منگل‬‮ ، 24 دسمبر‬‮ 2024 

ایک جنگ جس میں کفار کی ضرب سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے تو آپ ﷺ نے حضرت عباس ؓ سے کنکریاں لے کر کیا، کیا؟

datetime 16  اکتوبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقب میں خالدؓ بن ولید کی سپہ سالاری میں بنو سلیم کا دستہ مقدمہ الجیش میں تھا۔ ان کے ہاتھ میں علم بھی تھا۔ جونہی یہ دستہ تہامہ کا میدان طے کر کے حنین کی تنگ گھاٹی سے گزرا، دشمن کی فوجوں نے جو درہ کی چوٹی پر گھات لگائے بیٹھی تھیں اپنے سپہ سالار مالک بن عوف کی ہدایت کے مطابق پے بہ پے تیروں کی باڑھ چھوڑ دی۔ ادھر یہ مصیبت کہ دن کا اجالا بھی پوری طرح نہ ابھرا تھا۔ کہ

مسلمانوں میں خلفشار پڑ گیا۔ دشمن کے حملے سے گھبرا کر ادھر ادھر چھٹ گئے۔ بعض بھاگ ہی نکلے، جن کی بد دلی پر ابوسفیان نے ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے کل مکہ جیسا مورچہ فتح کیا تھا کہا ان کے طور طریقوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سمندر سے ادھر نہیں رک سکتے۔ اس وقت ابو سفیان کے چہرے پر تعجب کے آثار تھے۔ تکلم کے وقت ان کے دونوں ہونٹ کھل گئے اور دانت نظر آنے لگے۔اسلامی فوج کے ایک سپاہی (شیبہ بن عثمان بن ابو طلحہ جن کا باپ احد میں مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوا تھا) کی زبان سے نکل گیا آج میں بھی اپنے باپ کے خون کا بدلہ (جناب) محمد سے لے کر رہوں گا! اسی لشکر میں سے کلدہ بن حنبل نے کہا آج سحر باطل ہو گیا کلدہ کی بات صفوان کے کانوں میں پڑی تو اس نے ڈانٹ کر (کلدہ سے) کہا تیرے منہ میں آگ پڑے! بخدا! مجھے خود پر ہوازن کی حکومت سے مرد قریش کی فرماں روائی زیادہ محبوب ہے۔اور ہوازن کی ضرب سے مسلمانوں میں بری طرح ابتری پھیل گئی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم راحلہ پر تشریف فرما تھا۔ فوج کے شکست خوردہ سپاہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزرتے اور بھگدڑ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی نوبت نہ آتی۔اس نازک ساعت میں کیا چارہ کار تھا؟ کیا خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل بیس سالہ قربانی کا ثمرہ اسی لمحہ میں تلف ہونے کو ہے،

یعنی آج کے دن کی فجر کی تاریکی میں ؟ اور ان کے رب نے اپنا دامن ان کے ہاتھ سے جھٹک کر انہیں ہمیشہ کے لئے اپنی نصرت سے محروم فرما دیا ہے، نہیں یہ ایسی نازک ساعت تھی جس کے پیش آنے سے قبل ایک قوم یا تو اپنے مقابل کو ملیا میٹ کر سکتی ہے یا خود کو فنا!پھر اس کے بعد مسلمان رٹ میں لوٹ آئے،لوٹنے والوں کی تعداد لمحہ بہ لمحہ بڑھتی گئی۔ ایک دوسرے کو یوں واپس آتا ہوا دیکھ کر مسلمانوں کے قدم پھر سے

جم گئے۔ کبھی انصار نے اپنے آدمیوں کو اے انصار کہہ کر پکارا اور گاہے اے خزرج! سے انہیں لڑائی جاری کرنے کے لئے بلایا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی کارکردگی کے نظارہ میں مصروف تھے۔ ذرا دیر میں گھمسان کا رن آ پڑا اب مسلمان دشمنوں کو رگید رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بآواز بلند پکار کر فرمایا مسلمانو! ہمت نہ ہارنا۔ لڑائی نے زور پکڑ لیا ہے۔ اللہ نے اپنے رسول سے نصرت کا

جو وعدہ فرمایا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عباسؓ سے فرمایا کنکریوں کی ایک مٹھی مجھے دو۔ اور دست مبارک میں لے کر شاھت الوجوہ کہہ کر دشمنوں کی طرف پھینکیں۔ مسلمان موت سے نڈر ہو کر داد شجاعت دے رہے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ آج کے شہید اپنے زندہ رہنے والوں سے بہتر ہوں گے۔لڑائی نے ہول ناک صورت اختیار کر لی۔ ہوازن بن ثقیف اور ان کے رفیقوں نے یہ سمجھ کر جی چھوڑ دیا کہ مقابلہ پر ڈٹے رہنے کا نتیجہ موت کے سوا کچھ نہیں۔ ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور پیٹھ دکھا کر بھاگ نکلے۔ حوالہ : حیات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: صلحِ حدیبیہ سے وفات ابراہیمؓ تک( محمد حسین ہیکل)

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…