تسی کون ہوندے ہو‘‘ لہٰذا پنجاب میں آج بھی ذات برادری سے دوسروں کے مرتبے اور مقام کا تعین کیا جاتا ہے‘ یہ اگر آپ کو برادری کے لحاظ سے برابر نہیں سمجھیں گے تو یہ آپ سے سلام بھی لینا پسند نہیں کریں گے‘ چالیس پچاس سال پہلے صورت حال آج سے کہیں بدتر تھی‘ اس دور میں مقامی پنجابیوں نے ہجرت کر کے آنے والے پنجابیوں کو باقاعدہ ’’مہاجر‘‘ کا نام دے دیا تھا اور ہم بچوں کو محسوس ہوتا تھا مہاجر شاید کوئی ذات‘کوئی فرقہ یا کوئی مذہب ہے‘ ہمیں جوان ہو کر پتا چلا یہ لوگ ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اور یہ ہم سے زیادہ پاکستانی ہیں۔کالو بے چارہ بھی مہاجر تھا‘ وہ ہر لحاظ سے کم زور تھا اور وہ ہم میں خود کو ’’آڈ‘‘ محسوس کرتا تھا لہٰذا اس نے اپنی کم زوری کا دل چسپ حل نکالا‘ لائل پور (فیصل آباد) میں اس کا کوئی دور پار کا ماموں رہتا تھا‘ اس نے اس ماموں کو ’’گلوری فائی‘‘ کرنا شروع کر دیا‘
ہم جو بھی بات کرتے تھے کالو اس میں اپنا ماموںڈال دیتا تھا‘ شہر میں پہلی کار آئی‘کالو نے ہمیں بتانا شروع کر دیا میرے ماموں کے پاس اس سے بھی بڑی کار ہے‘ شہر میں کسی نے کسی بدمعاش کا پھینٹا لگا دیا‘ کالو نے اسی شام دعویٰ کر دیا میرا ماموں اب تک ایسے پچاس بدمعاشوں کوپھینٹی لگا چکا ہے‘ شہر میں پہلی کوٹھی بنی تو اس نے بتایا اس کے ماموں کی کوٹھی اس سے دگنی بڑی ہے‘ کسی بارات میں کسی ب
اراتی نے دو تین ہزار روپے کے نوٹ لٹا دیے‘ کالو نے بتایا اس کے ماموں ہر بارات میں اس سے تین گنا زیادہ رقم لٹا دیتے ہیں‘ہم بچے دل ہی دل میں کالو کے ماموں سے متاثر ہونے لگے‘ وہ ظالم نقشہ ہی ایسا کھینچتا تھا‘ یہ سلسلہ شاید اس سے بھی آگے نکل جاتا مگرپھر ایک واقعہ پیش آیا اور لائل پور کے ماموں کے غبارے سے ہوا نکل گئی‘ ہمارے ایک کلاس فیلو کے ننھیال لائل پور میں تھے‘ وہ لائل پور کے
ماموں کا ذکر سن کر تنگ آ گیا اوراس نے باتوں ہی باتوں میں کالو سے ماموں کا حدود اربع پوچھ لیا‘ وہ کلاس فیلو چھٹیوں میں فیصل آباد چلا گیااور اس نے کالو کے ماموں کی ٹوہ لگانا شروع کر دی‘ پتا چلا فیصل آباد میں واقعی اس نام کا شخص موجود ہے اور وہ خوش حال بھی ہے اور یہ بھی کنفرم ہو گیا وہ شخص بھی تقسیم کے وقت کالو کے شہر سے فیصل آباد آیا تھا‘ ہمارا کلاس فیلو کالو سے مزید متاثر ہو گیا
لیکن کہانی اگلے دن اس وقت پلٹ گئی جب وہ کلاس فیلو اپنے ماموں کے ساتھ کالو کے ماموں کے گھر پہنچ گیا‘ پتا چلا کالو کے خاندان اور لائل پورکے ماموں کے درمیان صرف ایک رشتہ ہے اور وہ رشتہ یہ ہے کہ یہ دونوں کلا نار سے پاکستان آئے تھے‘ دونوں رانگڑ ہیں تاہم یہ دونوں ایک دوسرے کو دور دور تک سے نہیں جانتے‘ کالو کا باپ اور دادا کلا نار میں بھی گول گپے لگاتے تھے جب کہ فرضی ماموں کا
خاندان وہاں زمین دار تھا لیکن کالو نے ہمیں متاثر کرنے کے لیے اسے اپنا ماموں ڈکلیئر کردیا تھا اور گول گپے کی ریڑھی پر کھڑا ہو کر اپنے ماموں کی ہر ’’اچیومنٹ‘‘ کو اپنی بنا لیتا تھا۔کالو کی کہانی یہاں ختم ہو گئی لیکن مسافر کالو کو آج تک نہیں بھلا سکا‘ کیوں؟ کیوں کہ کالو کسی ایک کالو کا نام نہیں‘ ہم من حیث القوم کالو ہیں‘ ہم نے 72 سال اپنے فرضی ماموئوں کے انتظار میں ضائع کر دیے ہیں‘ ہماری پوری
سفارتی پالیسی ’’لائل پور کے ماموں‘‘ پر بیس کرتی ہے تاہم کالو اور ہماری سفارتی پالیسی میں ایک فرق ضرور ہے‘ کالو کا ایک ماموں تھا جب کہ ہماری وزارت خارجہ درجنوں ماموئوں پر مبنی ہے‘ دنیا کے کسی بھی اسلامی ملک میں تیل‘ گیس یا سونا نکل آتا ہے تو ہم خوشی کے شادیانے بجانا شروع کر دیتے ہیں اور اپنی ساری توقعات کا ٹوکرا اس کے سر پر رکھ دیتے ہیں‘ عرب ملکوں میں تیل نکلا تو یہ
ہمارے ماموں ہو گئے‘ ایران میں انقلاب آیا تو ہمیں پاکستان کے ہر شہر میں امام خمینی دکھائی دینے لگے‘ مہاتیر محمد نے ملائیشیا کو ایشین ٹائیگر بنا دیا تو یہ ہمارے ماموں بن گئے‘ طیب اردگان ترکی میں کام یاب ہو گئے تو ہمیں ان میں ماموں ارطغرل نظر آنے لگا‘ امریکا سترل سال سے ہمارا ماموں ہے‘ ہم نے ڈیم بنانا ہو‘ سڑکیں بنانی ہوں‘ بجلی پوری کرنی ہو یا بچوں کو پولیو کی ویکسین پلانی ہو
ہم امریکا ماموں کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں‘چین بھی ہمارا ماموں ہے اور ہم اب روس کو بھی ماموں بنا رہے ہیں لیکن ہم جواب میں کسی بھی ماموں کو گالی کے سوا کچھ دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے چناں چہ ہم آہستہ آہستہ بدتمیز بھانجے مشہور ہو گئے ہیں‘ ہم ’’تھینک لیس‘‘ اسٹیبلش ہو گئے ہیں اور آج وہ وقت آ گیا ہے جب کشمیر کے ایشو پر بھی ہماراکوئی ماموں ہمارا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں‘
ہمیں ہر طرف سے انکار اورحقارت کے سوا کچھ نہیںمل رہا ‘ ہم اگر آج بھی سمجھ دار ہو جائیں تو بھی ہم چیزوں کو ’’ری ورس‘‘کر سکتے ہیں لیکن ہمیں اس کے لیے چند چیزیں طے کرنا ہوں گی‘ مثلاً ہم اگر واقعی یہ سمجھتے ہیں ہم عربوں کے بغیر سروائیو نہیں کرسکتے تو پھر ہمیںکھل کر ان کا ملازم ہوجانا چاہیے‘ عرب پھر ہم سے جو کچھ مانگیں ‘ ہمیں انہیں دے دیں‘ یہ اگر ایران‘ ترکی اور ملائیشیا یا قطر کے
ساتھ لڑیں تو ہم ان کے لیے گولی بھی کھائیں اور لاشیں بھی اٹھائیںاور یہ اگر ہمیں انڈیا کے سامنے جھکنے کا کہہ دیں تو ہم ایک لمحہ نہ سوچیں‘ ہم جھک جائیں اور ہم اگر نیوٹرل رہنا چاہتے ہیں تو پھر ہم کسی کی ’’پراکسی وار‘‘کا حصہ نہ بنیں‘ ہم امریکا ‘یو اے ای‘ سعودی عرب‘ ایران‘ ترکی‘ افغانستان اور چین کو صاف بتا دیں ہم صرف اور صرف اپنا قومی مفاد دیکھیں گے‘ ہم آج سے کسی کے
دوست‘ کسی کے دشمن نہیں ہیں اور پھر ہم ہر قسم کی سزا کے لیے تیار ہو جائیں‘ سعودی عرب ہم سے اپنے ساڑھے تین ارب ڈالر واپس مانگ لے یا یو اے ای اپنی رقم واپس لے لے یا خلیج کے سارے ملک پاکستانیوں کو نکال دیںیا ایف اے ٹی ایف ہم پر پابندیاں لگا دے یا پھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہمیں امداد دینے سے انکار کر دے یا پھر ہمیں اسرائیل کو تسلیم کرنا پڑے تو پھر ہم کریں‘ ہمیں لڑنا پڑے تو ہم لڑیں‘
مرنا پڑے تو مریں‘آپ یقین کریں ہم دس پندرہ بیس پچاس سال میں گر پڑ کر ٹھیک ہو جائیں گے یا پھر ختم ہو جائیں گے۔ہم اِدھر یا اُدھر کم از کم عزت کے ساتھ زندگی تو گزاریں گے‘ یہ جو ہم روز ماموں کے انتظار میں دروازے کی طرف دیکھتے رہتے ہیںیا دنیا ہمیں بدتمیز بھکاری کہتی رہتی ہے کم از کم ہم اس ذلت سے تو نکل آئیں گے‘ یہ کیا بات ہوئی ہم جوتے بھی پالش کر رہے ہیں اور جوتے کھا بھی رہے ہیں‘
ہم دوسروں کے لیے جان بھی دے رہے ہیں اور دوسرے ہمیں برا بھی کہہ رہے ہیں‘ یہ کیا ذلت ہے؟ہمیں یہ بھی کلیئر کرنا ہو گا‘ ہمیں اگر کشمیر نہیں چاہیے تو پھر ہم کھلے دل کے ساتھ اپنی شکست تسلیم کریں‘ اپنی کم زوری کا اعتراف کریں اور جو ملک بچ گیا ہے ہم چپ چاپ اس کے لیے کام کریں‘ اس سے قوم کم از کم یوم استحصال اور یوم خاموشی جیسے دھوکوں سے تو نکل آئے گی اور اگر یہ ہمیں چاہیے
تو پھر ہم لڑیں‘ کشمیر مل جائے تو شکر نہ ملے تو کم از کم عزت کی موت تو نصیب ہو جائے ‘ یہ روز کا مرنا جیناتو کم از کم بند ہو اور آخری بات ہم اگر جمہوریت پر واقعی یقین رکھتے ہیںتو پھر ہمیں کھلے دل سے عوام کو ووٹ کا حق دے دینا چاہیے‘ یہ جسے چاہیں چن لیں اور وہ عوام کے لیے جو کرنا چاہے وہ کر لے اور ہم اگر جمہوریت کو اس ملک کے لیے سوٹ ایبل نہیں سمجھتے تو پھر ایک ہی
بار کھل کر اس ملک میں تیس سال کے لیے مارشل لاء لگا دیں‘ہم ملک میں ایک ہی بار چینی‘ سعودی یا مصری نظام لے لیں تاکہ ہم کم ازکم کسی ایک کنارے پر تو لگیں‘ ہم کم از کم کالو کی طرح لائل پور کے ماموں کا راستہ دیکھنا تو بند کریں‘ ملک میںبرا ہی سہی لیکن استحکام تو آئے‘ ہم آخر کب تک کاغذ کی کشتیوں میں طوفانوں کا مقابلہ کرتے رہیں گے‘ ہم کب تک خود کو دھوکہ دیتے رہیں گے اور ہم آخر کب تک چہرے کی کالک مٹانے کے لیے آئینے رگڑتے رہیںگے‘ یہ اب بند ہو جانا چاہیے‘ ہم آخر مزید کتنی نسلیں برباد کریں گے!۔