اس میں شک نہیں کہ قرآن حکیم دلوں پر اثر کرنے والا اللہ تعالیٰ کا برحق کلام ہے ، خود حق تعالیٰ قرآن کریم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’اگر ہم اسے پہاڑپر نازل کرتے تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو جاتا‘‘۔قرآن حکیم کے اعجازات سے تاریخ بھری پڑی ہے ، اسی قسم کا ایک ایسا واقعہ جس میں الحاد اور کفر کے سرخیلوں پر تلاوت قرآن نے لرزہ طاری کر دیا اور ان کی آنکھوں سے سیل رواں
ایسے بہا کہ خود وہ حیران رہ گئے قارئین کی نظر کیا جا رہا ہے۔یہ تقریباً 1978یا 1979ء کی بات ہے۔ ایک بارمصر کےصدر جمال عبدالناصر سوویت یونین کے سرکاری دورے پر اپنے وزراءکے وفد کے ساتھ گئے۔مذاکرات کا دور چل رہا تھا باتوں باتوں میں سوویت یونین کے صدر نے جمال عبدالناصر سے طنزیہ انداز میں پوچھا: ’’جمال عبدالناصر ہمارے لیے کیا لائے ہو؟‘‘سوویت یونین کمیونسٹ ملک تھا یعنی وہ لوگ اللہ کے وجود سے ہی منکر تھے۔ جمال عبدالناصر نے کچھ دیر سوچا اورپھرمعنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ’’ جب اگلی بار آئوں گا تو آپ کیلئے ایک تحفہ لائوں گا۔‘‘ روسی صدر نے مسکراتے ہوئے کہا ’’میں انتظار کروں گا۔‘‘کچھ عرصہ بعد جمال عبدالناصر دوبارہ سوویت یونین کی دعوت پر اپنے سرکاری وفد کے ساتھ جانے لگے تو انہوں نے حکم دیا کہ قاری عبدالباسط الصمد (جو کہ دنیا کے سب سے مشہور قرآن کے قاری وفات سے پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں اور جن کی تلاوت پوری دنیا میں اب بھی سنی جاتی ہے) کو بلایا جائے اور ان کو اس وفد میں شامل کیا جائے۔ جب وفد سوویت یونین پہنچا اور
پہلے کی طرح جب دونوں صدور آپس میں بیٹھے تو حسب سابق سوویت یونین کے صدر نے پوچھا: ’’جمال عبدالناصر! ہمارے لیے کیا لائے ہو؟ آپ نے کہا تھا کہ اگلی بار آپ کیلئے ایک تحفہ لائوں گا‘ ایسا کیا تحفہ ہے؟ جو آپ ہمیں دو گے۔‘‘جمال عبدالناصر نے پراعتماد انداز میں جواب دیا کہ آپ کیلئے واقعی ایک تحفہ لایا ہوں۔ سوویت یونین کے صدر نے اشتیاق سے پوچھا ’’وہ کیا تحفہ ہے؟۔‘‘
جمال عبدالناصر نے قاری عبدالباسط (رحمۃ اللہ علیہ) کو بلایا اور سوویت صدر کے سامنے کھڑا کیا اور کہا کہ ’’یہ تحفہ ہے‘‘ وہ حیران ہوا‘ اور پوچھنے لگا’’ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ ‘‘جمال عبدالناصر نے قاری عبدالباسط کو کہا ’’ان کو تلاوت قرآن سنائیں‘‘ اس وقت سوویت یونین کی تمام کابینہ اور بڑے بڑے وزراءاور مصر کا سرکاری وفد اس ہال میں بیٹھا تھا
قاری عبدالباسط ڈائس کے سامنے کھڑے ہوگئے (قاری عبدالباسط فرماتے ہیں کہ میں نے دل ہی دل میں دعاکی کہ اے اللہ! میں تیرے قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے کبھی پریشان نہیں ہوا‘ لیکن آج میرے سامنے تجھے نہ ماننے والے اور تیرے قرآن کاانکار کرنے والے بیٹھے ہیں اور جو اپنی طاقت کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں تو میری زبان میں ایسی تاثیر دے دے جو ان کے دلوں میں اتر جائے‘
کہتے ہیں کہ میں نے آنکھیں بند کرکے تلاوت شروع کی‘ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے کیسے پڑھا؟ کہاں سے پڑھا؟ ہاں اتنا ضرور معلوم ہے کہ جب میں نے آنکھیں کھولیں تو میرے آنسو بہہ رہے تھے۔) جب قاری عبدالباسط نے تلاوت شروع کی تو کچھ دیر بعد جمال عبدالناصر نے چپکے سے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے سوویت صدر کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے
جب انہوں نے پیچھے نظریں دوڑائیں تو مصر کے وفد کے ساتھ ساتھ پوری سوویت کابینہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے۔ جب تلاوت ختم ہوئی تو جمال عبدالناصر نے اپنے ہم منصب سے پوچھا کہ قرآن تو ہمارا ہے ….ہماری آنکھوں سے آنسو بہیں تو سمجھ آتا ہے‘ لیکن آپ کیوں رو رہے تھے؟ سوویت صدر کہنے لگے’’ جمال عبدالناصر سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آیا لیکن پتہ نہیں کیوں دل پگھل رہا ہے اور بے اختیار آنسو بہے جارہے ہیں۔‘‘