تاشقند میں اچانک برف باری شروع ہوگئی‘ میں‘ عیش محمد اور ترجمان شہباز الیکشن سنٹر سے نکلے تو شہر پر برف کے سفید گالے نازل ہو رہے تھے‘ پورا شہر سفید ہو چکا تھا‘ یہ بہار کی برف باری تھی‘ تاشقند کے لوگ بھی اس معجزے پر حیران تھے‘ تاشقند میں 19 مارچ کو نوروز کا جشن ہوا‘ نوروز سنٹرل ایشیا میں سردیوں کے خاتمے کا اعلان ہوتا ہے‘ نوروز کے بعد برف باری اور سردی کا امکان نہیں ہوتا لیکن 29 مارچ کو صدارتی الیکشن کے دن اچانک برف باری شروع ہوگئی‘ آسمان سے روئی زمین پر برسی اور شہر آدھ گھنٹے میں سفید ہو گیا‘ ہم تینوں سڑک پر کھڑے ہو کر برف باری کا نظارہ کرتے رہے یہاں تک کہ ڈرائیور ہارن دینے پر مجبور ہوگیا‘ ہم نے ابھی تین الیکشن سنٹرز مزید دیکھنے تھے‘ ہم برف باری میں آگے روانہ ہو گئے‘ گاڑی کے شیشے کے باہر برف تھی‘ تیز یخ ہوا تھی اور تاشقند شہر تھا اور ہم اس خواب ناک ماحول میں آگے بڑھتے چلے جارہے تھے۔
ازبکستان میں 29 مارچ 2015ءکو چوتھا صدارتی الیکشن تھا‘ ازبک حکومت نے الیکشن کی مانیٹرنگ کےلئے 44 ممالک سے 300 مبصرین کو دعوت دی‘ پاکستان سے 9 مبصرین مانیٹرنگ کےلئے ازبکستان گئے‘ میں بھی اس وفد میں شامل تھا‘ حکومت نے مبصرین کو شاندار سہولتیں دے رکھی تھیں‘ ازبکستان پہنچنے والے ہر مبصر کو گاڑی‘ ڈرائیور‘ پروٹوکول آفیسر اور ایک ترجمان کی سہولت حاصل تھی۔ یہ تین لوگ دن رات مبصر کے ساتھ رہتے تھے‘ مبصرین کےلئے فائیو سٹار ہوٹل بک تھے‘ یہ مبصر کارڈ دکھا کر پورے ملک میں کسی بھی جگہ وزٹ کر سکتے تھے‘ ملک بھر کےلئے ہوائی سفر‘ ٹرین کا سفر اور لوکل ٹرانسپورٹ فری تھی‘ یہ لوگ سرکاری دفاتر میں بھی جا سکتے تھے اور وہاں سے بھی ہر قسم کی معلومات حاصل کر سکتے تھے‘ مبصرین مارچ کے ابتدائی دنوں سے یکم اپریل تک کسی بھی وقت ازبکستان پہنچ سکتے تھے اور ازبک مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو سکتے تھے‘ مجھے ہوٹل میں ایسے مبصرین بھی ملے جو پورے مہینے سے ازبکستان کے مہمان تھے‘ یہ لوگ الیکشن کی مانیٹرنگ کے چکر میں نہ صرف پورے ملک کی سیر کر رہے تھے بلکہ زندگی کی تمام ناآسودہ حسرتیں بھی پوری کر رہے تھے‘ میں 25 مارچ کو تاشقند پہنچا‘ حکومت کی طرف سے عیش محمد اور شہباز دو معاون ملے‘ ڈرائیور ان کے علاوہ تھا‘ شہباز نوجوان طالب علم تھا‘ یہ یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کا طالب علم تھا‘ حکومت نے مبصرین کی ترجمانی کا فریضہ یونیورسٹی کے طالب علموں کو سونپ رکھا تھا‘ مجھے یہ تکنیک اچھی لگی کیونکہ بیرونی دنیا سے اس انٹرایکشن سے طالب علموں کے وژن میں بھی اضافہ ہوا اور دنیا بھر کے مبصرین کو بھی ازبکستان کی نئی نسل کو سمجھنے کا موقع ملا‘ عیش محمد وزارت اطلاعات میں آفیسر تھا‘ حکومت نے پروٹوکول کی ذمہ داری سرکاری افسروں کو سونپ رکھی تھی‘ یہ لوگ کیونکہ حکومت اور سرکاری معاملات سے واقف تھے چنانچہ انہیں اس وجہ سے مبصرین کے ساتھ وابستہ کیا گیا ‘ شہباز اور عیش محمد دونوں مہمان نواز‘ مہذب اور زندہ دل انسان تھے‘ میں نے ان کی کمپنی کو پانچ دن خوب انجوائے کیا‘ ازبکستان میں پانچ سال بعد صدارتی الیکشن ہوتے ہیں‘ عوام صدر کا انتخاب براہ راست کرتے ہیں‘ صدر اسلام کریموف دسمبر 1991ءسے ازبکستان کے صدرہیں‘ یہ ازبکستان کے بانی بھی ہیں‘ اسلام کریموف نے 1991ءمیں ازبکستان کو سووویت یونین سے آزادی دلائی ‘ یہ ازبکستان میں تاحال پاپولر ہیں‘ صدر کے عہدے کےلئے چار امیدوار تھے‘ صدر اسلام کریموف بھی الیکشن لڑ رہے تھے‘ ان کے علاوہ نریمان عمروف امیدوار تھے‘ یہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں‘ حاتم جان کتمانوف پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار تھے اور اکمل صیدوف ڈیموکریٹک پارٹی آف ازبکستان کے امیدوار تھے‘ ازبکستان 12 صوبوں اور ایک نیم خود مختار علاقے قراقل پاکستان پر مشتمل ہے‘ وفاقی دارالحکومت تاشقند کو بھی صوبے کی حیثیت حاصل ہے یوں ازبکستان میں 14 انتظامی یونٹس ہیں‘ ان 14 یونٹس میں نو ہزار 60 الیکشن سنٹر بنائے گئے‘ کل ووٹرز 2 کروڑ 8 لاکھ 79 ہزار 52 ہیں۔
مجھے پانچ دنوں میں ازبکستان کے الیکشن سسٹم کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملااور میں ازبکستان کے سنٹرل الیکشن کمیشن کی کارکردگی کی تعریف پر مجبور ہو گیا‘ ازبک لوگ الیکشن سنٹر کو الیکشن پریسنگ کہتے ہیں‘ یہ پریسنگ ہماری طرح سکولوں‘ کالجوں‘ سرکاری عمارتوں اور بعض شہروں اور قصبوں میں پرائیویٹ عمارتوں میں قائم کئے جاتے ہیں‘ میں نے پریسنگ میں پانچ اہم چیزیں دیکھیں‘ پریسنگ میں بچوں کا کمرہ تھا‘ یہ کھلونوں سے بھرا ہوا کمرہ تھا‘ اس میں جھولے بھی تھے اور بچوں کے بیڈ بھی۔ ایک‘ ملک کے ہر پریسنگ میں بچوں کا کمرہ تھا‘ یہ کمرہ چھوٹے بچوں اور ان کی ماﺅں کےلئے تھا‘ مائیں بچوں کو اس کمرے میں چھوڑتی تھیں اور ووٹ دینے کےلئے قطار میں کھڑی ہو جاتی تھیں‘ بچوں کے کمرے میں بچوں کی نگرانی کےلئے باقاعدہ آیائیں تھیں‘دو‘ ہر پریسنگ میں ابتدائی طبی امداد کا کمرہ بھی تھا‘ یہ میڈیکل سنٹر عارضی طور پر بنایا گیا تھا اور اس کا مقصد ایمرجنسی کی صورتحال میں ووٹروں کو ابتدائی طبی امداد دینا تھا‘ تین‘ پریسنگ میں ایک طویل وائیٹ بورڈ لگاتھا جس پر حلقے کے تمام ووٹرز کے نام‘ شناختی کارڈ نمبر اور ووٹر نمبر درج تھے‘ آپ کسی بورڈ کے سامنے کھڑے ہو کر حلقے کے تمام ووٹرز کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے تھے‘ چار‘بیلٹ باکس ڈبے کی بجائے ڈرم جیسا تھا‘یہ ڈرم سامنے سے شفاف تھا‘ پورے حلقے کے ووٹرز کےلئے ایک ڈرم کافی تھا‘ یہ اچھا انتظام تھا کیونکہ دوسرا بیلٹ باکس نہیں ہو گا تو جعلی ووٹ بھی نہیں نکلیں گے اور پانچ‘ ووٹنگ کا وقت صبح چھ سے رات دس بجے تک تھا‘ حکومت نے ووٹروں کی سہولت کےلئے تین دلچسپ انتظامات کر رکھے تھے‘ ازبکستان کے تمام سفارت خانوں میں ووٹ ڈالنے کا بندوبست تھا‘ دنیا کے دوسرے ممالک میں موجود ازبک شہریوں نے ان ملکوں میں اپنے اپنے اپنے سفارت خانوں میں ووٹ کاسٹ کئے‘ وہ لوگ جو الیکشن کے دن ملک میں موجود نہیں تھے وہ 19 مارچ سے 29 مارچ تک اپنا ووٹ ڈال سکتے تھے‘ یہ لوگ اپنے علاقے کی پریسنگ میں جاتے تھے‘ اپنا ووٹ حاصل کرتے تھے‘ امیدوار کے نام پر مہر لگاتے تھے‘ ووٹ لفافے میں بند کر کے اس پر سیل لگاتے تھے اور یہ سیل شدہ لفافہ انچارچ کے پاس چھوڑ جاتے تھے‘ 29 مارچ کے دن پریسنگ انچارج نے چاروں امیدواروں کے نمائندوں کے سامنے یہ لفافے کھولے اور ووٹ بیلٹ باکس میں ڈال دیئے‘ الیکشن کمیشن نے بیماروں‘ انتہائی بوڑھوں اور ہسپتالوں میں داخل مریضوں کےلئے بھی ووٹنگ کا بندوبست کر رکھا تھا‘ ملک کی ہر پریسنگ میں ایک سیل شدہ ڈبہ تھا‘ الیکشن کا عملہ یہ سیل شدہ ڈبہ لے کر ہسپتالوں‘ محلوں اور گھروں میں جاتا تھا اور مریضوں اور بوڑھوں کو ووٹ کی سہولت دیتا تھا‘ الیکشن کمیشن نے مبصرین کےلئے بریفنگ کا بندوبست کیا‘ یہ بریفنگ پریس سنٹر میں ہوئی‘ الیکشن کے دن مبصرین اور میڈیا کو تین بار پریس سنٹر بلایا گیا‘ بریفنگ الیکشن کمشنر مرزا الغ بیگ نے دی‘ یہ بریفنگ مکمل طور پر ازبک زبان میں تھی‘ فارن میڈیا اور غیر ملکی مبصرین کو ساﺅنڈ سسٹم دے دیئے گئے‘ ساﺅنڈ سسٹم میں تین زبانوں کا آپشن تھا‘ ہم لوگ اپنی مرضی کی زبان میں بریفنگ کا ترجمہ سنتے رہے‘ بریفنگ کے دوران کسی قسم کے سوال کی اجازت نہیں تھی‘ الیکشن کمشنر بریفنگ دیتا تھا اور بریفنگ ختم ہو جاتی تھی‘ ملک کے 14 ریجن کے انچارج بھی وڈیو لنک کے ذریعے بریفنگ میں موجود ہوتے تھے‘ الیکشن کمشنر جس انچارج کو کہتا تھا وہ وڈیو لنک کے ذریعے اپنے ریجن کی بریفنگ دینے لگتا تھا‘ میڈیا یہ بریفنگ براہ راست نشر کر رہا تھا‘ یہ بندوبست بھی اچھا تھا کیونکہ اس سے وقت بھی بچا اور قوم بھی کنفیوژن سے پاک رہی‘ ہماری بریفنگ میں بریفنگ کم اور سوال زیادہ ہوتے ہیں‘ یہ سوال بریفنگ کا رخ بھی تبدیل کر دیتے ہیں اور فضا کو بھی خراب کر دیتے ہیں‘ ہم اپنے صحافی بھائیوں کو اکثر ریلوے کے وزیر سے خارجہ امور کے سوال پوچھتے اور وزیر خارجہ سے ”لوڈ شیڈنگ کب ختم ہو گی اور جوڈیشل کمیشن کب بنے گا“ جیسے سوال کرتے دیکھتے ہیں‘ یہ غیر متعلقہ سوال اور ان غیر متعلقہ سوالوں کے جواب ملک میں کنفیوژن پھیلاتے ہیں‘ ازبکستان میں الیکشن بریفنگ کے دوران کسی سوال کی اجازت نہیں تھی چنانچہ وہاں اس دن کوئی کنفیوژن پیدا ہوئی اور نہ ہی کوئی بریکنگ نیوز چلی‘ ہماری حکومت کو بھی کوئی ایسا فارمولا طے کرنا چاہیے جس کے ذریعے ہماری بریفنگ صرف بریفنگ رہے‘ یہ پریس کانفرنس نہ بنے اور پریس کانفرنس ‘ پریس کانفرنس ہو یہ بریفنگ نہ بن جائے‘ ہم لوگ انگریزی بولنے کے خبط میں بھی مبتلا ہیں‘ ہمارے حکمران ہر بریفنگ اور ہر پریس کانفرنس میں انگریزی بولنے کی کوشش کرتے ہیں اور اچھے خاصے نالائق ثابت ہوتے ہیں‘ ازبکستان میں کسی بریفنگ میں انگریزی نہیں بولی گئی‘ میں سنٹرل الیکشن کمیشن میں الیکشن کمشنر سے ملاقات کےلئے گیا‘ الیکشن کمشنر مرزا الغ بیگ پڑھے لکھے انسان ہیں‘ یہ تین سینئر ممبرز کے ساتھ میرے سامنے بیٹھ گئے‘ یہ لوگ ازبک زبان میں بات کرتے رہے‘ میرا ترجمان اس کا انگریزی میں ترجمہ کردیتا تھا‘ میں انگریزی میں جواب دیتا تھا اور ترجمان اس کا ازبک میں ترجمہ کر دیتا تھا‘ ہماری اس کمیونیکیشن سے الیکشن کمشنر کی بے عزتی ہوئی اور نہ مجھے کوئی دقت یا کوفت ہوئی‘ ہم ایسا کیوں نہیں کرتے؟ہم اپنی زبان سے اتنے شرمندہ کیوں ہیں؟ میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا۔
یہ الیکشن بھی صدر اسلام کریموف 90 اعشاریہ 39 فیصد ووٹ لے کر جیت گئے‘ یہ اسلام کریموف کی مقبولیت کا ثبوت ہے‘ کریموف ازبکستان میں بہت پاپولر ہیں‘ یہ کیوں پاپولر ہیں‘ میں پانچ دن لوگوں سے یہ سوال پوچھتا رہا‘ ازبکستان غریب اسلامی ملک ہے‘ کرنسی زمین کو چھو رہی ہے‘ آپ ایک امریکی ڈالر دیتے ہیں اور آپ کو اوپن مارکیٹ سے چار ہزار ازبک سم ملتے ہیں‘ آپ چار ہزار سم کے کاغذ کا ریٹ نکالیں تو یہ نوٹوں کی مالیت سے تین گنا زیادہ ہو گا‘ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ تنخواہ تین سے چار سو ڈالر ہے لیکن اس کے باوجود اسلام کریموف مقبول ہیں‘ کیوں؟ پہلی وجہ امن تھا‘ اسلام کریموف ملک میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ‘ ازبکستان دنیا کے ان چند اسلامی ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں لاءاینڈ آرڈر کا کوئی مسئلہ نہیں‘ آپ دن ہو یا رات ملک کے کسی حصے میں نکل جائیں آپ کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا‘ ملک میں جرائم اور اسلحہ زیرو پرسنٹ ہے‘ اسلام کریموف نے ملک میں لبرل اور مذہبی دونوں طبقوں کو قابو میں رکھا ہوا ہے‘ لبرل مسجد پر اعتراض نہیں کر سکتے اور مذہبی لوگ موسیقی‘ رقص اور شراب خانوں کی طرف انگلی نہیں اٹھا سکتے‘ مساجد اور مدارس حکومتی کنٹرول میں ہیں‘ ملک میں کھانے پینے کی اشیاءکی فراوانی ہے ‘ یہ اشیاءسستی بھی ہیں اور ملک میں بجلی‘ گیس اور پانی کی سہولتیں پوری آبادی کو یکساں حاصل ہیں اور یہ بھی بہت سستی ہیں چنانچہ لوگ اسلام کریموف سے خوش ہیں۔ یہ 77 سال کی عمر میں عوام کے سامنے رقص بھی کر لیتے ہیں اور لوگ انہیں ناچتا دیکھ کر خوش بھی ہوتے ہیں چنانچہ یہ جیت گئے۔