”آپ لوگ کھانا بہت لیٹ کھاتے ہیں“ اس نے شرما کر جواب دیا‘ میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولا ”میں نے چین میں بھی کام کیا اور میں یورپ‘ لاطینی امریکا‘ سنٹرل ایشیا اور عرب ملکوں میں بھی سفارت کرتا رہا لیکن مجھے صرف پاکستانی لیٹ کھانا کھاتے نظر آئے‘ یہ گیارہ بجے تک ناشتہ کرتے ہیں‘ چار پانچ بجے لنچ کرتے ہیں اور ان کا ڈنر رات بارہ ایک بجے تک چلتا ہے‘ مجھے یہ عادت عجیب لگی“ میں نے قہقہہ لگایا۔
وہ برازیل سے تعلق رکھتا تھا‘ فارن سروس میں تھا‘ ریٹائر ہوا اور استنبول میں جاب کر لی‘ وہ لندن جا رہا تھا‘ میری اس سے دوبئی ائیر پورٹ پر ملاقات ہوئی‘ فلائیٹس میں ابھی وقت تھا‘ ہم لاﺅنج میں بیٹھے تھے‘ وہ میرے پاس آیا اور ٹوٹی پھوٹی اردو میں گفتگو شروع کر دی‘ وہ پڑھا لکھا‘ مہذب اور تجربہ کار بوڑھا تھا‘ وہ تین سال پاکستان میں رہا تھا‘ وہ مارگلہ کی پہاڑیوں‘ راول لیک اور ٹیکسلا کے سٹوپاز کو بار بار یاد کر تا تھا‘ میں نے اس سے پوچھا ”آپ کو پاکستانیوں کی کس عادت نے حیران کیا“ اس کا جواب تھا ”آپ لوگ کھانا بہت لیٹ کھاتے ہیں“ یہ انوکھی آبزرویشن تھی چنانچہ میری ہنسی نکل گئی اور وہ مجھے حیرت سے دیکھنے لگا‘ میں نے عرض کیا ”جناب لیٹ کھانا کھانا بھوکے لوگوں کی نشانی ہوتی ہے‘ بھوکے لوگ کھانے کو ٹالتے رہتے ہیں“ میں خاموش ہو گیا‘ وہ پہلو بدل کر بولا ”کیسے“ میں نے عرض کیا ” آپ فرض کریں آپ خوراک کی قلت کا شکار ہیں تو آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ بریک فاسٹ اور لنچ کو ملا کر برنچ نہیں بنا لیں گے‘ کیا آپ لنچ کو شام تک نہیں ٹالیں گے اور کیا آپ رات کے کھانے کو کھینچ کر بارہ بجے تک نہیں لے جائیں گے تاکہ کیلنڈر بدل جائے اور آپ نفسیاتی لحاظ سے اگلے دن میں شفٹ ہو جائیں“ وہ خاموش رہا‘ میں نے عرض کیا ”ہم لیٹ کھانا کھانے کے معاملے میں اکیلے نہیں ہیں‘ دنیا کا ہر وہ خطہ جو بارانی تھا اور جس میں خوراک کی قلت تھی وہاں کے لوگ لیٹ کھانا کھاتے ہیں‘
آپ کو آدھا افریقہ‘ آدھا مشرقی یورپ‘ ایک تہائی سینٹرل ایشیا اور برصغیر کے آدھے لوگ اس صورتحال کا شکار ملیں گے‘ یہ لوگ صدیوں تک خوراک کے بحران کا شکار رہے چنانچہ یہ بھوک کو ٹالنے کے ماہر ہیں“ وہ خاموش رہا‘ میں نے عرض کیا ”آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ برصغیر پاک وہند ‘ افریقہ اور عرب ملکوں کی شادی بیاہ کی تقریبات دیکھ لیں‘ آپ کو لوگ وہاں جنگی پیمانے پر کھانا کھاتے نظر آئیں گے‘ آپ ان کو پراتوں‘ دیگوں اور تندوروں پر حملہ آور بھی دیکھیں گے اور آپ کو ان خطوں میں لاکھوں ٹن خوراک ضائع ہوتی بھی نظر آئے گی‘ یہ کیا ہے؟ یہ صدیوں کی بھوک ہے اور جہاں صدیوں کی بھوک ہوتی ہے وہاں لوگ تین بری عادتوں کے شکار ہوتے ہیں‘ یہ لیٹ کھانا کھاتے ہیں‘ ان کا ناشتہ لنچ کے وقت ‘ لنچ شام کے وقت اور ڈنر آدھی رات کے وقت ہوتا ہے‘ دو‘ یہ تہواروں کے دوران بھوکوں کی طرح خوراک پر پل پڑتے ہیں اور تین یہ بے انتہا خوراک ضائع کرتے ہیں ‘ پاکستان کا زیادہ تر علاقہ بارانی تھا‘ ہم نے ہزاروں سال بھوک دیکھی چنانچہ ہم میں اب یہ تینوں خرابیاں موجود ہیں“ اس نے بھی قہقہہ لگایا اور ہم اپنی اپنی فلائیٹ کی طرف چل پڑے۔
وہ چلا گیا لیکن میں آج تک اپنے آپ سے یہ سوال پوچھ رہا ہوں‘ کیا ہماری ٹالنے کی عادت صرف بھوک تک محدود ہے یا پھر ہم زندگی کے ہر معاملے میں اس رویئے کا شکار ہیں‘ مجھے ہر بار یہ جواب ملتا ہے ہماری پوری زندگی ٹال مٹول کے گرد گھومتی ہے‘ ہم صرف وہ کام وقت پر کرتے ہیں جن میں ڈنڈا ہو یا پھر ہمارا ذاتی مفاد ہو‘ آپ کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے یا پھر آپ نے کندھوں پر نوٹوں کی بوری اٹھا رکھی ہے تو آپ کا کوئی کام نہیں رکے گا اور آپ کے پاس اگر یہ دونوں سہولتیں موجود نہیں ہیں تو پھر آپ اور آپ کی عزت گلیوں میں رل جائے گی اور یہ دنیا کے ہر اس خطے کا المیہ ہے جس میں بھوک تھی اور جو صدیوں تک غیر ملکی فاتحین کی شکار گاہ بنا رہا‘آپ پوری دنیا کا مطالعہ کر لیں آپ کو مفتوحہ بارانی علاقوں کے لوگوں کی نفسیات میں بھوک‘ خوف اور لالچ تینوں ایلیمنٹس ملیں گی‘ یہ لوگ صرف دو زبانیں سمجھتے ہیں ڈنڈے کی زبان اور لالچ کی زبان‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ پاکستان کے معروضی حالات دیکھ لیجئے یا آپ اپنی زندگی کا تجزیہ کر لیں آپ کوفوراً یقین آ جائے گا‘
ہم اس سلسلے میں مشاہد اللہ خان‘ پرویز رشید اور چودھری نثار علی خان کی مثال بھی دے سکتے ہیں‘ یہ تینوں شاندار‘ بہادر اور میاں نواز شریف کے مخلص ترین ساتھی ہیں‘ یہ لوگ ایماندار بھی ہیں‘ مشاہد اللہ اور پرویز رشید ان چند لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو 12 اکتوبر 1999ءکے بعد میاں نواز شریف کی حمایت میں باہر بھی نکلے اورجنہوں نے اس جرا¿ت کے خوفناک نتائج بھی بھگتے لیکن یہ آج کہاں ہیں؟ مشاہد اللہ خان ماحولیاتی تبدیلی کے وفاقی وزیر تھے‘ یہ 14 اگست 2015ءکو بی بی سی اردو کو انٹرویو دے بیٹھے‘ انٹرویو میں انہوں نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی کسی ٹیپ کا ذکر کر دیا‘ یہ انٹرویو شائع ہوا تو آئی ایس پی آر نے ٹیپ سے متعلق خبروں کو بے بنیاد اور حقیقت سے دور قرار دے دیا‘ مشاہد اللہ اس وقت مالدیپ میں تھے‘ حکومت نے ان کو واپسی کی مہلت بھی نہ دی اور انہیں مالدیپ ہی میں فارغ کر دیا
جبکہ پرویز رشید سرل المیڈا کی خبر کا شکار ہو گئے‘ آئی ایس پی آر نے 14 اکتوبر2016ءکو ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں سرل المیڈا کی خبر کوقومی سلامتی کے منافی قرار دیا گیا اور حکومت نے اس پریس ریلیز کے بعد پرویز رشید کا استعفیٰ لے لیا‘ یہ ایک رویہ تھا‘ آپ اب دوسرا رویہ ملاحظہ کیجئے‘ کوئٹہ میں 8 اگست 2016ءکو خودکش حملہ ہوا‘ حملے میں 76 لوگ شہید اور 140 شدید زخمی ہو گئے‘ یہ تاریخ کا خوفناک ترین حملہ تھا‘ دہشت گردوں نے بلوچستان کا پورا قانونی مورچہ اڑا دیا‘ سپریم کورٹ نے 6 اکتوبر2016ءکو تحقیقات کےلئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کمیشن بنا دیا‘ کمیشن نے 56 دن تحقیقات کی‘ 45شہادتیں ریکارڈ کیں اور 15 دسمبر کو 110 صفحات کی رپورٹ جاری کر دی‘ رپورٹ میں صوبائی حکومت اور وفاقی وزارت داخلہ کی خامیوں کی نشاندہی کی گئی‘
وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان کوجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی یہ جسارت پسند نہ آئی چنانچہ انہوں نے 17 دسمبر کو ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ اور معزز جج کے خلاف پریس کانفرنس کھڑکا دی‘ یہ سیدھی سادھی توہین عدالت تھی لیکن وہ وزیراعظم جس نے معمولی غلطی پر مشاہد اللہ خان اور پرویز رشید سے استعفیٰ لے لیا تھا وہ چودھری نثار علی خان کی ناقابل برداشت گستاخی پر خاموش رہے‘ کیوں؟ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ذہانت سے نواز رکھا ہے‘ آپ بڑی آسانی سے اس ”کیوں“ کا جواب تلاش کر سکتے ہیں‘ پرویز رشید اور مشاہد اللہ کی قابل معافی غلطیوں پر آئی ایس پی آر کی ٹویٹ اور پریس ریلیز آ گئی تھی جبکہ چودھری نثار کی ناقابل معافی گستاخی پر فوج خاموش ہے لہٰذا پرویز رشید اور مشاہد اللہ گھر بیٹھے ہیں اور چودھری نثار علی خان تاحال وزیر داخلہ ہیں‘ یہ کیا ہے اور کیوں ہے؟ یہ تضاد ہماری صدیوں پر پھیلی اجتماعی نفسیات کا ثبوت ہے۔
میں چودھری نثار علی کا دل سے فین ہوں‘ یہ واحد وزیر اور پاکستان مسلم لیگ ن کے اکیلے لیڈر ہیں جو میاں نواز شریف سے آرگومنٹ بھی کر سکتے ہیں اور ان کے سامنے انکار کی جرا¿ت بھی رکھتے ہیں جبکہ باقی پارٹی ”واہ جی واہ میاں صاحب“ ہے‘ چودھری نثار ایماندار بھی ہیں ‘بہادر بھی اور یہ امریکیوں کی آنکھ میں آنکھ بھی ڈال سکتے ہیں‘ چودھری نثار کے بعد یہ جرا¿ت طارق فاطمی رکھتے ہیں‘ یہ بھی اپنی ذہانت اور سفارت کاری کے ذریعے میاں صاحب کو قائل کر لیتے ہیں‘ طارق فاطمی ان تھک بھی ہیں‘ یہ صبح چھ بجے اٹھتے ہیں‘ واک کرتے ہیں ‘ ساڑھے سات بجے دفتر آ جاتے ہیں اور عملے کی آمد سے پہلے اپنا سارادفتری کام نبٹا دیتے ہیں‘ یہ اردو کی طرح روسی اور انگریز زبان کے ایکسپرٹ بھی ہیں اور یہ حیران کن یادداشت کے مالک بھی ہیں‘
میں چودھری نثار کے ساتھ ساتھ ان کافین بھی ہوں لیکن میں دنیا کی واحد اسلامی جوہری طاقت کے وزیراعظم کو بھی اتنا مضبوط دیکھنا چاہتا ہوں کہ یہ جب وزراءکا احتساب کریں تو یہ کسی ٹویٹ یا پریس ریلیز سے متاثر نہ ہوں‘ یہ غلطی اور کوتاہی کا سائز دیکھ کر فیصلہ کریں لیکن شاید میری یہ توقع محض توقع رہے گی‘ کیوں؟ کیونکہ ہم ایک ایسے خطے میں پیدا ہوئے ہیں جس میں ہزاروں سال سے بھوک‘ خوف اور لالچ کی حکمرانی ہے اور جب تک یہ حکمرانی اس خطے میں قائم رہے گی اس وقت تک وزراءکے احتساب کا فیصلہ ٹویٹ اور پریس ریلیز ز ہی کرتی رہیں گی‘ اس وقت تک کوئی شخص بڑی سے بڑی گستاخی کے بعد بھی چودھری نثار سے جواب طلبی نہیں کر سکے گا۔