پولیس نے چور پکڑ لیا‘ چور ماں کا نافرمان تھا‘ پولیس نے چور کو ڈنڈا ڈولی کیا اور چھتر مارنا شروع کر دیئے‘ ماں ممتا سے مجبور ہو کر تھانے پہنچ گئی‘ ماں نے جوں ہی تھانے میں پاﺅں رکھا‘ چور نے ہائے ماں‘ ہائے ماں کے نعرے لگانا شروع کر دیئے‘ ماں بیٹے کی طرف جانے کی بجائے سیدھی تھانے دار کے پاس پہنچی اور اونچی آواز میں بولی ”صدقے جاواں وے تھانے دارا توں اج اینھوں ماں تے یاد کرا دتی اے“ (صدقے جاﺅں تھانے دار صاحب آپ نے آج اسے ماں یاد کرا دی) یہ واقعہ صرف واقعہ نہیں یہ پنجابی کا محاورہ بن چکا ہے‘ پنجاب کے لوگ آج بھی مصیبت میں دوستوں کو یاد کرنے والوں کو دیکھ کر اونچی آواز میں ”صدقے جاواں تھانے دارا“ کا نعرہ لگاتے ہیں۔
یہ واقعہ چودھری اعتزاز احسن نے دو ستمبر 2014ءکو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس وقت سنایا جب عمران خان اور علامہ طاہر القادری اسمبلی کے سامنے دھرنا دے چکے تھے اور میاں نواز شریف کا ہیوی مینڈیٹ ایک بار پھر آخری سانسیں لے رہا تھا‘ بس ایک یلغار کی دیر تھی اور حکومت فارغ ہو جاتی لیکن پھر میاں نواز شریف کی خوش قسمتی نے انگڑائی لی اور دو غیبی طاقتیں میدان میں آ گئیں‘ امریکا نے اپنے سفیر کے ذریعے مقتدر حلقوں کو پیغام دے دیا ”ہم کسی قسم کی غیر جمہوری حرکت کوسپورٹ نہیں کریںگے“ اور پارلیمنٹ تمام تر اختلافات کے باوجود حکومت کے پیچھے کھڑی ہو گئی اور یوں عمران خان کا دھرنا اپنی آب وتاب کھو گیا‘ شریف برادران نے آنے والے دنوں میں اپنے کزن جاوید شفیع کو درمیان میں ڈالا‘ یہ علامہ طاہر القادری سے رابطے میں تھے‘ جاوید شفیع نے علامہ طاہر القادری سے میاں صاحبان کی والدہ کا رابطہ کرایا‘ علامہ صاحب بیگم صاحبہ کو انکار نہیں کر سکتے تھے چنانچہ دھرنا لپیٹا اور یہ عمران خان کو تنہا چھوڑ کر غائب ہوگئے‘ آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ پیش آیا اور عمران خان بھی دھرنے کے خاتمے پر مجبور ہوگئے لیکن یہ حقیقت ‘ حقیقت رہی اگر اس وقت آصف علی زرداری اور ان کے دونوں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور اعتزاز احسن حکومت کا ساتھ نہ دیتے تو میاں نواز شریف ماضی کا قصہ بن چکے ہوتے اور پلوں کے نیچے سے اس وقت تک اربوں کیوسک میٹر پانی گزر چکا ہوتا۔ہم صدقے جاواں وے تھانے دارا کی طرف واپس آتے ہیں‘ اعتزاز احسن پارلیمنٹ ہاﺅس میں حکومت کی حمایت کےلئے کھڑے ہوئے‘ پنجابی چور کا یہ واقعہ سنایا اور پھر میاں نواز شریف کی طرف اشارہ کر کے کہا‘ یہ پارلیمنٹ ہماری ماں ہے‘ یہ ہماری اصل طاقت ہے‘ مجھے آج مہینوں بعد میاں نواز شریف کو پارلیمنٹ میں دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے اور میں عمران خان اور طاہرالقادری کو شاباش دینے پر مجبور ہو رہا ہوں صدقے جاواں وے تھانیدارا تو ماں تے یاد کرا دتی۔ مجھے یاد ہے یہ الفاظ اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کے قائدین کو اچھے نہیں لگے تھے‘ ان کے رنگ فق ہو گئے تھے اور وہ کنکھیوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے‘ یہ لوگ آج بھی اس واقعے کا تذکرہ کرتے ہیں تو یہ اعتزاز احسن کی تقریر کو دودھ میں مینگنیاں قرار دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں پیپلز پارٹی نے ہمارے منہ پر تھپڑ مار کر اپنا احسان ضائع کر دیا تھا لیکن میں ہر بار ان سے اختلاف کرتا ہوں۔ کیوں؟ کیونکہ میں دل سے سمجھتا ہوں چودھری اعتزاز احسن کی بات غلط نہیں تھی‘ یہ حقیقت ہے میاں برادران کو پارلیمنٹ اور عوام صرف اس وقت یاد آتے ہیں جب عمران خان پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے جا بیٹھتے ہیں یا پھر رائے ونڈ کی طرف مارچ کا اعلان کردیتے ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ 2014ءکا ڈیٹا نکال لیجئے‘ میاں نواز شریف 2013ءکے الیکشن کے بعد دھرنے تک صرف 7مرتبہ قومی اسمبلی میں آئے تھے جبکہ انہوں نے 4 جون 2014ءتک سینٹ میں قدم نہیں رکھا تھا یہاں تک کہ اپوزیشن نے سینٹ کا بائیکاٹ کر دیا تھا ‘ آپ دھرنے کے بعد بھی پارلیمنٹ میں وزیراعظم کی آمد کا ڈیٹا نکال لیجئے‘ آپ کو وزیراعظم قومی اسمبلی میں جاتے نظر نہیں آئیں گے ‘ آپ وزیراعظم کا عوام سے انٹرایکشن بھی دیکھ لیجئے‘ یہ 2014ءسے 2016ءتک عوام کو بھول کر وزیراعظم ہاﺅس میں خاموش بیٹھے رہے لیکن جوں ہی پانامہ لیکس کا ایشو پیدا ہوا اور وزیراعظم کو یہ پیغام دے دیا گیا ”پی ایم شوڈ سٹیپ ڈاﺅن“ تو میاں نواز شریف فوراً اٹھے اور عوامی سمندر میں اتر گئے‘ یہ مئی 2016ءمیں علیل تھے‘ ڈاکٹروں نے انہیں اوپن ہارٹ سرجری کا مشورہ دے رکھا تھا لیکن یہ اس کے باوجود لندن جانے سے پہلے بنوں ‘ سوات اور ڈیرہ اسماعیل خان گئے اور عوامی جلسوں سے خطاب کیا‘ یہ دل کے آپریشن کے بعد بھی مسلسل عوامی جلسے کر رہے ہیں‘ میں نے کل انہیں چترال میں عوام سے خطاب کرتے دیکھا‘ یہ چترال کے عوام کو بڑے جذبے کے ساتھ یونیورسٹی‘ ہسپتال‘ سڑکیں اور سو دیہات کو بجلی عنایت کر رہے تھے اور یہ اعلان فرما رہے تھے ہم اگلے سال کے وسط تک لواری ٹنل بھی مکمل کر دیں گے‘ یہ کیا ہے؟ آپ کس کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا وزیراعظم کا جذبہ سچا نہیں‘ یہ اعلانات یقینا بادشاہ وقت کی فیاضی کی دلیل ہوں گے لیکن سوال یہ ہے یہ فیاضی صرف اس وقت کیوں جاگتی ہے جب عمران خان اسلام آباد یا لاہور کی طرف چل پڑتے ہیں‘ میاں صاحب اگر واقعی عوام کو حاکمیت اعلیٰ کا ماخذ سمجھتے ہیں تو پھر یہ ”دھرنا فری“ دنوں میں کہاں چلے جاتے ہیں‘ بادشاہ وقت کو عوام عام دنوں میں یاد کیوں نہیں آتے اور پارلیمنٹ اگر واقعی جمہوریت کی ماں ہے یا یہ سیاست کا کعبہ ہے تو پھر یہ ماں اور یہ کعبہ سکون کے دنوں میں اپنے صاحبزادوں اور اپنے زائرین کی شفقت سے کیوں محروم رہتا ہے‘ مجھے محسوس ہوتا ہے یہ لوگ پارلیمنٹ کو صرف اپنے اقتدار کا سیکورٹی گارڈ اور عوام کو ووٹ دینے والی مشین سمجھتے ہیں‘ ان کے اقتدار کو جوں ہی خطرہ پیش آتا ہے یہ دوڑ کر پارلیمنٹ کے پیچھے چھپ جاتے ہیں اوران کو جوں ہی محسوس ہوتا ہے ان کو ووٹوں کی دوبارہ ضرورت پڑ سکتی ہے تو یہ بھاگ کر ووٹوں کی مشین کے پاس چلے جاتے ہیں اورپیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیتے ہیں‘ حکومت کی حالت یہ ہے‘ پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک وزیر نے بتایا ہم عمران خان کو اپنا محسن سمجھتے ہیں‘ میں نے پوچھا ”کیوں؟“ وہ بولے ”عمران خان نکلتا ہے تو وزیراعظم ہم سے ہاتھ ملالیتے ہیں“ میں نے پوچھا ”کیا آپ کی وزیراعظم سے ملاقات نہیں ہوتی“ وزیر نے انکشاف کیا ”ملاقات تو دور وزیراعظم میرے نام اور شکل سے بھی واقف نہیں ہیں“ آپ شاید اسے یاوہ گوئی سمجھیں گے لیکن یہ حقیقت ہے وفاقی کابینہ میں ایسے وزراءبھی موجود ہیں جن سے وزیراعظم نے تین برسوں میں کوئی انفرادی ملاقات نہیں کی‘ یہ وزراءجب غیر ملکی سربراہان سے ملاقات کےلئے قطار میں کھڑے ہوتے ہیں تو وزیراعظم کو ان کا نام اور پورٹ فولیو یاد نہیں ہوتا چنانچہ یہ انہیں ”آور فیڈرل منسٹر“ قرار دے کر آگے روانہ کر دیتے ہیں‘ آپ وزیراعظم کی پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی سے ملاقاتوں کا ڈیٹا بھی نکال لیجئے‘ وزیراعظم نے پارلیمانی پارٹی کی پہلی میٹنگ 27 جنوری 2014ءکو دھرنے سے قبل کی تھی اور دوسری 4 اگست 2016ءمیں پانامہ مارچ سے پہلے ہوئی‘ ہمارے ملک میں بم دھماکے ہوتے ہیں اور ان میں سینکڑوں لوگ بھی شہید ہوتے رہتے ہیں لیکن وزیراعظم صرف ان شہداءکو شہدائ‘ ان زخمیوں کو زخمی اور ان لواحقین کو لواحقین سمجھتے ہیں جو عمران خان کے مارچوں کے دوران دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں‘ یہ عام دنوں کے شہداءکی تعزیت تک مناسب نہیں سمجھتے۔
یہ کیا ہے؟ کیا یہ رویہ مناسب ہے؟ اگر ہاں تو پھر میری چترال کے لوگوں سے درخواست ہے آپ بنی گالہ آئیں اور اس تھانیدار عمران خان کا شکریہ ادا کریں جس کی وجہ سے آج آپ کو یونیورسٹی‘ ہسپتال ¾سڑک اور بجلی مل رہی ہے‘ تھانیدار عمران خان اگر رائے ونڈ کا رخ نہ کرتا تو میاں نواز شریف کو چترال یاد نہ آتا‘ میں ساتھ ہی عمران خان سے بھی درخواست کرتا ہوں آپ بھی اگلے دو سال اسی طرح سڑکوں پر رہیں‘ آپ کی مہربانی سے ایم این اے‘ وزراءاور پارلیمنٹ کو بھی وزیراعظم کی زیارت نصیب ہوتی رہے گی اور عوام کو بھی سڑکیں‘ پانی‘ پل‘ ہسپتال اور یونیورسٹیاں ملتی رہیں گی اور آپ نے اگر یہ مہربانی فرما دی تو ملک کے 20 کروڑ عوام 2018ءمیں” صدقے جاواں وے تھانیدار عمران خان“ کا نعرہ لگانے پر مجبور ہو جائیں گے اور یہ وہ تبدیلی ہو گی جس کے انتظار میں قوم کی آنکھیں پتھرا گئی ہیں‘ عوام 70 برس سے حکومت کو اپنے درمیان دیکھنا چاہ رہے ہیں اور تھانیدار عمران خان یہ کام کر رہے ہیں‘ یہ میاں صاحب کو عوام‘ ایم این اے اور پارلیمنٹ تینوں یاد کرا رہے ہیں چنانچہ میں بھی یہ کہنے پر مجبور ہو رہا ہوں صدقے جاواں وے تھانیدار عمران خان۔
تھانے دار عمران خان
8
ستمبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں