آپ نے سڑکوں پر ٹیلی ویژن چینلز کی گاڑیاں دیکھی ہوں گی‘ یہ ہائی ایس وین ہوتی ہیں‘ ان کی چھت پر ’’ڈش‘‘ نصب ہوتی ہے‘ آپ اگر کبھی ان ’’وینز‘‘ کے اندر جھانک کر دیکھیں تو آپ کو ان کے اندر بے شمار آلات نظر آئیں گے‘ یہ گاڑیاں ڈیجیٹل سیٹلائٹ نیوز گیدرنگ یا عرف عام میں ڈی ایس این جی کہلاتی ہیں‘ یہ گاڑیاں اینکرز‘ نیوز اینکرز اور رپورٹرز کا ٹیلی ویژن سے مواصلاتی رابطہ استوار کرتی ہیں‘یہ گاڑیاں ٹیلی ویژن کے شعبے میں ہاتھ اور پاؤں کی حیثیت رکھتی ہیں‘ یہ نہ ہوں تو ٹیلی ویژن صحافت معذور ہو جائے‘ جمعہ 17 جنوری کی رات کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں ہماری ایک ڈی ایس این جی کھڑی تھی‘ گاڑی میں ایکسپریس گروپ کے چار کارکن موجود تھے‘ ڈرائیور خالد خان‘ خالد کی عمر 23 سال تھی‘ ٹیکنیشن وقاص عزیز خان‘ وقاص کی عمر 30 سال تھی‘ گارڈ محمد اشرف آرائیں اور کیمرہ مین مہتاب الرحمن۔دو موٹر سائیکل آئے‘ موٹر سائیکلوں سے چار نوجوان اترے‘ پستول نکالے اور ڈی ایس این جی میں بیٹھے ہمارے ساتھیوں پر گولیاں برسا دیں‘ یہ لوگ ہمارے کارکنوں کو شہید کر کے اطمینان سے موٹر سائیکلوں پرسوار ہوئے اور واپس چلے گئے‘ ڈرائیور خالد خان‘ ٹیکنیشن وقاص عزیز خان اور گارڈ محمد اشرف شہید ہو گئے جبکہ کیمرہ مین مہتاب الرحمن گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لیٹے تھے‘ یہ دہشت گردوں کو نظر نہیں آئے لہٰذا یہ بچ گئے‘ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک تھا‘ ایکسپریس میڈیا گروپ اگست 2013ء سے طالبان کے نشانے پر ہے‘ 16 اگست 2013ء کو ایکسپریس کراچی کے آفس پر فائرنگ ہوئی‘ دو افراد زخمی ہوئے‘دو دسمبر کو دوسرا حملہ ہوا‘ حملے میں نصف درجن گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو نقصان پہنچا اور دو افراد زخمی ہوئے اور تیسرا حملہ براہ راست ڈی ایس این جی پرتھا جس میں تین کارکن شہید ہوگئے‘ یہ صحافت پر شب خون تھا۔
ہم نے لائیو ٹرانسمیشن شروع کر دی‘ ٹرانسمیشن کے دوران تحریک طالبان پاکستان (کالعدم) کے ترجمان احسان اللہ احسان نے میرے موبائل فون پر کال کی‘ میں نے سکرین پر ان کا نام دیکھا تو موبائل اپنے پروڈیوسر کو دے دیا‘ میرے پروڈیوسر امان اللہ کی احسان اللہ احسان سے بات ہوئی‘ طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا ’’ ہم ٹی وی پر اپنا موقف پیش کرنا چاہتے ہیں‘‘ میں لائیو ٹرانسمیشن میں بیٹھا تھا‘ مجھ سے پروڈیوسر نے اشارے میں پوچھا‘ میں نے موبائل منگوایا‘ سپیکر آن کیا‘ مائیک سپیکر کے سامنے رکھا اور قوم کو احسان اللہ احسان کی گفتگو سنا دی‘ احسان اللہ احسان نے نہ صرف ایکسپریس پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی بلکہ حملے کی وجوہات بھی بتائیں‘ ان کا کہنا تھا‘ میڈیا (سارا میڈیا) ہمارے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے‘ ہمارا موقف نہیں سنا جاتا‘ میڈیا میں یک طرفہ سٹوریز چلتی ہیں‘ ہمارے لوگ اس رویے پر ناراض ہیں‘ میں نے ان سے پوچھا ’’ کیا آپ کا میڈیا سے صرف اتنا اختلاف ہے‘‘ ان کا کہنا تھا ’’ہاں‘‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’آپ نے غریب اور بے بس لوگوں کو قتل کر دیا‘ آپ کو ڈرائیوروں‘ گارڈز اور ٹیکنیشن کی جان لے کر کیا فائدہ ہوا؟یہ لوگ پورے خاندان کا تنہا سہارا تھے‘‘ احسان اللہ احسان کا کہنا تھا ’’ ہم ان کے خلاف نہیں ہیں‘ ہم ان کی جان نہیں لینا چاہتے‘ ہماری آپ سے صرف ایک ڈیمانڈ ہے‘ آپ توازن رکھیں‘ آپ صرف اپنا کام کریں‘ ہمارے خلاف پروپیگنڈا نہ کریں‘‘ میں نے ان سے عرض کیا ’’ حکومت آپ سے مذاکرات نہیں کر پا رہی لیکن میں میڈیا پرسن کی حیثیت سے آپ سے مذاکرات شروع کرتا ہوں‘ ہم میڈیا میں آپ کا جائز موقف پیش کریں گے‘ آپ پریس ریلیز بھجوائیے‘ ٹیلی فون کیجئے‘ ای میل کیجئے‘ ہم آپ کوجگہ دیں گے لیکن اس کے جواب میں آپ کو گارنٹی دینی ہو گی‘ آپ ملک کے کسی صحافی پر حملہ نہیں کریں گے‘‘ احسان اللہ احسان نے جواب دیا ’’ ہم گارنٹی دیتے ہیں‘ آپ توازن اختیار کریں‘ ہم کسی صحافی کو تکلیف نہیں دیں گے‘‘۔
یہ مکالمہ یہاں پر ختم ہوگیا لیکن سوشل میڈیا پر میرے خلاف ایک نئی مہم شروع ہوگئی‘ ملک کے بہادر ترین‘ غیور ترین اور ایماندار ترین لوگ مجھے بے نام‘ بے نشان اکاؤنٹس سے لعنتی‘ بزدل اور بے ایمان ثابت کر رہے ہیں‘ میں ان تمام غیور‘ بہادر اور ایماندار لوگوں کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں‘ میں تسلیم کرتا ہوں میں ایک بزدل شخص ہوں‘ میں صحافت کے منہ پر کلنک کا ٹیکہ بھی ہوں کیونکہ ایک ایسے ملک جس میں بہادر ریاست جی ایچ کیو کا محاصرہ ختم کرانے کیلئے کالعدم تنظیم کے لیڈر کو جیل سے نکال کر سرکاری ہیلی کاپٹر پر راولپنڈی لاتی ہو‘ وہ محاصرہ کرنے والوں سے مذاکرات کرتے ہوں اور یوں بہادر ریاست اپنی عزت بحال کرتی ہو‘ جس میں بہادر وزیراعلیٰ پنجاب جلسہ عام میں کھڑے ہو کر طالبان سے اپنے عوام کیلئے امان طلب کرتے ہوں‘ جس کی بہادر لیڈر شپ سرکاری بلٹ پروف گاڑیوں اور چھ چھ سو کمانڈوز کے بغیر گھر سے نہیں نکلتی ہو‘ جس کے بہادر لیڈر جمعہ اور عید کی نماز بھی گھر میں پڑھتے ہوں‘ جس کے بہادر صدر‘جرأت مند وزیراعظم اور شجاعت کے پیکر وزراء اعلیٰ‘ گورنرز اور وزراء شہداء کے جنازوں میں شریک نہ ہوتے ہوں‘ جس کے بہادر وزیراعلیٰ اورجرأت مند صوبائی وزراء پشاور کے چرچ اور قصہ خوانی بازار تک نہیں جاتے‘ اعتزاز حسن کے گھر تک نہیں آتے‘ جس کے جرأت مند اور بہادر وزیر داخلہ ایکسپریس نیوز سے ٹیلی فون پر بھی اظہار افسوس نہیں کرتے‘ جس کے غیور اور بہادر سیاستدانوں نے دوبئی‘ لندن اور نیویارک میں گھر بنا لئے ہیں اور یہ وہاں جرأت اور بہادری کے علم بلند کرتے ہیں‘ جس کی بہادر حکومت چھ ماہ سے طالبان سے مذاکرات کی کوشش کر رہی ہے لیکن اسے مذاکرات کرنے والا نہیں مل رہا‘ جس کے بہادر ادارے اپنی امام بارگاہیں بچا پا رہے ہیں اور نہ ہی مسجدیں‘ دفاتر‘ گھر اور کنٹونمنٹ‘ جس کی بہادر جیلیں ٹوٹتی ہیں اور طالبان اپنے 243 ساتھیوں کو گاڑیاں میں بٹھا کر ڈیڑھ ڈیڑھ سو کلو میٹر طے کر کے ٹھکانوں پر پہنچ جاتے ہیں اور کوئی انہیں روکنے کی جرأت نہیں کرتا‘ طالبان جیل میں بیٹھ کر اپنے ساتھیوں کی باقاعدہ دستار بندی کرتے ہیں‘ اس کی ویڈیو جاری کرتے ہیں اور بہادر ریاست خاموشی بیٹھی رہتی ہے‘ جس کی بہادر حکومت صرف ایک دھمکی! جی ہاں صرف ایک دھمکی پر قتل کے تمام مجرموں کی پھانسی معطل کر دیتی ہے‘ جس کی بہادرقیادت لاہور جاتی ہے تو پورا خاندان ساتھ لے جاتی ہے اور اسلام آباد واپس آتی ہے تو پورے خاندان کو طیارے میں بھر کر سرکاری مورچے میں لا بٹھاتی ہے‘جس کے بہادر چیف جسٹس کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بلٹ پروف گاڑی اور وزیراعظم کے برابر پروٹوکول چاہیے اور جس کے بہادر اور غیور امراء نے وزارت داخلہ میں بلٹ پروف گاڑیوں کی’’امپورٹ‘‘ کی درجنوں درخواستیں دے رکھی ہوں اور جس کے سابق صدر اس وقت تک کسی کمرے میں قدم نہ رکھتے ہوں جب تک انھیں اس کے ’’بم پروف‘‘ ہونے کا یقین نہ دلا دیا جائے اور جس میں بلاول جیسا بہادر فیلڈ مارشل بھی صرف ٹویٹر پر اپنی شجاعت کے مظاہرے کرتا ہو‘ اس ملک میں ڈرائیور خالد خان‘ٹیکنیشن وقاص عزیز اور گارڈ محمد اشرف جیسے لوگوں کیلئے طالبان سے مذاکرات کرنا یا احسان اللہ احسان سے بے بس صحافیوں کیلئے امان طلب کرناواقعی کمزوری‘ واقعی بزدلی ہے اور میں نے یہ بزدلی دکھائی‘ میں واقعی مجرم ہوں‘ جس ملک میں حکومتی ادارے اور سیاسی جماعتیں اتنی بہادر ہوں کہ یہ مارنے والوں کے نام تک نہ لیتے ہوں‘ اس ملک میں پوری قوم کے سامنے طالبان سے مذاکرات کی کوشش بزدلی نہیں تو کیاہے؟ جس ملک میں بہادر حکومت چھ چھ ماہ تک طالبان سے رابطہ ہی نہ کر پا تی ہو اس ملک میں میرے جیسے کمزور صحافی کا طالبان سے رابطہ استوار ہو جانا اور مذاکرات شروع کر دینا لعنت‘کمزوری‘ بے ایمانی اور بزدلی نہیں تو کیا ہے ؟ میں بزدل ترین صحافی اس ملک کے ان تمام غیرت مندوں‘ بہادروں‘ اور ایمانداروں سے معافی چاہتا ہوں جنہیں ڈرائیور خالد خان کے اس بیٹے کا نام بھی معلوم نہیں جس نے چھ ماہ قبل آنکھ کھولی اور یہ والد کا نام سیکھے بغیر یتیم ہو گیا اور جنہیں گارٖڈ محمد اشرف کی اس بیوہ کا نام بھی معلوم نہیں جس کی مانگ شادی کے چار ماہ بعد اجڑ گئی اور جو ان غریب صحافیوں کے جذبات سے بھی واقف نہیں ہیں جنہیں اس ملک کے غیرت مند اور بہادر کبھی لفافہ صحافی کہہ دیتے ہیں اور کبھی بھارتی جاسوس لیکن یہ اس کے باوجود برستی بارشوں‘ ٹھٹھرتی راتوں اور پگھلتی دوپہروں میں دوبارہ ڈیوٹی پر آ جاتے ہیں‘ یہ چار ماہ کی بیوہ ‘ چھ مہینے کا بچہ اور یہ بے بس صحافی‘ اس ملک کے غیرت مندوں‘ بہادروں اور ایمانداروں سے صرف ایک سوال پوچھتے ہیں‘اگر ان کا والد‘ ان کا خاوند بزدل تھا اور اگر ڈیوٹی کے دوران سڑکوں پر مارے جانے والے کارکن صحافی بزدل ہیں تو پھر اس ملک میں بہادر کون ہے؟ میں بھی اپنے ان تمام بہادر ناقدین سے ایک سوال کرنا چاہتا ہوں جو بہادری کی معراج پر پہنچ کر دوسروں کو بزدلی کا طعنہ بھی فرضی نام سے دیتے ہیں‘ یہ جواب دیں ’’اگر طالبان سے بات کرنا‘ مذاکرات کرنا‘ ان سے اپنے ساتھیوں‘ اپنے پروفیشن کے غریب کارکنوں کی جان کی گارنٹی مانگنا بزدلی ہے تو کیا وہ تمام لیڈر‘ وہ تما م سیاستدان اور حکومت کے وہ تمام ادارے بزدل نہیں ہیں جو آٹھ مہینے سے مذاکرات کی کوشش کر رہے ہیں‘ جو آج تک طالبان سے رابطہ قائم نہیں کر سکے‘‘۔ حیرت ہے یہ کام اگر چودھری نثار یا عمران خان کریں تو بہادر ہیں‘ میں اپنے ساتھیوں کیلئے کر لوں تو بزدلی ہے‘ واہ جی واہ!۔
میری بزدلی سے اگر کسی ایک بے گناہ پاکستانی کی جان بچ سکتی ہے تو میں یہ طعنہ‘ یہ الزام سہنے کیلئے تیار ہوں‘ آپ بہادر لوگ اپنی بہادری کے جھنڈے گاڑتے رہیں‘ مجھے اپنی بزدلی کے ساتھ خوش رہنے دیں۔
بزدل صحافی کا بہادروں سے ایک سوال
18
جنوری 2014
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں