قائداعظم محمد علی جناح سگریٹ پی رہے تھے‘ سیکرٹری نے عرض کیا ”سر کیا ہم رسک نہیں لے رہے“ قائداعظم نے پورے یقین سے فرمایا ”ہرگز نہیں‘ ہماری حلف برداری کی تقریب کے پہلے کارڈز کراچی کے ہندوﺅں کو ہی جاری ہوں گے“ سیکرٹری نے گھبراکر عرض کیا ”سرپنجاب کے اندر ہزاروں مسلمان خاندان کاٹ دیئے گئے ہیں‘ ہندو مسلمان اور مسلمان ہندوﺅں کو برداشت کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں‘ ہم اگر ان حالات میں حلف برداری کی تقریب میں ہندوﺅں کو دعوت دیں گے تو مسلمان مائینڈ کر جائیں گے“ قائداعظم نے سگریٹ کا کش لیا اور فرمایا ”ملک بن چکا ہے‘ اب پاکستان کا ہر شہری پاکستانی ہے‘ وہ خواہ ہندو ہو‘ سکھ ہو‘ پارسی ہو یا عیسائی ہو‘ آپ بس کارڈ جاری کر دو“ سیکرٹری چپ چاپ باہر نکل گیا۔
یہ قیام پاکستان کے وقت ملک کے پہلے گورنر جنرل کی حلف برداری کی تقریب کا واقعہ تھا‘ قائداعظم نے کراچی میں 15 اگست 1947ءکو حلف لینا تھا‘ جنرل گل حسن مہمانوں کی فہرست لے کر قائداعظم کے دفتر میں حاضر ہوئے‘ قائدنے فہرست دیکھی‘ کراچی کے کسی ہندو کا نام فہرست میں شامل نہیں تھا‘ قائداعظم نے کاغذ سائیڈ پررکھا اور فرمایا ”میری حلف برداری کی تقریب کے پہلے دعوتی کارڈز کراچی کے ہندوﺅں کو جاری ہوں گے“ یہ حکم اے ڈی سی کےلئے حیران کن تھا‘ وہ ڈرتے ڈرتے بولے ”سر یہ فیصلہ مجھے ٹھیک نہیں لگتا“ آپ دونوں کے درمیان باقی بحث پڑھ چکے ہیں بہرحال قصہ مختصر قائداعظم کے حکم پر ان کی حلف برداری کی تقریب کے پہلے کارڈز ہندوﺅں کو جاری ہوئے اور مسلمانوں کو اس کے بعد دعوت دی گئی‘ پہلی کابینہ بنی تو قائداعظم نے مسلمانوں کےلئے قانون بنانے کی ذمہ داری ہندو دانشور جوگندر ناتھ منڈل کو سونپی‘ منڈل پاکستان کے پہلے لیبر اینڈ لاءمنسٹر تھے‘ قائداعظم نے دسمبر میں سر ظفراللہ کو پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ بنا یا‘ یہ قادیانی تھے اور پورا ملک ان کے عقائد سے واقف تھا لیکن قائداعظم نے قادیانی ظفراللہ کو وزیر خارجہ اور ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو مسلمانوں کا وزیر قانون بناتے وقت ایک لمحے کےلئے تامل نہیں کیا ‘ یہ لوگ کابینہ میں شامل ہوئے اور پاکستانی ہونے کا حق ادا کر دیا‘ قائداعظم کی حیات میں ملک کے اعلیٰ عہدوں پر عیسائی بھی تھے‘ پارسی بھی‘ ہندو بھی اور سکھ بھی‘
کراچی کا زیادہ تر کاروبار یہودیوں‘ پارسیوں اور اینگلو انڈینز کے ہاتھ میں تھا ‘ قائداعظم اپنی ضروریات کی اکثر اشیاءان کے سٹورز سے منگواتے تھے‘ پاکستان کا آرمی چیف تک برطانوی عیسائی تھا اور وہ پاک فوج میں رہ کر اپنی مذہبی عبادات کرتا تھا اور ریاست کو اس کے عقائد پر کوئی اعتراض نہیں تھا‘ قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی لاءپریکٹس انگریزو کیل سر جان مولز ورتھ کے چیمبر میں شروع کی اور سیاسی تربیت پارسی دانشور دادابھائی نوروجی سے حاصل کی‘قائد گورنر جنرل تھے تو ان کی سیکورٹی کی ذمہ داری پارسی پولیس افسر کے پاس تھی‘
آپ اس کی نگرانی میں سفر کرتے تھے اور آپ نے کبھی خود کو اس کی نگرانی میں غیرمحفوظ محسوس نہیں کیا تھا‘ قائداعظم زیارت میں بیمار ہوئے تو آپ کی نرس فلس ڈنہم عیسائی تھی اور آپ اس کی اصول پسندی اور پروفیشنل ازم کی ہمیشہ تعریف کرتے تھے لیکن آج قائداعظم کے اس ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ آج ہم نے اس ملک کو ملک نہیں رہنے دیا‘ ہم نے اسے مذہبی تعصب کا میدان جنگ بنا دیا ہے‘ ہم اس ملک میں عیسائیوں‘ ہندوﺅں‘ پارسیوں‘ سکھوں اور کیلاشی اقلیتوں کو برداشت کرنے کےلئے بھی تیار نہیں ہیں‘یہ قائداعظم کے اس ملک کے ساتھ ظلم ہے‘ ظلم عظیم!
ہم پاکستانی مذہبی منافرت میں ڈوبتے چلے جا رہے ہیں لیکن پنجاب کے سابق وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے اعتدال کی ساری حدیں پھلانگ دیں‘ یہ چار مارچ کولاہور میں ہندوﺅں کے عقائد کا مذاق اڑاتے رہے اور یہ زبان درازی کے جوہڑ میں چھلانگ لگاتے وقت یہ تک بھول گئے قائداعظم کے پاکستان میں اس وقت بھی چالیس لاکھ ہندو رہتے ہیں اور یہ فیاض الحسن چوہان سے زیادہ پاکستانی ہیں‘ چوہان صاحب حکومت کے ان وزراءاور ارکان اسمبلی میں شامل ہیں جو جب بھی بولتے ہیں اپنی زبان سے پوری دنیا کو بتا دیتے ہم اس رتبے‘ اس اعزاز اور اس عزت کے قابل نہیں ہیں‘
یہ لوگ اپنے منہ سے ثابت کرتے ہیں زبان اگر کنٹرول میں نہ ہو تو انسان کو تخت سے روڑی پر آتے دیر نہیں لگتی اور چوہان صاحب آٹھ ماہ کے اقتدار میں روز تخت سے نالی میں چھلانگ لگاتے رہے یہاں تک کہ عمران خان اپنے غلط فیصلے کو ٹھیک کرنے پر مجبور ہو گئے‘یہ بھی مان گئے اگر انسان کی اوقات نہ ہوتو اسے عزت نہیں ملنی چاہیے‘ عمران خان نے فیاض الحسن چوہان سے استعفیٰ لے کر بہت اچھا فیصلہ کیا‘ یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے عمران خان نے اپنی فلاسفی تبدیل کر لی ہے‘
یہ اب میرٹ پر جا رہے ہیں اور یہ بہت خوش آئند بات ہے‘ پاکستان میں کسی شخص کو مذہبی منافرت کی اجازت نہیں ہونی چاہیے‘ یہ قائداعظم کا ملک ہے اور قائداعظم نماز کے دوران بھی فرقے کی نمائش کے خلاف تھے‘ قائد کا خاندان شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا تھا لیکن قائداعظم نے پوری زندگی خود کو صرف مسلمان کہا اور یہ صرف مسلمان رہے ‘دنیا کا کوئی مسلمان کسی دوسرے کے مذہب اور عقائد کا مذاق نہیں اڑاتا‘ ہمیں یہ بات پلے باندھ لینی چاہیے‘ ہمارے جھنڈے کا ایک تہائی حصہ سفید رنگ پر مشتمل ہے‘
یہ سفید حصہ اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے‘ ہمارے ملک میں اگر اقلیتوں کے حقوق محفوظ نہیں ہیں تو پھر ہمیں اس سفید کو بھی سبز کر لینا چاہیے اور فیاض الحسن چوہان جیسے لوگوں کو کھل کھیلنے کا موقع دے دینا چاہیے‘ یہ اٹھیں اور پاکستان کے بال ٹھاکرے اور نریندر مودی بن جائیں‘ یہ پہلے اقلیتوں کو ماریں اور اس کے بعد مخالف فرقوں کو اڑا دیں تاکہ یہ ملک جہنم بن جائے‘ عمران خان نے بروقت اور قطعی فیصلہ کر کے ہم جیسے معتدل پاکستانیوں کا دل موہ لیا چنانچہ میں اپنے دونوں ہاتھوں کے دونوں انگوٹھے اٹھا کر انہیں ویل ڈن کہتا ہوں۔
عمران خان کا دوسرا بڑا فیصلہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاﺅن ہے‘ حکومت نے جیش محمداور جماعت الدعوة کے خلاف کریک ڈاﺅن شروع کر دیا ہے‘ مولانا مسعود اظہر کے صاحبزادے حماد اظہر اور بھائی مفتی عبدالرﺅف بھی گرفتار کر لئے گئے ہیں‘ حکومت نے کالعدم تنظیموں کے دفاتر‘ مدارس اور پراپرٹی بھی ضبط کرلی ہے‘ یہ اقدامات بھارت کی طرف سے پلوامہ حملے کے ڈوزیئر کے بعد اٹھائے گئے‘ حکومت کے اپنے لوگوں کا کہنا ہے بھارت اور پاکستان کے درمیان صلح کی کوشش کرنے والے ملکوں نے بھی یہ مطالبہ کیا تھا‘
حکومت اگر یہ مطالبہ نہیں مانتی تو ملک ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں چلا جائے گا اور یوں ہم دیوالیہ ہو جائیں گے‘ہمارے پاس اب اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا‘حکومت کا جواز درست ہو سکتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں عمران خان نے کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاﺅن کر کے اپنی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا رسک لیا‘ کیوں؟ کیونکہ یہ وہ کام ہے جو جنرل پرویز مشرف کر سکے‘ آصف علی زرداری اور نہ میاں نواز شریف‘ بھارت مولانا مسعود اظہر کے بھائی مفتی عبدالرﺅف کو ائیر انڈیا کے طیارے کے اغواءکا مرکزی ملزم سمجھتا ہے‘
یہ طیارہ 24 دسمبر 1999ءکو کھٹمنڈو سے اغواءہوا تھا‘ اس میں 176مسافر سوار تھے اور یہ افغانستان کے شہر قندہار میں اتارا گیا تھا‘ ہائی جیکرز نے طیارے کے مسافروں کے بدلے بھارت سے مولانا مسعود اظہر ‘ عمرسعید شیخ اور مشتاق احمد زرگر رہا کرائے تھے‘ یہ لوگ کوٹ بھلوال جموں اور دہلی کی تہاڑ جیل میں قید تھے‘ بھارت نے اپنے اتحادیوں کے ذریعے جنرل پرویز مشرف پر بھرپور دباﺅ ڈالا تھا لیکن جنرل مشرف نے جیش محمد پر کریک ڈاﺅن کیا اور نہ مفتی عبدالرﺅف کو گرفتار کیا‘
بھارت نے 13 دسمبر 2001ءکو پارلیمنٹ پر حملے کے بعد بھی مفتی عبدالرﺅف کی گرفتاری کا مطالبہ کیا تھا لیکن جنرل مشرف خواہش کے باوجود یہ کام نہ کر سکے‘ 2008ءمیں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی‘ شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ تھے‘ ممبئی اٹیکس ہوئے اور اجمل قصاب اور اس کے 9ساتھیوں نے بھارت کی سماجی‘ معاشی اور سفارتی ہڈیاں توڑ دیں‘ بھارت نے اس وقت بھی حافظ سعید کے ساتھ ساتھ مولانا مسعود اظہر اور مفتی عبدالرﺅف کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا لیکن آصف علی زرداری بھی خواہش کے باوجود یہ مطالبہ پورا نہ کر سکے‘ میاں نواز شریف کے دور میں یہ مطالبہ بار بار دہرایا گیا‘
دو جنوری 2016ءکو پٹھان کوٹ کا واقعہ پیش آیا‘ نواز شریف4 جنوری کو سری لنکا کے دورے پرتھے‘ نواز شریف نے سری لنکا سے نریندر مودی کو فون کیا اور پٹھان کوٹ واقعے پر تحقیقات کی یقین دہانی کرائی‘نریندر مودی نے مولانا مسعود اظہر اور مفتی عبدالرﺅف کی گرفتاری اور کھلا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا‘ میاں نواز شریف نے وعدہ کر لیا لیکن یہ بھی یہ کام نہ کر سکے‘ عمران خان 20 برسوں میں کالعدم تنظیموں کے خلاف میدان میں اترنے والے پہلے وزیراعظم ہیں‘
یہ فیصلہ اچھا ہے یا برا یہ وقت ثابت کرے گا تاہم وزیراعظم کو مستقبل میں دو دریاﺅں کا سامنا کرنا پڑے گا‘ بھارت حافظ سعید‘ مولانا مسعود اظہر اور مفتی عبدالرﺅف کا نام بار بار لیتا ہے لیکن یہ ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کرتا‘ حکومت ثبوتوں کے بغیر ان لوگوں کو زیادہ دیر تک حراست میں نہیں رکھ سکے گی اور دوسرا یہ تمام لوگ ریاست کے پچاس سال پرانے بیانیے اور ستر سال پرانے مسئلہ کشمیر کی پیداوار ہیں‘ آپ کچھ بھی کر لیں آپ مسئلہ کشمیر کے حل اور ریاستی بیانیہ تبدیل کئے بغیر ان لوگوں کو معاشرے میں تحلیل نہیں کر سکیں گے‘
یہ لوگ ہمیشہ معاشرے میں موجود رہیں گے بس ان کے نام‘ شکلیں اورپتے تبدیل ہو جائیں گے‘ بے نظیر بھٹو اس لڑائی میں شہید ہو چکی ہیں‘ میاں نواز شریف جیل میں ہیں اور عمران خان اپنے لئے خطرات پیدا کر لیں گے چنانچہ یہ اگر واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو یہ پھر ریاست کا بیانیہ تبدیل کریں اور کشمیر کے مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل تلاش کریں‘ حکومت کو کسی کریک ڈاﺅن کی ضرورت نہیں رہے گی ورنہ دوسری صورت میں بانس کے جنگل میں نئے بانس اگ آئیں گے اور آپ بانس کاٹتے کاٹتے دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔