جمعرات‬‮ ، 15 مئی‬‮‬‮ 2025 

ایک جنگ جس میں کفار کی ضرب سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے تو آپ ﷺ نے حضرت عباس ؓ سے کنکریاں لے کر کیا، کیا؟

datetime 16  اکتوبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقب میں خالدؓ بن ولید کی سپہ سالاری میں بنو سلیم کا دستہ مقدمہ الجیش میں تھا۔ ان کے ہاتھ میں علم بھی تھا۔ جونہی یہ دستہ تہامہ کا میدان طے کر کے حنین کی تنگ گھاٹی سے گزرا، دشمن کی فوجوں نے جو درہ کی چوٹی پر گھات لگائے بیٹھی تھیں اپنے سپہ سالار مالک بن عوف کی ہدایت کے مطابق پے بہ پے تیروں کی باڑھ چھوڑ دی۔ ادھر یہ مصیبت کہ دن کا اجالا بھی پوری طرح نہ ابھرا تھا۔ کہ

مسلمانوں میں خلفشار پڑ گیا۔ دشمن کے حملے سے گھبرا کر ادھر ادھر چھٹ گئے۔ بعض بھاگ ہی نکلے، جن کی بد دلی پر ابوسفیان نے ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے کل مکہ جیسا مورچہ فتح کیا تھا کہا ان کے طور طریقوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سمندر سے ادھر نہیں رک سکتے۔ اس وقت ابو سفیان کے چہرے پر تعجب کے آثار تھے۔ تکلم کے وقت ان کے دونوں ہونٹ کھل گئے اور دانت نظر آنے لگے۔اسلامی فوج کے ایک سپاہی (شیبہ بن عثمان بن ابو طلحہ جن کا باپ احد میں مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوا تھا) کی زبان سے نکل گیا آج میں بھی اپنے باپ کے خون کا بدلہ (جناب) محمد سے لے کر رہوں گا! اسی لشکر میں سے کلدہ بن حنبل نے کہا آج سحر باطل ہو گیا کلدہ کی بات صفوان کے کانوں میں پڑی تو اس نے ڈانٹ کر (کلدہ سے) کہا تیرے منہ میں آگ پڑے! بخدا! مجھے خود پر ہوازن کی حکومت سے مرد قریش کی فرماں روائی زیادہ محبوب ہے۔اور ہوازن کی ضرب سے مسلمانوں میں بری طرح ابتری پھیل گئی۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم راحلہ پر تشریف فرما تھا۔ فوج کے شکست خوردہ سپاہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزرتے اور بھگدڑ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی نوبت نہ آتی۔اس نازک ساعت میں کیا چارہ کار تھا؟ کیا خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلسل بیس سالہ قربانی کا ثمرہ اسی لمحہ میں تلف ہونے کو ہے،

یعنی آج کے دن کی فجر کی تاریکی میں ؟ اور ان کے رب نے اپنا دامن ان کے ہاتھ سے جھٹک کر انہیں ہمیشہ کے لئے اپنی نصرت سے محروم فرما دیا ہے، نہیں یہ ایسی نازک ساعت تھی جس کے پیش آنے سے قبل ایک قوم یا تو اپنے مقابل کو ملیا میٹ کر سکتی ہے یا خود کو فنا!پھر اس کے بعد مسلمان رٹ میں لوٹ آئے،لوٹنے والوں کی تعداد لمحہ بہ لمحہ بڑھتی گئی۔ ایک دوسرے کو یوں واپس آتا ہوا دیکھ کر مسلمانوں کے قدم پھر سے

جم گئے۔ کبھی انصار نے اپنے آدمیوں کو اے انصار کہہ کر پکارا اور گاہے اے خزرج! سے انہیں لڑائی جاری کرنے کے لئے بلایا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی کارکردگی کے نظارہ میں مصروف تھے۔ ذرا دیر میں گھمسان کا رن آ پڑا اب مسلمان دشمنوں کو رگید رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بآواز بلند پکار کر فرمایا مسلمانو! ہمت نہ ہارنا۔ لڑائی نے زور پکڑ لیا ہے۔ اللہ نے اپنے رسول سے نصرت کا

جو وعدہ فرمایا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عباسؓ سے فرمایا کنکریوں کی ایک مٹھی مجھے دو۔ اور دست مبارک میں لے کر شاھت الوجوہ کہہ کر دشمنوں کی طرف پھینکیں۔ مسلمان موت سے نڈر ہو کر داد شجاعت دے رہے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ آج کے شہید اپنے زندہ رہنے والوں سے بہتر ہوں گے۔لڑائی نے ہول ناک صورت اختیار کر لی۔ ہوازن بن ثقیف اور ان کے رفیقوں نے یہ سمجھ کر جی چھوڑ دیا کہ مقابلہ پر ڈٹے رہنے کا نتیجہ موت کے سوا کچھ نہیں۔ ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور پیٹھ دکھا کر بھاگ نکلے۔ حوالہ : حیات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: صلحِ حدیبیہ سے وفات ابراہیمؓ تک( محمد حسین ہیکل)

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



7مئی 2025ء


پہلگام واقعے کے بارے میں دو مفروضے ہیں‘ ایک پاکستان…

27ستمبر 2025ء

پاکستان نے 10 مئی 2025ء کو عسکری تاریخ میں نیا ریکارڈ…

وہ بارہ روپے

ہم وہاں تین لوگ تھے‘ ہم میں سے ایک سینئر بیورو…

محترم چور صاحب عیش کرو

آج سے دو ماہ قبل تین مارچ کوہمارے سکول میں چوری…

شاید شرم آ جائے

ڈاکٹرکارو شیما (Kaoru Shima) کا تعلق ہیرو شیما سے تھا‘…

22 اپریل 2025ء

پہلگام مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا چھوٹا…

27فروری 2019ء

یہ 14 فروری 2019ء کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے ضلع…

قوم کو وژن چاہیے

بادشاہ کے پاس صرف تین اثاثے بچے تھے‘ چار حصوں…

پانی‘ پانی اور پانی

انگریز نے 1849ء میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت…

Rich Dad — Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…