چھوٹی بیٹی بشریٰ تیسری جماعت میں پڑھتی تھی‘ والد ویٹر تھا اور ویٹر کے لیے گھر کے اخراجات چلانا مشکل تھا‘ وہ کسی ایک بچے کی ضرورت پوری کرتے کرتے دوسرے بچوں کی ضروریات طاق میں رکھ دیتا تھا‘ بشریٰ کو کتابیں چاہیے تھیں‘ ٹیچر روز اس سے کتابوں کے بارے میں پوچھتی تھی اور وہ روز اپنے ننھے ہاتھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے والد سے کتابوں کا مطالبہ کرتی تھی‘ والد اس صبح ڈیوٹی پر جانے لگا تو وہ دوڑ کر والد کے پاس گئی‘ اس کا ہاتھ پکڑا اور روتے ہوئے بولی‘ مجھے کل بھی ٹیچر نے ڈانٹا تھا‘ یہ آج بھی ڈانٹے گی‘ مجھے پلیز اب تو کتابیں لے دیں۔
والد نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور وعدہ کیا وہ آج اس کی کتابیں ضرور لے کر آئے گا‘ وہ شام کو اپنے بھائی سے ملنے کے لیے سوہاوہ چلا گیا‘ وہ اگلے دن واپس آیا لیکن اس وقت تک انتظار کرنے والی بچی دنیا میں موجود نہیں تھی‘ بشریٰ رات کو نیند ہی میں دنیا سے چلی گئی‘ وہ صرف چلی جاتی تو شاید دیکھنے سننے والوں کے دل نہ روتے لیکن وہ بچی صرف گئی نہیں وہ جاتے جاتے جل کر کوئلہ بھی بن گئی‘ ایسا کوئلہ جس میں سے ڈی این اے کے بغیر بشریٰ کی شناخت ممکن نہیں رہی تھی‘ وہ کوئلے کا کالا سیاہ بت بن کر زمین پر پڑی تھی اور اس بت کی چربی فرش پر نقش ہو چکی تھی‘ بشریٰ بت تھی یا نقش یہ فیصلہ ناممکن تھا‘ بشریٰ کے ساتھ کیا ہوا؟ ہمیں اس کے لیے 29 اور 30 جولائی کی درمیانی شب کی طرف واپس جانا ہوگا۔29 اور 30جولائی کی درمیانی رات دو بجے آرمی ایوی ایشن کا کنگ ائیر 350 طیارہ راولپنڈی پر پرواز کر رہا تھا‘ طیارے میں آگ لگی‘ طیارے کا توازن بگڑا اور یہ شہر کے مضافات میں موہڑہ کالو کی سول آبادی پر جا گرا‘ دھماکا ہوا اورپٹرول کی وجہ سے پانچ مکانوں میں آگ لگ گئی‘ طیارے میں دو افسر اور تین جوان سوار تھے‘ یہ پانچوں شہید ہو گئے جبکہ طیارے کا نشانہ بننے والے پانچ مکانوں میں سے تین مکانوں کے 13 لوگ بھی دنیا سے رخصت ہو گئے‘ ان 13 لوگوں میں ایک ہی خاندان کے 8 افراد شامل تھے‘ بشریٰ کا تعلق 8 افراد کے اس خاندان کے ساتھ تھا۔
خاندان کا سربراہ عبدالحمید گوجر خان کے ایک ہوٹل میں ویٹر تھا‘ اس کے پانچ بچے تھے‘ یہ لوگ موہڑہ کالو میں رہتے تھے‘ عبدالحمید29 اور 30 جولائی کی درمیانی رات اپنے بھائی محمد خان سے ملنے سوہاوہ آ گیا‘ وہ اگلے دن واپس جا کر بشریٰ کو کتابیں خرید کر دینا چاہتا تھا‘ خاندان گہری نیند سو رہا تھا‘ اچانک چھت پر جہاز گرا اور پورا خاندان مکان اور جہاز کے ملبے تلے دفن ہو گیا‘ جہاز کا فیول ٹینک بھرا ہوا تھا‘ پٹرول کو آگ لگی اور خاندان کے آٹھ افراد کی نعشیں ملبے سمیت جل کر کوئلہ بن گئیں۔
لاشوں میں بشریٰ کون ہے‘زوہیب کون‘روبینہ کون‘ عظمیٰ کون اور عبدالحفیظ کون یہ شناخت تک ممکن نہیں تھی‘ عبدالحمید کی صرف ایک کم سن بیٹی زندہ بچی لیکن یہ بھی شدید زخمی ہے‘ عبدالحمید کا برادر نسبتی بشیر‘ اس کی بیوی اور بیٹی بھی اس بدقسمت گھر میں تھے‘ یہ بھی ملبے اور آگ کا شکار ہو گئے‘ پورا خاندان چند لمحوں میں صفحہ ہستی سے مٹ گیا‘ صرف یادیں اور زخم رہ گئے‘ میں نے عبدالحمید کے منہ سے سنا ”مجھے سمجھ نہیں آرہی میں کس کس کو روؤں‘ میں کس کس کو یاد کروں“۔
میں نے سنا اور میرا کلیجہ میرے منہ میں آ گیا‘ واقعی انسان کا اگر ایک آدھ پیارا نہ رہے تو یہ اسے رو دھو کر صبر کر لیتا ہے لیکن اگر پورا خاندان چلا جائے توانسان کے لیے بے بسی میں یہ فیصلہ مشکل ہو جاتا ہے وہ کس کو یاد کرے اور کس کو بھول جائے‘ وہ بشریٰ کو روئے یا پھر عظمیٰ‘ فیضان اورعبدالحفیظ کو یاد کر کے آنسو بہائے اور عبدالحمید اس وقت اسی عمل سے گزر رہا ہے۔دنیا میں موت کے ہزار بہانے ہیں‘ہم کس وقت کس بہانے کی زد میں آ جائیں ہم نہیں جانتے۔
ہم لوگ ساڑھے چار ہزار بیماریاں لے کر پیدا ہوتے ہیں‘ یہ بیماریاں چوبیس گھنٹے ہمارے خون میں تیرتی رہتی ہیں‘ ان میں سے کون سی بیماری کس وقت ایکٹو ہو جائے ہم نہیں جانتے‘ موت روز 65 مرتبہ ہمیں چھو کر گزرتی ہے‘ ہم 65 مرتبہ موت سے ایک سیکنڈ کے فاصلے پرہوتے ہیں‘ دنیا میں روز چھت کا پنکھا گرنے سے ساڑھے پانچ سو لوگ مرتے ہیں‘ دنیا میں روز ساٹھ ستر ہزار لوگ ٹریفک حادثوں کا رزق بن جاتے ہیں‘ سائن بورڈز ہر روز سات آٹھ ہزار لوگوں کو نگل جاتے ہیں۔
ہم میں سے سینکڑوں لوگ روز گٹڑز‘ دیواروں‘ چھتوں اور بلندی سے گری اینٹوں اور پتھروں کا نشانہ بن جاتے ہیں‘ دنیا میں روز سانپ کاٹنے کے ساڑھے چار ہزار واقعات پیش آتے ہیں‘ لوگ روز سمندروں‘ دریاؤں‘ جھیلوں اور تالابوں میں بھی ڈوب کر مرتے ہیں‘ بجلی کے جھٹکے‘ گیس کی لیکج اور پٹرول روز کتنے لوگوں کی جان لے جاتا ہے ہم نہیں جانتے‘ کتنے لوگ روزانہ طیاروں اور بحری جہازوں میں مر جاتے ہیں ہم یہ بھی نہیں جانتے اور ہم میں سے کون سا شخص کس وقت پانی پیتے‘ بسکٹ کھاتے یا کافی پیتے ہوئے مر جائے ہم نہیں جانتے۔
ہم دودھ کا جو گلاس پی رہے ہیں‘ جس چائے کو چمچ ہلا ہلا کر پینے کے قابل بنا رہے ہیں یا پھر ہم جو خوراک مزے لے لے کر کھا رہے ہیں‘ یہ ہمارے اندر پہنچ کر کیا گل کھلائے گی ہم نہیں جانتے‘ ہم روز رات کو سوتے ہوئے موت کی سرحد کے قریب پہنچتے ہیں‘ موت کے چھ قدم ہوتے ہیں‘ غنودگی‘ نیند‘ گہری نیند‘ بے ہوشی‘ کومااور موت‘ ہم گہری نیند میں موت سے صرف تین قدم دور ہوتے ہیں‘ ہم زندگی میں بیسیوں مرتبہ گہری نیند میں کوما تک پہنچ جاتے ہیں لیکن پھر اللہ کے خصوصی کرم کی وجہ سے واپس زندگی میں آ جاتے ہیں۔
آپ نے کبھی نوٹ کیا زیادہ تر انسانوں کا انتقال رات کے وقت کیوں ہوتا ہے؟ یہ وہ بدقسمت لوگ ہوتے ہیں جو گہری نیند سے واپس نہیں آ پاتے‘ قدرت انہیں صبح اٹھنے اور سلیپر پہن کر باتھ روم میں جانے کی اجازت نہیں دیتی چناں چہ یہ بستر پر پڑے پڑے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں‘ میں اکثر اپنے دوستوں سے کہتا ہوں تم جو کھاتے ہو وہ ہضم ہو جاتا ہے‘ جو پیتے ہو وہ گردوں سے آسانی سے گزر جاتا ہے‘ تمہارا جگر روز خون بناتا ہے‘ تمہارا دل ایک منٹ میں 60 سے100 مرتبہ دھڑکتا ہے‘ تم سانس لیتے ہو اور وہ سانس پھیپھڑوں کی دیواروں سے ٹکرا کر واپس آ جاتی ہے۔
تمہارا خون تمہاری تمام رگوں میں دوڑ بھاگ کر واپس دل میں آ جاتا ہے‘ تم سننا چاہتے ہو تو تم ساڑھے تین ہزار آوازیں سن لیتے ہو‘ تم دیکھنا چاہتے ہو تو تم ہزاروں رنگ دیکھ لیتے ہو‘ تم چھو کر گرم کو گرم اور ٹھنڈے کو ٹھنڈا محسوس کر لیتے ہو‘ تم روز درجنوں ذائقے اور سینکڑوں قسم کی خوشبوئیں بھی سونگھ لیتے ہو‘ تم گلاب کی خوشبو اور بھیڑ کی کھال کی بدبو میں بھی تمیز کر لیتے ہو‘ تم چلتے ہو تو تمہارے قدم نہیں رپٹتے‘ تم پکڑنا چاہتے ہو تو تمہاری انگلیاں نہیں لرزتیں‘ تم کھاتے ہو تو کھانا تمہاری بانچھوں سے باہر نہیں ٹپکتا۔
تم پلکیں جھپکانا چاہتے ہو تو یہ جھپکتی ہیں‘ تم ناک سے مکھی اڑانا چاہتے ہو تو یہ اڑتی ہے‘ تم جھک کر کوئی چیز اٹھانا چاہتے ہو تو تم اٹھا لیتے ہو‘ تم چلتے چلتے مڑنا چاہتے ہو تو تم مڑ جاتے ہو‘ تم دائیں بائیں گردن گھما کر دیکھنا چاہتے ہو تو یہ گھومتی ہے‘ تم اپنے رب کو سجدہ کرنا چاہتے ہو تو تم جھک سکتے ہو‘ تم اپنے پاؤں کو ٹچ کرنا چاہتے ہو تو تم ٹچ کر لیتے ہو‘ تم ہاتھ سے اپنے کندھوں‘ اپنی کمر میں خارش کرنا چاہتے ہو تو تم کر لیتے ہو‘ تم اپنا منہ دھونا چاہتے ہو‘ اپنی ناک صاف کرنا چاہتے ہو‘ اپنے بال سنوارنا چاہتے ہو توتم کر لیتے ہو۔
دنیا میں اس وقت لاکھوں لوگ اس لذت سے محروم ہیں اور تم انگلیوں میں قلم پکڑنا چاہتے ہو‘ تم گانا گانا چاہتے ہو‘ تم سوچنا‘ بولنا‘ بتانا چاہتے ہو‘ تم اپنے خیالات کی وضاحت کرنا چاہتے ہو‘ تم زبانیں سیکھنا چاہتے ہو‘ تم پہاڑ سر کرنا چاہتے ہو‘ تم کھیلنا کودنا چاہتے ہو‘ تم تیر کر دریا‘ ندیاں اور سمندر پار کرنا چاہتے ہو‘ تم ہواؤں میں تیرنا چاہتے ہو‘ تم پہاڑوں سے چھلانگ لگانا چاہتے ہو اور تم اونچے نیچے پتھریلے راستوں پر سائیکل چلانا چاہتے ہو تو تم یہ کر لیتے ہو۔
تم سے یہ ہو جاتا ہے تو پھر تمہیں اس کے بعد اپنے رب‘ اپنے اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے مزید کیا چاہیے؟ تمہارا اللہ تمہارے لیے مزید کیا کرے کہ تم اس کی بارگاہ میں جھک سکو‘ تم اس کا شکر ادا کر سکو‘ تم سے بڑا نافرمان‘ تم سے بڑا ناشکرا کون ہے؟ تم اس کے بعد بھی کہتے ہو میں اللہ کو ماننے کے لیے اللہ کو دیکھنا چاہتا ہوں‘ وہ اگر ہے تو وہ سامنے آ کر مجھ سے مخاطب ہو‘ میں پھر اسے مانوں گا‘ اے بے وقوف‘ اے نادان انسان! اللہ سامنے نہیں آیا کرتا اس کی نشانیاں‘ اس کے معجزے سامنے آتے ہیں۔
ہم اگر پانی کا ایک گھونٹ بھر کر اسے مثانے کے ذریعے خارج کر لیتے ہیں تو اس سے بڑا معجزہ کیا ہو سکتا ہے؟ ہمیں پھر اللہ کی مزید کون سی نشانی چاہیے! عبدالحمید کا خاندان سارے دروازوں کو کنڈیاں لگا کر سو رہا تھا لیکن پھر آسمان سے موت اتری اور آٹھ لوگوں کو ساتھ لے کر چلی گئی‘ ہم روز سوتے ہیں‘ ہمارے اوپر سے روز جہاز گزرتے ہیں‘ ہمارے پنکھے‘ ہمارے ہیٹر بھی چلتے رہتے ہیں اور ہم اللہ کی امان سے زندہ رہتے ہیں تو پھر ہمیں اللہ کے شکر کے لیے اور کیا چاہیے؟۔
ہم اگر اپنے ہر قدم‘ ہر سانس‘ خوشبو کے ہر جھونکے اور ہر تیکھے میٹھے ذائقے پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کریں تو بھی ہمارا حق بندگی پورا نہیں ہو سکے گا۔اللہ کی محبت ستر ماؤں سے زیادہ ہے‘ کاش! ہم ستر بندوں جتنا شکر ہی ادا کر لیں‘ کاش! ہم اسے ایک بار دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ”یا پروردگار‘ تیرا کرم ہے‘ تیرا شکر ہے“ ہی کہہ دیں‘ ہمارا اللہ حشر تک ہم سے راضی ہو جائے گا‘ آپ ایک بار کر کے دیکھیں‘ کیا آپ بھی اللہ پر یقین کے لیے کسی حادثے کا انتظار کر رہے ہیں؟۔