جاوید چودھری
’’عام آدمی‘ جب تک عام آدمی کا دل آپ کے ساتھ ہوتا ہے اس وقت تک آپ کے اقتدار کا کوئی نہ کوئی معانی‘ کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے لیکن جب عام شہریوں کا دل آپ سے پھر جاتا ہے تو پھر تخت وتاج اور محل بوجھ بن جاتے ہیں اور آپ قبرستان کے متولی بن کر رہ جاتے ہیں‘‘ یہ الفاظ امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے اس وقت کہے تھے جب فلاڈلفیا کے لوگوں نے ان سے ان کے اقتدار کی بنیاد پوچھی تھی‘امریکہ میں آج تک 42صدر گزرے ہیں اور ان 42 صدور میں سب سے کم عمر صدر کا نام جان ایف کینیڈی تھا‘ میں آپ کو اس جان ایف کینیڈی کی سیاسی زندگی کا ایک انتہائی دلچسپ اور سبق آموز واقعہ سنانے لگا ہوں‘ یہ وہ واقعہ تھا جس پر بعدازاں آکسفورڈ یونیورسٹی کے سیاسیات کے شعبے نے باقاعدہ تحقیق کروائی تھی اور اس کے بعد اسے الیکشن اور سیاست کی بیسٹ سٹریٹجی کا ٹائٹل دیا تھا لیکن آپ اس وقت تک اس واقعے کو زیادہ انجوائے نہیں کریں گے جب تک آپ جان ایف کینیڈی کو پوری طرح سمجھ نہیں جاتے ‘ جان ایف کینیڈی کے والد امریکہ کے امیر ترین شخص تھے‘ کینیڈی نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکن نیوی جوائن کی ‘ وہاں سے ان فٹ ہو کر نکالا گیا تو وہ سیاست میں آیا اور43 سال کی عمر میں دنیا کی سپر پاور امریکا کاصدر بن گیا‘ وہ امریکی تاریخ کا کم سن ترین صدر تھا‘ وہ امریکہ کا پہلا رومن کیتھولک صدر بھی تھا‘ وہ دنیا کا پہلاایسا صدارتی امیدوار بھی تھا جس نے الیکشن مہم کیلئے ٹیلی ویژن کا میڈیم استعمال کیا تھا اوروہ امریکہ کا پہلا قتل ہونے والا صدر بھی تھا‘ کینیڈی کو 22نومبر 1963ء کو ایک نیم پاگل شخص نے ڈیلاس میں گولی مار دی تھی اورجان ایف کینیڈی امریکہ کا واحد صدر تھا جسے دفن کرنے کے بعد اس کی قبر پر آگ جلا دی گئی تھی اور یہ آگ آج تک جل رہی ہے ‘ امریکیوں کا دعویٰ ہے جب تک امریکہ قائم رہے گا یہ آگ جلتی رہے گی۔
میں اب اس واقعے کی طرف آتاہوں‘جان ایف کینیڈی 1955ء میں سینیٹر تھا اور اس وقت اس کے صدر بننے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں تھے‘ ایک بار وہ اپنے چنددوستوں کے ساتھ لاس اینجلس کے ایک غریبانہ محلے سے گزر رہا تھا‘ میں یہاں آپ کو ایک ضمنی بات بھی بتاتا چلوں‘کینیڈی کا تعلق کیونکہ ایک رئیس خاندان سے تھا چنانچہ جب وہ سفر کیلئے نکلتا تھا تو اس کے ساتھ دس‘ دس‘ بیس‘ بیس گاڑیاں ہوتی تھیں‘ کینیڈی خود بھی امریکہ کی مہنگی ترین گاڑی استعمال کرتا تھا‘ کینیڈی کا قافلہ لاس اینجلس کے ایک ٹریفک سگنل پر رک گیا‘ سگنل کے سامنے سے ایک سیاہ فام بوڑھی خاتون گزر رہی تھی‘ خاتون بیمار تھی‘ اس نے ہاتھوں میں شاپنگ بیگ اٹھا رکھے تھے اور وہ کمزوری کے باعث آہستہ آہستہ چل رہی تھی‘ ابھی وہ خاتون سڑک کے درمیان ہی پہنچی تھی کہ سگنل سبز ہو گیا اور گاڑیاں آگے کی طرف رینگنے لگیں‘ کینیڈی فوراً اپنی گاڑی سے اترا‘ بھاگتا ہوا بوڑھی خاتون کے پاس پہنچا‘ اس سے اس کا سامان لیا‘ اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے سڑک پار کروا دی‘ کینیڈی کے دوست اس کی اس حرکت پر حیران رہ گئے کیونکہ یہ وہ دور تھا جب امریکہ میں گوروں اور کالوں کے درمیان مساوی حقوق کیلئے جنگ چل رہی تھی چنانچہ گورے کالوں کو پسند نہیں کرتے تھے‘ ان حالات میں کینیڈی جیسے امیر شخص اور سینیٹر کا ایک کالی خاتون کیلئے گاڑی سے اترنا بڑے معانی رکھتا تھا۔ بہرحال قصہ مختصر کینیڈی بوڑھی خاتون کو سڑک پار کرا کر واپس گاڑی میں بیٹھا اور اس کا قافلہ آگے چل پڑا‘ راستے میں اس کے ایک ساتھی نے حیرت سے پوچھا ’’سینیٹر آپ کو اتنی تکلیف کرنے کی کیا ضرورت تھی‘‘ کینیڈی نے مسکرا کر جواب دیا ’’میں نے اس بوڑھی خاتون کی مدد کر کے امریکہ کی صدارت جیت لی ہے‘‘ کینیڈی کا ساتھی پریشان ہو گیا کیونکہ اس وقت تک کینیڈی نے صدارتی الیکشن لڑنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا‘ ساتھی نے پوچھا ’’وہ کیسے‘‘ کینیڈی نے جواب دیا’’فرض کرو‘ میں صدارتی الیکشن لڑتا ہوں اور میرے ووٹ اور میرے مخالف کے ووٹ برابرہو جاتے ہیں اور اس وقت ہم دونوں میں جس شخص کوایک ووٹ مل جائے گاوہ امریکہ کا صدر بن جائے گا‘‘ ساتھی خاموش رہا‘ کینیڈی بولا
’’اور فرض کرو‘ وہ ایک ووٹ یہ بوڑھی کالی خاتون ہو تو کیا ہوگا‘‘ کینیڈی ایک لمحے کیلئے رکا اور دوبارہ بولا ’’اس وقت یہ خاتون صرف اورصرف مجھے ووٹ دے گی اور یوں میں نے آج وہ حتمی اور قیمتی ترین ووٹ حاصل کر لیا ہے‘‘ کینیڈی کے ساتھی نے قہقہہ لگایااور اس کے سارے دوست گاڑی کے شیشوں سے باہر دیکھنے لگے لیکن اس واقعے کے چھ برس بعد کینیڈی کی یہ بات سچ ثابت ہوگئی کیونکہ صدارتی الیکشن میں کینیڈی نے اپنے مخالف امیدوار کے مقابلے میں کم ترین برتری حاصل کی تھی‘ اسے صرف اعشاریہ دو فیصد ووٹ زیادہ ملے تھے اور کینیڈی کا کہنا تھا یہ اعشاریہ دو فیصد ووٹ وہ ہیں جو اس نے لاس اینجلس کی سیاہ فام بوڑھی خاتون کادل جیت کر حاصل کئے ہیں۔ کینیڈی نے صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے اس ساتھی کو بلا کر اسے یہ واقعہ یاد کرایا تھا اوراس کے بعد بڑی خوبصورت بات کہی تھی‘ کینیڈی نے اپنے دوست سے کہا تھا ‘‘اس دن اس خاتون نے میرا ماتھا چوم کر مجھے صدر بننے کی دعا دی تھی اور میں اسی وقت سمجھ گیا تھا میں ایک نہ ایک دن امریکہ کا صدر بنوں گا کیونکہ قدرت کبھی بے لوث دعائیں ضائع نہیں کرتی‘‘۔ کینیڈی نے کہا ’’آپ ووٹ سے الیکشن ضرور جیت سکتے ہیں لیکن آپ کو اقتدار ہمیشہ دعاؤں سے ملتا ہے اور جب تک عوام کی دعائیں آپ کا ساتھ دیتی ہیں آپ اقتدار میں رہتے ہیں‘‘۔
کینیڈی کے اس واقعے میں اہل اقتدار کیلئے بے شمار سبق ہیں مثلاً اقتدار تک پہنچنے کیلئے صرف ووٹ کافی نہیں ہوتے‘ اقتدار کے راستے میں بے شمار غیر مرئی طاقتیں اور ان دیکھے ڈائریکٹرز ہوتے ہیں جو آپ کو فرش سے اٹھا کرعرش تک پہنچا دیتے ہیں۔ آپ دنیا کے کسی بھی حکمران کا پس منظر دیکھ لیں‘ آپ کو اس کی کامیابی کے پیچھے غیر مرئی طاقتوں کے ہاتھ اور ان دیکھے ڈائریکٹروں کی ڈائریکشن دکھائی دے گی‘ یہ ڈائریکشن اور یہ غیر مرئی طاقتیں کیا ہیں؟ یہ عام‘ غریب اور محروم لوگوں کی دعائیں ہوتی ہیں‘ اللہ تعالیٰ غریبوں‘ بیماروں اور تاسف کے شکار گناہگاروں کے قریب ہوتا ہے‘ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا جب کوئی غریب‘ بیمار‘ گناہگار یا نادار کسی کو دعا دیتا ہے تو وہ دعا فوراً قبول ہو جاتی ہے‘ کیوں؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کو دعا مانگنے والے کے آنسو‘ گریہ وزاری اور درد پسند ہوتا ہے اور جرم اور گناہ کے احساس میں ڈوبے ہوئے لوگوں‘ بیماروں اور غریبوں کے پاس درد بھی ہوتا ہے‘ گریہ و زاری بھی اور آنسو بھی چنانچہ اللہ تعالیٰ اور ان لوگوں کے درمیان ایک مضبوط رابطہ پیدا ہوجاتا ہے‘ آپ آج سے تاریخ کو ایک نئے زاویے سے دیکھنا شروع کر دیں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے دنیا کے ان سیاستدانوں‘ کاروباری شخصیات اور حکمرانوں نے زندگی میں بے تحاشا ترقی کی جنہوں نے غریبوں‘ بیماروں اور ناداروں کی اصلاح کیلئے کام کیا تھا۔
آپ کو دنیا کے وہ تمام ممالک بھی ترقی کرتے نظر آئیں گے جن میں غریبوں‘ بیماروں اورناداروں کا احساس کیا جاتا ہے‘ ان کی ویلفیئر کیلئے کام کیا جاتاہے‘ آپ کو یہ دیکھ کر بھی حیرت ہوگی دنیا میں کبھی ٹرسٹ کا کوئی سکول‘ کوئی یتیم خانہ‘ کوئی ہسپتال اور مفت روٹی فراہم کرنے والا کوئی لنگر خانہ بند نہیں ہوا‘ دنیا کی کسی فارماسیوٹیکل کمپنی کا منافع کم نہیں ہوا اور جیلوں اور قید خانوں کو خوراک سپلائی کرنے والے بیوپاریوں کا کاروبار بند نہیں ہوا۔۔ کیوں؟ کیونکہ ان لوگوں کیلئے غریب‘ بیمار‘نادار اور جرم پر نادم مجرم دعا کرتے ہیں چنانچہ دنیا میں وہ سیاستدان‘ وہ حکمران‘ وہ بیوروکریٹس اور وہ بااثر لوگ کبھی ناکام نہیں ہوتے جو غریبوں‘ ناداروں اور بیماروں کی دعاؤں میں یاد رہتے ہیں۔ کینیڈی کے اس واقعے میں یہ سبق چھپا ہوا ہے کہ جب تک عام شخص کا دل آپ کے ساتھ نہیں دھڑکتا آپ اس وقت تک اچھے طریقے سے حکمرانی نہیں کر سکتے‘ عام شہری کو محسوس ہونا چاہئے کہ آپ کا نام آصف علی زرداری ہے‘ یوسف رضا گیلانی ہے یا پھر میاں نوازشریف ہے‘ آپ اس کے لیڈر ہیں‘ آپ اس کے دکھوں‘ تکلیفوں اور مسائل سے واقف بھی ہیں اور آپ راتوں کو جاگ جاگ کر اس کے مسائل حل کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں‘ عام شہری کو یہ احساس بھی ہونا چاہئے اگر اس کی بجلی بند ہے یا وہ مہنگائی میں پس رہا ہے یا اس کی جان کو خطرہ ہے تو میاں نوازشریف‘ یوسف رضا گیلانی اور آصف علی زرداری بھی سیکور نہیں ہیں‘ ان کے گھر پر بھی فاقے ہو رہے ہیں اور یہ لوگ بھی پچاس سینٹی گریڈ کی گرمی میں پسینے میں شرابور بیٹھے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہماری حکمران کلاس اور عام شہری کے درمیان آج تک اعتماد کا یہ تعلق قائم نہیں ہوسکا‘ عام شہری ان لوگوں کو کسی دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھتا ہے اور یہ لوگ بھی عام شہریوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں چنانچہ ہمارے حکمرانوں کو اپنی اپنی باری پر اقتدار تو مل جاتا ہے لیکن انہیں عوام کی دعائیں‘ ہمدردیاں اور محبت نصیب نہیں ہوتی شائد یہی وجہ ہے اس ملک میں ملک غلام محمد سے لے کر پرویز مشرف تک ہر حکمران کے اقتدار کا خاتمہ ٹریجڈی کی شکل میں ہوا اور ہر حکمران کے جانے پر لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔