پرشین فالٹ

2  جولائی  2014

ایران کے قالین باف دنیا بھر میں مشہور ہیں‘ یہ لوگ ہزاروں برس سے اس فن سے وابستہ ہیں‘ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے قبل ایران میں ایسے ایسے قالین باف ہوتے تھے جو اپنی انگلیوں سے دھاگوں کی برف‘ بادل‘ بارش اور دریا بنا دیتے تھے اور یہ دریا اتنے مکمل ہوتے تھے کہ لوگ قالین پر پاؤں رکھنے سے قبل اپنے تہبند گھٹنوں تک اٹھا لیتے تھے‘ یہ لوگ دھاگوں سے ایسی برف بناتے تھے کہ لوگوں کو ان قالینوں پر بیٹھ کر باقاعدہ سردی لگتی تھی‘

یہ قالین عموماً بادشاہوں‘ ملکاؤں‘ شہزادوں اور شہزادیوں کیلئے بنائے جاتے تھے اور یہ لوگ ان کے عوض سونے کی ہزاروں اشرفیاں پاتے تھے‘ یہ قالین باف قالین بننے کے بعد اسے شہر کی مرکزی گلی میں ٹانک دیتے تھے‘ لوگ آتے تھے‘ قالین دیکھتے تھے اور فن کار کی فنکاری کی تعریف کرتے تھے‘ جب پورا شہر اس قالین کی تعریف کر چکتا تو یہ لوگ کوئی تیز نوکیلا اوزار لیتے اور قالین کا کوئی کونا‘ کوئی مورت اور کوئی منظر کاٹ دیتے‘ قالین تھوڑا سا بدصورت یا بدشکل ہو جاتا تھا‘ لوگ ہمیشہ اس حرکت پر انہیں لعنت ملامت کرتے تھے لیکن قالین بافوں کا خیال تھا کائنات میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات مکمل اور پرفیکٹ ہے اور اگر ان کا قالین مکمل اور پرفیکٹ ہو گا تو یہ اللہ کی ذات میں شرک ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس شرک پر ان کے ساتھ ناراض ہو جائے گا چنانچہ وہ ہمیشہ شرک کے گناہ سے بچنے کیلئے اپنے مکمل اور خوبصورت قالین کو بدصورت اور نامکمل بنا دیتے تھے‘ مؤرخین نے قالین بافوں کی اس روایت کو ’’ پرشین فالٹ‘‘ کا نام دیا‘ مؤرخین کا خیال تھا جس طرح ایران کے قالین باف جان بوجھ کر قالین میں کوئی کمی یا فالت چھوڑ دیتے تھے بالکل اسی طرح دنیا کے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کمی‘ کوئی فالٹ موجود ہوتا ہے اور یہ فالٹ بعد ازاں اس شخص کے زوال‘ خاتمے اور انجام کا باعث بن جاتا ہے‘

اور دنیا میں صرف وہی شخص عقل مند اور سمجھ دار ہوتا ہے جو نہ صرف اپنے فالٹ کو سمجھ لے بلکہ اس کے نقصان سے بچنے کی کوشش کرے‘ جو شخص اس کوشش میں کامیاب ہو جائے وہ دنیا میں کامران ہو جاتا ہے اور جو اس کوشش میں ناکام ہو جائے وہ خسارے میں رہتا ہے۔ مجھے یہ حقیقت پاکستان کے ایک نامور صحافی اور دانشور ملک صاحب نے بتائی تھی ‘ یہ 1997ء کی بات تھی‘ میں روزنامہ پاکستان میں میگزین ایڈیٹر تھا‘ میں کبھی کبھار کالم بھی لکھتا تھا‘ مجھے ایک دن ملک صاحب کا فون آیا‘

یہ میاں نواز شریف کی حکومت تھی‘ ملک 1993ء سے 1996ء تک پاکستان مسلم لیگ کے میڈیا سیل میں سید مشاہد حسین کے ساتھ کام کرتے رہے تھے‘ 1996ء کے آخر جب میاں نواز شریف کی حکومت آئی تو میاں صاحب نے ملک صاحب کو پی ٹی سی ایل کا میڈیا ایڈوائزر بنا دیا‘ ملک صاحب کو ایک وسیع اور خوبصورت دفتر‘ چار پانچ ٹیلی فون اور دو گاڑیاں دے دی گئیں‘ ملک صاحب ان نوازشات پر بہت خوش تھے‘ ملک صاحب نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور انہوں نے مجھے بتایا تم بنیادی طور پر کالم نگار ہو چنانچہ تمہیں فوری طور پر کالم لکھنا چاہیے‘

مجھے ان کی آبزرویشن سے اتفاق نہیں تھا کیونکہ میں ایک نیم دیہاتی شخص تھا جسے اردو لکھنی آتی تھی اور نہ ہی بولنی لیکن ملک صاحب کا اصرار تھا میرے اندر ایک بہت بڑا کالم نگار چھپا ہوا ہے‘ میری اس کے بعد ان سے ملاقاتیں شروع ہوگئیں اور انہی ملاقاتوں کے دوران میں کالم نگار بن گیا‘ ملک صاحب نے ’’ خبریں‘‘ اخبار میں میرا کالم شروع کرا دیا جس کے بعد میری ان کے ساتھ روزانہ ملاقات ہونے لگی ‘ میں ملک صاحب کے ٹیلنٹ‘ شخصیت اور مطالعے پر حیران تھا‘

اللہ تعالیٰ نے ان کی شخصیت میں بڑی جاذبیت رکھی تھی‘ وہ بات کرنے‘ بات سمجھانے اور دوسرے شخص کو قائل کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھے‘ وہ بے تہاشہ خوبصورت لکھتے تھے اور اس سے کہیں سے زیادہ اچھا بولتے تھے‘ میں نے ان کی بے شمار کتابیں چوری کیں ‘ وہ مجھے اپنا ’’ بچہ جمہورا‘‘ کہتے تھے لیکن پھر 1999ء آیا اور میرے ان کے ساتھ اختلافات پیدا ہوگئے اوریہ اختلافات 30 اپریل 2008ء ان کے قتل تک جاری رہے‘

میں ان اختلافات کا ذکر تو اگلی سطروں میں کروں گا لیکن سردست میں آپ کو بتاتا چلوں یہ اختلافات محض اختلافات تھے دشمنی نہیں‘ میں تین چار ماہ بعد انہیں فون کرتا تھا اور ’’ بابا جی‘‘ کا نعرہ لگا کر پوچھتا تھا ’’ سکور کتنا ہوا ہے؟‘‘ اور وہ اس کے جواب میں ایک لمبا سا قہقہہ لگاتے تھے اور کبھی وہ مجھے فون کرتے تھے اور کہتے تھے ’’ بچے جمہورے میں برا انسان ہوں لیکن دس کروڑ برے انسانوں سے برا نہیں ‘‘ اور میں بھی ایک قہقہہ لگاتا تھا۔

میں اب آتا ہوں اختلافات کی طرف‘ ملک صاحب حقیقتاً ایک باصلاحیت اور ٹیلنٹڈ شخص تھے لیکن ان کی ذات میں دو بہت بڑے ’’ پرشین فالٹ‘‘ تھے‘ پہلا پرشین فالٹ حکمران تھے‘ وہ 1999ء میں ایوان اقتدار میں داخل ہوئے تھے‘ انہوں نے وزیراعظم ‘ وزراء اور سیکرٹریوں کے ساتھ ملاقاتیں شروع کیں اور وہ وزیراعظم اور صدر کے طیارے میں بیٹھنے لگے جس کے بعد انہیں حکمرانوں کے کروفر‘ اختیارات اور طاقت کا اندازہ ہوا اور ان اختیارات نے ان کی آنکھیں خیرا کر دیں اور وہ صحافی سے حکمرانوں کے ’’ منشی‘‘ بن کر رہ گئے‘

1999ء میں میاں نواز شریف کی حکومت برطرف ہوئی تو حکومت کے ساتھ شامل لوگ بھی ’’ برطرف ‘‘ ہوگئے‘ ملک صاحب کا عہدہ ‘ دفتر اور مراعات چھن گئیں‘ وہ اس وقت تک ان تمام مراعات کے عادی ہو چکے تھے چنانچہ ان کیلئے اپنا لیونگ سٹینڈرڈ نبھانا مشکل ہو گیا‘ ان کی اس مجبوری نے انہیں نئے حکمرانوں سے سمجھوتے پر مجبور کر دیا‘ وہ پہلے چودھری شجاعت کے خفیہ میڈیا ایڈوائزر بنے‘ میر ظفر اللہ جمالی کی حکومت آئی تو وہ ان کے لئے خدمات سرانجام دینے لگے‘

شوکت عزیز وزیراعظم بنے تو وہ اس کے ’’ قلمی ساتھی‘‘ بن گئے اور جب آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کی عنان سنبھالی تو ملک صاحب زرداری ہاؤس شفٹ ہوگئے‘ یہ ملک صاحب کا پہلا پرشین فالٹ تھا اور اس فالٹ نے پاکستان کے ایک بہترین صحافی‘ کالم نگار اور دانشور کو حکمرانوں کا منشی بنا دیا‘ ملک صاحب کا دوسرا پرشین فالٹ ’’ خواتین‘‘ تھیں‘ ملک صاحب ایک شدید نفسیاتی اور روحانی بحران کا شکار تھے اور وہ اس بحران کو ’’ خواتین‘‘ کے ذریعے پر کرنے کی کوشش کرتے تھے‘

اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک مقناطیسی کشش دے رکھی تھی‘ وہ گفتگو کرنے اور لبھانے کے فن کے ماہر تھے چنانچہ وہ بہت جلد خواتین کو متاثر کر لیتے تھے‘ ملک صاحب کے اس فن کا شکار عموماً نوجوان لڑکیاں بنتی تھیں‘ ملک صاحب کی عمر جوں جوں زیادہ ہو رہی تھی ان کا یہ شوق جنون کی شکل اختیار کرتا جا رہا تھا‘ میں ان کے ساتھ وابستہ تھا‘ میں نے ان کے دونوں ’’ پرشین فالٹس‘‘ کی نشاندہی کی اور انہیں سنبھلنے کا مشورہ دیا لیکن ملک صاحب نے میرے مشورے کو ایک ’’ بچے جمہورے‘‘ کا مشورہ سمجھا چنانچہ میں ان سے دور ہوتا چلا گیا کیونکہ مجھے خطرہ تھا اگر میں ان کے مقناطیسی حلقے میں رہا تو شاید میں ان کا اثر لے لوں‘

ملک صاحب کے ساتھ میری آخری گفتگو فروری میں ہوئی تھی‘ انہوں نے فون کر کے فرمایا ’’ تم میرے لئے شوکت عزیز کے حق میں ایک کالم لکھ سکتے ہو‘‘ میں نے جوں ہی ان کا یہ مطالبہ سنا تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے ان سے عرض کیا ’’ ملک صاحب میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا آپ کی کمزوری آپ کو اس سطح پر لے آئے گی‘‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’ ملک صاحب آپ مجھے درخواست کرتے ہوئے اچھے نہیں لگ رہے‘

آپ میرے سمیت اس ملک کے بے شمار صحافیوں کے استاد ہیں اور استاد کو ہمیشہ اپنے وقار اور عزت نفس کا خیال رکھنا چاہیے‘‘ ملک صاحب خاموشی سے میری بات سنتے رہے ‘ میں خاموش ہوا تو بولے ’’ جاوید تمہاری بات درست ہے لیکن میں سمجھوتوں کی ہیروئن کا شکار ہوچکا ہوں‘ جس طرح ہیروئن کا عادی تیسرا سگریٹ پینے کے بعدزندگی بھر اسے چھوڑ نہیں سکتا بالکل اسی طرح جو شخص دوسرا یا تیسرا سمجھوتہ کرلیتا ہے تووہ سمجھوتوں کا عادی ہو جاتا ہے اور جب کوئی شخص سمجھوتوں کا عادی ہو جاتا ہے تو اس میں اور بھکاری میں کوئی فرق نہیں رہتا اور میں بھکاری بن چکاہوں‘‘

میں نے ملک صاحب کے منہ سے یہ بات سنی تو میں رو پڑا‘ مجھے یقین تھا دوسری طرف ملک صاحب بھی رو رہے ہوں گے۔یہ ملک صاحب 30اپریل کو ایک 22 سالہ خاتون کے ہاتھوں قتل ہوگئے‘ یہ خاتون ان کی تیسری بیوی تھی اور اس نے ملک صاحب کوقتل کرنے کے بعد خودکشی کر لی تھی‘مجھے ایک دوست نے اس سانحے کی اطلاع دی تو میرے منہ سے بے اختیار نکلا ’’ ملک صاحب کو سائرہ خان نے نہیں بلکہ سمجھوتوں نے مارا ہے کہ دنیا داری کے سمجھوتوں کے آخر میں ایک قبرستان ہے اور ملک صاحب جیسے نابغہ روزگار ‘ باصلاحیت اور شاندار لوگ ہمیشہ اس قبرستان تک جا پہنچتے ہیں‘ ملک صاحب ایک ایسے شخص تھے جو اپنے پرشین فالٹ کو سمجھ توگئے لیکن یہ ان سے لڑ نہ سکے‘ یہ اپنی خامیوں کو شکست نہ دے سکے۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…