ویل پلیڈ عمران خان

8  جولائی  2014

کراچی یونیورسٹی میں 11 جون 1978ء کو ایک چھوٹی سی تنظیم بنی‘ اس تنظیم کا نام آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن تھا اور یہ تنظیم ’’ اردو سپیکنگ‘‘ سٹوڈنٹس نے پختون‘ بلوچ‘ سندھی اور پنجابی طالب علموں کا زور توڑنے کیلئے بنائی تھی ‘ کراچی یونیورسٹی کے طالب علم رہنما الطاف حسین اس تنظیم کے محرک تھے‘ یہ پاکستان میں مہاجروں کی پہلی تنظیم تھی‘

اس میں شامل طلباء کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے تھا اور اس نے شروع میں مہاجرین کی عزت نفس کی بحالی کیلئے بڑا کام کیا‘ جنرل ضیاء الحق سندھ سے پیپلز پارٹی کے اثرات ختم کرنا چاہتے تھے چنانچہ حکومت مہاجر طلباء کی اس تنظیم کو پھلنے پھولنے کا موقع دینے لگی‘ 80ء میں یہ تنظیم یونیورسٹی سے نکلی اور کراچی شہر کی گلیوں اور محلوں میں داخل ہو گئی‘اس مرحلے میں الطاف حسین کی شناخت تبدیل ہوئی‘ وہ الطاف بھائی ہوئے اور ان کا گھر سیاست کا نائین زیرو بن گیا‘الطاف بھائی نے 18 مارچ 1984ء کو اس تنظیم کو مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کا نام دے دیا‘ ایم کیو ایم نے الیکشن لڑنے شروع کئے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے کراچی اور حیدر آباد کی سیاسی وارث بن گئی ‘ اسی دوران ایم کیوا یم کے نوجوانوں نے اسلحے کا کھلے عام استعمال شروع کیا اور اس کے نتیجے میں کراچی شہر ایم کیو ایم کے خوف کا شکار ہوگیااور شہر میں روزانہ تیس چالس پچاس نعشیں گرنے لگیں‘ایم کیو ایم نے اس دور میں فوج کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا جس کے نتیجے میں 19 جون 1992ء میں کراچی میں فوجی آپریشن شروع ہوا‘ ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف بھائی لندن جلا وطن ہوئے اور انہوں نے ایجویئر میں ایم کیو ایم کا انٹرنیشنل سیکرٹریٹ بنا لیا اورلندن سے کراچی کو کنٹرول کرنے لگے‘ ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن 1996ء تک جاری رہا‘

اس دوران فوج‘ پولیس‘ رینجرز اور جنرل نصیر اللہ بابر نے ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکن گرفتار کئے اور سینکڑوں کو پولیس مقابلوں میں قتل کردیا لیکن اس کے باوجود کراچی ایم کیو ایم کے قبضے میں رہا اور الطاف بھائی کی اجازت کے بغیر اس شہر میں پتہ بھی نہیں ہلتا تھا‘ 26 جولائی1997ء کو الطاف بھائی نے مہاجر کے لفظ کو متحدہ سے تبدیل کردیا جس کے بعد ایم کیو ایم متحدہ قومی موومنٹ ہو گئی اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی اس کے دفاتر کھلنے لگے‘

2007ء کے ابتدائی مہینوں تک پنجاب‘ صوبہ سرحد‘ بلوچستان اور آزاد کشمیر میں بھی ایم کیو ایم کے جھنڈے اور جلسے جلوس نظر آنے لگے اور یوں محسوس ہونے لگا ایم کیو ایم چند برسوں میں پورے ملک میں پھیل جائے گی‘ 2007ء کے شروع میں اسلام آباد میں ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینئر فاروق ستار سے میری ملاقات ہوئی تھی جس میں انہوں نے فرمایا تھا ’’ہم آئندہ الیکشن میں پورے پاکستان میں اپنے امیدوار کھڑے کریں گے‘

یہ امیدوار لوئر مڈل کلاس کے پڑھے لکھے نوجوان ہوں گے اور یہ ملک کے امیر سیاستدانوں اور وڈیروں کو ہلا کر رکھ دیں گے‘‘ یہ ایم کیو ایم کا سیاسی ایجنڈا تھا لیکن پھر اس دوران ایک واقعہ پیش آیا اوراس واقعے کے نتیجے میں نہ صرف ایم کیو ایم کا پھیلاؤ رک گیا بلکہ اس کے خوف کے طلسم میں بھی دراڑیں آگئیں‘ یہ واقعہ 12 مئی 2007ء تھا‘ اس دن سپریم کورٹ کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بار سے خطاب کیلئے کراچی اترے تھے اور ایم کیو ایم نے ان کا راستہ روکنے کا اعلان کیا تھا‘

اس دن شہر میں ہنگامے ہوئے اور ان ہنگاموں میں 42 افراد ہلاک اور ڈیڑھ سو زخمی ہوگئے‘ ایم کیو ایم کی یہ ’’ مسلح جدوجہد‘‘ عوام نے ٹیلی ویژن سکرین پر دیکھی اوریوں پہلی مرتبہ ایم کیو ایم کو نہ صرف عوام بلکہ اپنے کارکن کی طرف سے بھی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا‘عمران خان کی زندگی کا بڑا حصہ عوام میں گزرا تھا‘ وہ عوامی جذبات کو سمجھتے تھے لہٰذا وہ فوراً عوامی نفرت کو بھانپ گئے‘ وہ گھر سے نکلے اور انہوں نے ایم کیو ایم کو للکار دیا‘

عمران خان نے پورے پاکستان کے دورے کئے ‘ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف تقریریں کیں اور الطاف حسین کے خلاف برطانوی عدالت میں کیس دائرکیا‘ عمران خان کے اس اقدام کے چار نتائج برآمد ہوئے‘ ایک عمران خان کے سیاسی قد میں کئی گنا اضافہ ہوا‘ دو ایم کیو ایم کی توسیع کا عمل رک گیا‘ پنجاب‘ سرحد‘ بلوچستان اور آزاد کشمیر میں ایم کیو ایم کے جلسے اور دفاتر بند ہوگئے ‘تین ایم کیو ایم کا خوف ٹوٹ گیا‘عوام کو معلوم ہو گیا ایم کیو ایم کا مقابلہ بھی کیا جا سکتا ہے‘

عوام کے اس ادراک کے نتیجے میں ایم کیو ایم دفاعی پوزیشن پر آگئی اور چار تیس برسوں میں پہلی بار میڈیا نے کھل کر ایم کیو ایم کا پوسٹ مارٹم شروع کردیا چنانچہ ایم کیو ایم سنجیدگی سے اپنے سیاسی تجزیے پر مجبور ہوگئی‘ یہ عمران خان کی پہلی سیاسی فتح تھی۔ عمران خان کی دوسری بڑی سیاسی فتح کا دن 14 نومبر2007ء تھا‘ جماعت اسلامی پاکستان کی پہلی مذہبی سیاسی جماعت ہے‘ اس نے 23 دسمبر 1947ء کو اسلامی جمعیت طلباء کے نام سے طلباء تنظیم کی بنیاد رکھی تھی‘

اسلامی جمعیت طلباء پاکستان میں طلباء کی قدیم اور وسیع ترین تنظیم تھی‘ پاکستان کے تقریباً تمام شہروں اور تمام چھوٹے بڑے کالجوں میں جمعیت کے کارکن اور دفاتر موجود ہیں لیکن پنجاب یونیورسٹی پچھلے چالیس برسوں سے جمعیت کا ہیڈ کوارٹر چلا آرہا تھا اور طلباء اور طالبات کے داخلوں سے لے کر اساتذہ کی تقرریوں اور دھوبی گھاٹوں میں صابن کے برانڈ سے لے کرکینٹینوں پر بکنے والے کیک رسوں تک یونیورسٹی کے تمام فیصلے جمعیت کرتی تھی‘

جمعیت وہ جماعت تھی جس نے ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو تک کو یونیورسٹی میں تقریر نہیں کرنے دی تھی‘ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کا ہولڈ کراچی میں ایم کیو ایم کے قبضے سے ملتا جلتا تھا‘کراچی میں جس طرح ایم کیو ایم کا نام دہشت کی علامت تھابالکل اسی طرح پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے خوف کا سکہ چلتا تھا اور جمعیت کے کارکن ’’ بھائیوں ‘‘ کی دھمکیاں دے کر بھتہ تک وصول کرتے تھے‘ لوگ پنجاب یونیورسٹی کو جمعیت کا نائن زیرو بھی کہتے تھے لیکن پھر چالیس برس بعد جمعیت کی تاریخ میں 14 نومبر کا دن طلوع ہوا ‘

عمران خان اپنی روپوشی توڑ کر پنجاب یونیورسٹی میں داخل ہوئے‘ جمعیت کو ان کی یہ حرکت پسند نہ آئی‘ جمعیت کے کارکنوں نے ان پر تشدد کیا‘ انہیں ایک گھنٹہ کمرے میں بند رکھا اور بعد ازاں پولیس کے حوالے کردیا‘ پولیس نے ان پر دہشت گردی کا مقدمہ بنایا اور انہیں ڈی جی خان منتقل کردیا‘ عمران خان کے اس اقدام کے بھی چار نتائج برآمد ہوئے‘ عمران کے سیاسی قد میں مزید اضافہ ہوا‘ وہ 12 مئی کو قومی سطح کے سیاستدان بنے تھے اور 14 نومبر نے انہیں بین الاقوامی سیاستدان بنا دیا‘

آج عمران خان کی رہائی کیلئے امریکہ‘ جاپان اور یورپ تک میں احتجاج ہو رہا ہے اور عالمی میڈیا انہیں صدر مشرف سے زیادہ کوریج دے رہا ہے ‘ دوم لوگوں کے دلوں میں جمعیت کا خوف ختم ہوگیا‘ پنجاب یونیورسٹی میں چالیس برس بعدآج چار چار ہزار طلباء اور طالبات جمعیت کے خلاف ریلیاں نکال رہی ہیں‘ پنجاب یورنیورسٹی میں گو جمعیت گو کے نعرے لگ رہے ہیں‘ پورے ملک کے نوجوان عمران خان زندہ باد اور جمعیت مردہ باد پکار رہے ہیں اور پہلی بار جمعیت کے کارکنوں کو اپنے دفتر اور کمرے بند کرکے یونیورسٹی سے فرار ہونا پڑرہا ہے‘

سوم جمعیت کے اس اقدام سے جماعت اسلامی دفاعی پوزیشن پر آ گئی‘ جماعت کے اندر سے لوگوں نے اس اقدام کی مذمت کی اور لوگوں نے کھل کر جماعت اسلامی کو حکومت کی بی ٹیم کہنا شروع کردیا اور چہارم چالیس برسوں میں پہلی بار میڈیا نے جمعیت کے خلاف کھل کر لکھنا شروع کردیا‘ اس وقت پاکستان کا کوئی ایسا اخبار نہیں جس میں جمعیت اور جماعت اسلامی کے خلاف مضامین نہ چھپ رہے ہوں اور آپ بدقسمتی دیکھئے جماعت اسلامی آج اس صورتحال پر وضاحت تک کی پوزیشن میں نہیں رہی‘

یہ عمران کی دوسری بڑی سیاسی فتح تھی۔عمران خان کی سیاست اب تیسرے فیز میں داخل ہو چکی ہے‘ عمران خان اس وقت پاکستان کے پہلے سیاستدان ہیں جس نے ڈیرہ غازی خان جیل میں ججوں کی بحالی کیلئے بھوک ہڑتال کی‘ آپ دلچسپ امر ملاحظہ کیجئے تین نومبر کے بعد پاکستان کے تمام سیاستدانوں نے صدر مشرف پر وردی‘ ایمرجنسی اور الیکشنوں کیلئے دباؤ ڈالا لیکن کسی جماعت اور کسی سیاستدان نے نظر بند ججوں کی رہائی اور بحالی کا مطالبہ نہیں کیا‘

عمران خان وہ پہلے لیڈر ہیں جس نے بھانپ لیا عوام ان ججوں کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں چنانچہ انہوں نے ججوں کیلئے بھوک ہڑتال کر دی‘ مجھے محسوس ہوتا ہے عمران خان کا یہ تیسراسیاسی قدم ملک میں ایمرجنسی ‘ وردی اور صدارت کا خوف ختم کردے گا‘ آنے والے چند دنوں میں کوئی دن طلوع ہوگا اور یہ دن بھی 12 مئی اور 14 نومبر کی طرح یاد گار ہو جائے گا اور خوف کا تیسرا اورآخری قلعہ بھی ٹوٹ جائے گا‘ مجھے محسوس ہو رہا ہے عمران خان سیاست کو ایک اچھے بیٹسمین کی جرأت‘ ایک شاطر باؤلر کی چالاکی اور ایک ورلڈ لیول کپتان کی معاملہ فہمی سے کھیل ر ہے ہیں‘ عمران خان دو ٹیسٹ میچ جیت چکے ہیں اور وہ اب فائنل کھیل رہے ہیں‘ مجھے یقین ہے اس میچ کی پہلی وکٹ گرنے کی دیر ہے اورپوری قوم پکار اٹھے گی ’’ ویل پلیڈ عمران خان ‘‘۔



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…