جنرل گل حسن قیام پاکستان کے وقت قائداعظم محمد علی جناح کے اے ڈی سی تھے‘ یہ اس وقت فوج میں کیپٹن تھے اور یہ قائداعظم کے پاس آنے سے قبل فیلڈ مارشل ولیم سلِم کے اے ڈی سی رہے تھے‘ فیلڈ مارشل ولیم سلِم اتحادی فوجوں کی مشرقی کمانڈ کے چیف تھے‘ قائداعظم نے گل حسن کو تجربے کی بنیاد پر اپنے ساتھ وابستہ کر لیا‘ اگست 1947ء میں پاکستان کی پہلی سرکاری تقریب تھی‘ یہ تقریب گورنر جنرل ہاؤس کراچی میں منعقد
ہو رہی تھی‘ قائداعظم نے دعوتی کارڈز جاری کرنے کا حکم دے دیا‘ یہ حکم جاری ہوا تو قائداعظم نے کیپٹن گل حسن کو طلب کیا اور انہیں ہدایت کی گورنر جنرل ہاؤس سے سب سے پہلے کراچی کے ہندو تاجروں کو دعوت نامے جاری ہونے چاہئیں‘ کراچی کے حالات اس وقت بہت مخدوش تھے‘ ہندو تاجر بھارت جا رہے تھے‘ کراچی کے مسلمان ان کی جائیدادوں پر قبضے کر رہے تھے‘ ہندوستان سے فسادات اور مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں آ رہی تھیں‘ ان خبروں کی وجہ سے مسلمانوں میں شدید اضطراب پایا جاتا تھا‘قائداعظم کے عملے کو محسوس ہوا ان حالات میں ہندو تاجروں کو دعوتی کارڈ بھجوانا خطرناک ہو گا‘ کراچی کے مسلمان بالخصوص بھارت سے آنے والے مہاجرین ناراض ہو جائیں گے اور یوں قائداعظم کا امیج خراب ہو گا‘ عملے نے یہ تحفظات گل حسن کے ذریعے قائداعظم تک پہنچانے کا فیصلہ کیا‘ گل حسن قائداعظم کے پاس حاضر ہوئے اور ان سے عرض کیا ”سرہندو تاجروں کو سرکاری تقریب میں بلانے سے آپ کا امیج خراب ہو گا“ قائداعظم نے اس اعتراض کا کیا جواب دیا آپ یہ جاننے سے پہلے یہ ذہن میں رکھئے قائداعظم نے پاکستان دو قومی نظریئے کی بنیاد پر حاصل کیا تھا‘ قائداعظم نے ایک طویل سماجی مقدمے اور ان تھک نظریاتی جدوجہد کے بعد انگریزوں کو یقین دلایا تھا مسلمان اور ہندو دو مختلف قومیں ہیں اور یہ کبھی اکٹھی نہیں رہ سکتیں لیکن
وہی قائداعظم پاکستان بننے کے بعد ہندو تاجروں کو مسلمانوں سے پہلے دعوتی کارڈز جاری کرانا چاہتے تھے اور آپ کا عملہ آپ کو اس سے باز رکھنا چاہتا تھا‘ قائداعظم نے گل حسن کی بات غور سے سنی اور اس کے بعد فرمایا ”پاکستان کسی ایک قوم کا ملک نہیں‘ یہ ہر اس شخص کا ملک ہے جو اس ملک کی حدود کے اندر رہ رہا ہے‘ وہ خواہ مسلمان ہو یا ہندو یا پھر کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو‘ پاکستان کی حدود میں اقلیتوں کو اکثریت سے زیادہ حقوق حاصل ہیں‘ میں اس لئے ہندو تاجروں کو مسلمانوں سے پہلے دعوت دینا چاہتا ہوں“ قائداعظم کے اس فرمان کے بعد کراچی کے ہندو تاجروں کو مسلمان شہریوں سے پہلے دعوتی کارڈز جاری ہوئے اور ہندو تاجر یہ کارڈز وصول کر کے حیران رہ گئے۔
قائداعظم کی اقلیتوں کے بارے میں رائے کا ایک اور واقعہ بھی ملاحظہ کیجئے‘ قائداعظم کو سیکورٹی کیلئے پولیس کی طرف سے دو آفیسر ملے تھے‘ یہ آفیسر قائداعظم کی حفاظت کرتے تھے‘ ان میں سے ایک ڈی ایس پی تھا اور دوسرا اس کا اسسٹنٹ کم ڈرائیور۔ ڈی ایس پی پارسی تھا‘ بھارت کے ایک شدت پسند شخص نتھو رام گوڈسے نے 30 جنوری 1948ء کو مہاتما گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا‘ قائداعظم گاندھی کے بعد شدت پسندوں کا ہدف تھے‘ قائداعظم کے عملے نے محسوس کیا ان حالات میں پارسی آفیسر کو قائداعظم کے قریب نہیں رہنا چاہیے‘
یہ کسی بھی وقت قائداعظم کیلئے خطرہ بن سکتا ہے‘ گل حسن نے قائداعظم کے سامنے ایک دن اس خدشے کا اظہار کیا‘ قائداعظم برا مان گئے اور انہیں ڈانٹ کر کہا ”اس ملک کا ہر شہری پاکستانی ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو اور مجھے اگر اپنے پاکستانی بھائیوں پر اعتماد نہیں تو پھر مجھے ان کی رہنمائی کا کوئی حق نہیں“ قائداعظم کے اس فرمان کے بعد یہ ڈی ایس پی اس وقت تک قائداعظم کی حفاظت پر مامور رہا جب تک آپ علاج کیلئے زیارت شفٹ نہیں ہو گئے‘
یہ ڈی ایس پی اس وقت بھی قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ہوتا تھا جب دونوں واک کیلئے اکیلے ملیر جاتے تھے اور اس وقت اے ڈی سی اور اس پارسی ڈی ایس پی کے سوا آپ کے قریب کوئی نہیں ہوتا تھا۔ آپ اقلیتوں کے بارے میں قائداعظم کے خیالات کی ایک مثال اور بھی ملاحظہ کیجئے‘ آپ زیارت میں علیل تھے تو آپ کوڈنہم نام کی ایک عیسائی نرس دی گئی تھی‘ یہ نرس کٹڑ عیسائی تھی‘ ہندوستان کے عیسائی قائداعظم کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ یہ ہندوستان کے واحد سیاستدان تھے جنہوں نے سیاست کے ساتھ ساتھ اپنی انا بھی برقرار رکھی تھی چنانچہ ہندوستان کے عیسائی قائداعظم کو دل سے پسند نہیں کرتے تھے اور قائد کے عملے کا خیال تھا یہ بھی قائداعظم کو نقصان پہنچا سکتے ہیں لیکن سسٹر ڈنہم آپ کی خدمت کیلئے زیارت آئی‘
نرس نے قائداعظم کا ٹمپریچر چیک کیا‘ قائداعظم نے اس سے اپنا ٹمپریچر پوچھا‘ نرس نے جواب دیا ”سر میں نرس ہوں اور طبی اخلاقیات کے مطابق میں مریض کی انفارمیشن مریض کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتی‘ میں اپنی رپورٹ ڈاکٹر کو دوں گی اور اگر ڈاکٹر نے مناسب سمجھا تو یہ آپ کے ساتھ شیئر کر لے گا“ قائداعظم کو عیسائی نرس کا یہ جواب بہت پسند آیا‘ آپ نے اس کا شکریہ بھی ادا کیا اور اس کی ایمانداری کی تعریف بھی کی‘ یہ نرس اس وقت تک آپ کے ساتھ رہی جب تک آپ کراچی روانہ نہیں ہو گئے۔ آپ اب آئیے قائداعظم محمد علی جناح کے مذہبی نظریات کی طرف‘
یہ حقیقت ہے قائداعظم محمد علی جناح نماز پڑھتے تھے‘ آپ نماز کے دوران گڑگڑا کر دعا بھی کرتے تھے لیکن آپ نے کبھی اپنی نمازوں‘ اپنی دعاؤں اور اپنی گڑگڑاہٹ کو نمائش کا ذریعہ نہیں بنایا‘ آپ صبح کے وقت گھر کے کسی الگ تھلگ کمرے میں چلے جاتے تھے‘ سجدے میں گر جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعا کرتے تھے‘ اس دوران کسی کو آپ کے کمرے میں آنے کی اجازت نہیں تھی‘ آپ مذہبی ریاکاری سے کس قدر دور تھے آپ اس کی دو مثالیں ملاحظہ کیجئے‘
قائداعظم کوئٹہ میں مقیم تھے‘ یحییٰ بختیار آپ کی تصویریں بنانے کیلئے کیمرا لے کر آپ کی رہائش گاہ پر چلے گئے‘ قائداعظم اس وقت احادیث کی کوئی کتاب پڑھ رہے تھے‘ یحییٰ بختیار نے کوشش کی وہ آپ کی کوئی ایسی تصویر بنا لے جس میں کتاب اور اس کتاب کا ٹائٹل فوکس ہو جائے‘ قائداعظم یحییٰ بختیار کی نیت بھانپ گئے چنانچہ آپ نے کتاب میز پر رکھ دی اور فرمایا ”میں اس مقدس کتاب کو پبلسٹی کا موضوع بنانا پسند نہیں کرتا“ قائداعظم 3 مارچ 1941ء کو عصر کی نماز کیلئے لاہور ریلوے سٹیشن کے سامنے کسی مسجد میں تشریف لے گئے‘
آپ داخل ہوئے تو مسجد کھچا کھچ بھری تھی‘ لوگوں نے قائداعظم کو دیکھ کر راستہ دینا شروع کر دیا مگر آپ پچھلی صف میں بیٹھ گئے‘ نماز کے بعد لوگ آپ کے جوتوں کی طرف لپکے مگر آپ نے فوراً جوتے اٹھا لئے‘ لوگ آپ کے ہاتھ سے جوتے چھیننے کی کوشش کرتے رہے لیکن آپ نے جوتا ہاتھ سے نہ جانے دیا اور مسجد سے باہر نکل کر اپنا جوتا خود پہنا۔یہ دونوں واقعات قائداعظم کے مذہبی جذبات اور نظریات کی عکاسی کرتے ہیں‘ قائداعظم مذہب کو نمائش اور اختلافات کا ذریعہ بنانے کے خلاف تھے‘
یہ پاکستان کی حدود میں رہنے والے ہر شخص کو مذہب اور نظریات سے بالاتر ہو کر پاکستانی سمجھتے تھے اور یہ کسی کو مذہب کی بنیاد پر برا نہیں سمجھتے تھے‘ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے جھنڈے تک میں اقلیت کی نمائندگی موجود ہے‘ ہمارے جھنڈے میں دو رنگ ہیں‘ سبز اور سفید‘ سبز رنگ مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ سفید اقلیتوں کی۔ سفید امن کا رنگ بھی ہے لہٰذا ہم اگر جھنڈے کو قائداعظم کی نظر سے دیکھیں تو اس کا مطلب ہو گا پاکستان میں مسلمان اکثریت اس وقت تک پرامن نہیں رہ سکتی جب تک ہم اس ملک میں اقلیتوں کو امن اور تحفظ فراہم نہیں کرتے‘
کل ہم نے 70 واں یوم آزادی منایالیکن ملک میں اقلیتوں کی کیا صورتحال ہے اس کیلئے یہ خبر کافی ہو گی کہ ہر سال پانچ ہزار ہندو بھارت ہجرت کر جاتے ہیں‘ یہ ہندو علاقے کے زور آور اور عاقبت نا اندیش لوگوں سے تنگ ہیں‘ یہ لوگ انہیں اغواء بھی کرتے ہیں‘ ان سے بھتہ بھی وصول کرتے ہیں اور انہیں زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش بھی کرتے ہیں‘ کیا یہ واقعہ افسوس ناک نہیں اور کیا یہ ملک کی 70 ویں سالگرہ پر قائداعظم کے فلسفے کی توہین نہیں؟
کیا ہم نے اعتدال کی چادر اتار کر شدت پسندی اور نفرت کی عبا نہیں اوڑھ لی اور کیا ہم ایک ایسے راستے پر نہیں چل نکلے جس کے آخر میں ہم سب کا اپنا اپنا اسلام ہو گا اور ہم دوسروں کو بندوق کی نوک پر اپنا اسلام قبول کرنے پر مجبور کریں گے اور جو شخص ہماری بات نہیں مانے گا ہم اسے گولی مار دیں گے اور گولی مارنے کے بعد خود کو مجاہد بھی قرار دیں گے‘کیاہمارے یہ رویئے ہمیں اس وحشت کی طرف نہیں لے جا رہے ہیں جس کے آخر میں آگ‘ خون اور نعشوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور انسانیت نے اس وحشت سے بڑی مشکل سے جان چھڑائی تھی‘
ہم نے اپنے قائد اور اپنے قائد کے ملک کا احترام نہیں کیا‘ قدرت احسان فراموشوں کو وحشی بنا دیتی ہے اور یہ قدرت کی طرف سے نافرمانی کی کم ترین سزا ہوتی ہے چنانچہ آج اس اسلامی ملک میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان محفوظ ہیں اور نہ ہی غیر مسلم۔ ہم اپنے علاوہ ہر شخص کو قابل گردن زنی سمجھ رہے ہیں‘ ہم سب اپنے تئیں مفتی ہیں اور ہمارے اندر کا مفتی ہمارے علاوہ تمام لوگوں کو کافر اور سزائے موت کا حق دار سمجھتا ہے چنانچہ ہم نعشوں پر اذان دینے اور نماز پڑھنے کی تیاری کر رہے ہیں اور یہ 70 سال بعد اس قائداعظم کے ملک کا نقشہ ہے جس نے پہلی سرکاری تقریب میں ہندوؤں کو مسلمانوں سے پہلے دعوت بھجوائی تھی اور جس نے مقدس کتابوں کو پبلسٹی کا ذریعہ بنانے سے انکار کر دیا تھا۔