کامیابی
آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی کے بعد لوگوں کو بڑے فخر سے بتاتے ہیں ’’دیکھو یہ میرا دوست ہے‘‘۔
قصوروار
آپ غریب پیدا ہوئے ہیں تو آپ بے قصور ہیں لیکن آپ اگر غریب مر جاتے ہیں تو آپ اپنی غربت کے خود قصور وار ہیں۔
محسن
کسان کی عزت کرنا سیکھیں‘ کیوں؟ کیونکہ آپ کو زندگی میں وکیل‘ ڈاکٹر اور آرکی ٹیکٹ کی ضرورت کبھی کبھی پڑتی ہے لیکن کسان روزانہ ناشتے‘ لنچ اور ڈنر کے وقت تین بار آپ پر مہربان ہوتا ہے‘ یہ ہمارازیادہ بڑا محسن ہے۔
کبھی ہار نہ مانیں
کچھ لوگ ناکام ہو کر ہار مان لیتے ہیں اور کچھ اس وقت تک بغیر ہار مانے فیل ہوتے رہتے ہیں جب تک وہ کامیاب نہیں ہو جاتے۔
حق
دنیا انسان سے سارے حق چھین سکتی ہے لیکن اس سے محنت کرنے‘ محبت کرنے‘ اللہ کے حضور توبہ کرنے اور اس سے دعا کرنے کا حق نہیں چھین سکتی چنانچہ آخری سانس تک جی بھر کر یہ حق استعمال کرتے رہیں۔
دنیا آپ کے قدموں میں
زندگی‘ عزت اور رزق اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے چنانچہ روٹی کیلئے ‘ عزت کیلئے اور سانسوں کیلئے لوگوں سے‘ حکومتوں سے اور حالات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں‘ خود پر اعتماد اور اللہ پر بھروسہ رکھیں‘ دنیا آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔
وہاں جگہ خالی ہے
مغرب کی اذان ہو رہی تھی‘ میں کار پارکنگ کیلئے شاپنگ پلازا میں جگہ ڈھونڈ رہا تھا‘میں نے ایک نوجوان سے پوچھا ’’پارکنگ کہاں مل سکتی ہے‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر جواب دیا’’ آگے مسجد کے سامنے لگا دیں‘ وہاں جگہ ہو گی‘‘۔
خطرناک
سقراط کاصرف ایک جرم تھا‘ وہ سوچنا جانتا تھا چنانچہ وہ خطرناک تھا‘وہ اس وقت مزید خطرناک ہو گیا جب اس نے لوگوں کو سوچناسکھانا شروع کر دیا اورلوگوں نے اس سے متاثر ہو کر اپنے زنگ آلود عقائد اور دیمک زدہ روایات پر سوالات اٹھانا شروع کردیئے لہٰذا ریاست اسے قتل نہ کرتی تو کیا کرتی؟۔
برف کا گولہ
میں نے اس سے کہا ’’تم میرے ساتھ دوستی کرو گے‘‘ اس نے برف کا گولہ بنایا اور میرے ہاتھ میں تھما دیا‘ میرے دیکھتے ہی دیکھتے گولہ پگھل گیا‘ اس نے میرے ہاتھوں کی طرف دیکھا اور کہا ’’میرے بھائی دوستی برف کے گولے کی طرح ہوتی ہے‘ اسے بنانا آسان مگر برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے‘‘۔
ادھار
مجھے ادھار دینے اور ادھار لینے والوں نے تباہ کر دیا۔ ادھار دینے والوں نے مجھے اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہونے دیا اور ادھار لینے والوں نے میرے قدموں کے نیچے زمین نہ رہنے دی۔
یہ وقت بھی
بادشاہ نے وزیر کو انگوٹھی دی اور کہا اس پر کوئی ایسا فقرہ لکھوا لاؤ جسے میں خوشی میں پڑھوں تو اداس ہو جاؤں اور غم میں پڑھوں تو خوش ہو جاؤں‘ وزیر گیا اور انگوٹھی پر یہ فقرہ لکھوا لایا ’’یہ وقت بھی گزر جائے گا‘‘۔
انٹرٹینمنٹ
میں اپنے کتے کو نہلاتا جاتا تھا اور سوچتا جاتا تھا‘ یہ میرا Pet ہے یا میں اس کا Pet ہوں۔ آپ نے کبھی یہ سوچا ‘ ہو سکتا ہے آپ کے کتے نے آپ کو اپنی انٹرٹینمنٹ کیلئے رکھا ہوا ہو‘ آپ اس کے Pet ہوں۔
بھنورا
سائنسدان کہتے ہیں‘ بھنورے کا جسم بڑا اور پر بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذایہ سائنسی لحاظ سے اڑ نہیں سکتا‘ شاید بھنوروں نے سائنسدانوں کی یہ بات نہیں سنی تھی‘ شاید یہ اسی لئے اڑتے پھرتے ہیں‘انسان اگر سیکھنا چاہے تویہ ان بھنوروں سے بھی سیکھ سکتا ہے‘ آپ خود سوچیں اورخود کریں‘ ناممکن صرف وہ ہے جس کو آپ نے ناممکن مان لیا ہے ورنہ اگر بھنورے بھی سائنسدانوں کی بات سن لیتے تو یہ بھی کبھی نہ اڑ سکتے۔
تنہائی
ہم ایک دن میں اوسطاً 2250 لفظ بولتے ہیں‘دنیا میں کل تین ارب ای میلز روزانہ بھیجی جاتی ہیں‘ انسان19 ارب ٹیکسٹ میسجز بھجواتے ہیں‘ سات ارب سے زیادہ لوگ اس دنیا میں آباد ہیں لیکن اس کے باوجود ہم اکیلا پن محسوس کرتے ہیں‘ ہم نے یہ تمام کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز ایک دوسرے کو قریب لانے کیلئے ایجاد کی تھیں‘ فاصلے کم کرنے کیلئے بنائی تھیں مگر آج کا انسان پہلے سے بھی زیادہ تنہا ہے‘کیوں؟کیونکہ کوئی سائنس آج تک انسانی آواز‘ انسانی لمس‘ شفقت کے ہاتھ‘ تھپکی یا گرم مصافحے کا نعم البدل نہیں بنا سکی‘ انسان کا اکیلا پن صرف انسان ختم کر سکتا ہے اور آج انسان کو انسان ہی میسر نہیں۔
ہوشیاری
میں نے اس سے کامیابی کی وجہ پوچھی‘ وہ بولا ’’میں نے زندگی میں صرف ایک ہوشیاری سیکھی‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا؟‘‘ وہ بولا ’’دنیا کی سب سے بڑی ہوشیاری یہ ہے‘ تم زندگی میں کبھی ہوشیاری نہ کرو‘ تم کامیاب ہو جاؤ گے‘‘۔
جاب لیس
مالکوں نے جس دن خود کو ملازمین کی صفوں میں رکھ لیا اس دن دنیا کا کوئی شخص جاب لیس نہیں ہوگا اور جس دن ورکروں نے ملازم رکھنا شروع کر دیئے اس دن کوئی کمپنی بند نہیں ہو گی۔
دلچسپ
ہم دنیا کو اچھے اور برے لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں‘ ہم روز مایوس ہوتے ہیں‘ ہم اگر دنیا کو دلچسپ اور بور لوگوں میں تقسیم کر لیں تو ہم کبھی مایوس نہیں ہوں گے۔
مقدر
محنت درخت ہوتی ہے اور مقدر پرندہ‘ آپ جب تک درخت نہیں اگاتے‘ جب تک آپ کا درخت بڑا اور گھنا نہیں ہوگا‘ اس وقت تک مقدر کا پرندہ آپ کے درخت پر نہیں بیٹھے گا۔
کمبی نیشن
میں نے زندگی میں دیکھا‘ جہاں پھول تھے وہاں کانٹا بھی تھا اور جہاں کانٹا تھا وہاں خوشبو بھی تھی۔
قاتل
لوگ سمجھتے تھے سیٹھ صاحب کو معاشی پالیسیوں نے برباد کر دیامگر ان کے ملازمین کا کہنا تھا ’’سیٹھ صاحب پالیسیوں کے ہاتھوں نہیں اپنے غرور کے ہاتھوں مارے گئے تھے‘‘۔
آمریت
وہ کہہ رہے تھے‘ ہمیں ایک مضبوط ڈکٹیٹر چاہیے‘ میں نے ہاں میں سر ہلایا اور ان سے عرض کیا ’’جناب آپ دنیا کے سو سال کی تاریخ پڑھئے اور مجھے وہ ملک دکھائیے جس نے ڈکٹیٹر شپ میں ترقی کی ہو‘‘ وہ تھوڑی دیر سوچتے رہے اور پھر خاموش ہو گئے۔
افضل
ماں بچے کو پیدا کرتے وقت جتنی تکلیف برداشت کرتی ہے‘ باپ بچوں کو پالتے وقت اس سے کہیں زیادہ تکلیف پوری زندگی سہتا ہے لیکن اس کے باوجود باپ کے پاؤں صرف پاؤں ہیں جنت نہیں؟ایک سوال!۔
پچھلی سیٹ
یورپ میں صاحب ڈرائیونگ کرتے ہیں‘ میم صاحبہ ساتھ والی سیٹ پر بیٹھتی ہیں اور میم صاحبہ کا کتا پچھلی سیٹ پر۔۔۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
نصیب
ہم بھی بڑے دلچسپ لوگ ہیں‘ گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں ڈرائیونگ سیٹ سب سے اچھی بناتی ہیں اور ہم یہ سیٹ اپنے ڈرائیور کو پیش کر دیتے ہیں‘ خوش نصیب ڈرائیور ہوا یا ڈرائیور کا صاحب۔
تبدیلی
ملک میں حقیقی تبدیلی اس دن آئے گی جس دن اللہ دتہ اسمبلی میں بیٹھ کر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے گھر کا بجٹ بنائے گا۔