اگر کبھی اس بات کی ضرورت ہوتی کہ غلطی پر فوراً براہ راست متنبہ کر دیا جائے تو انتہائی نرمی او رنہایت دل سوزی او رمحبت کے انداز میں سمجھاتے، تاکہ مخاطب حق بات قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے، چناں چہ ایک حدیث شریف میں آتا ہے: ایک دیہاتی مسجد نبوی کے ایک گوشے میں پیشاب کرنے لگا،
مسجد میں موجود لوگوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا اور اس کو برا بھلا کہنے لگے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو خاموش کیا، حتی کہ جب وہ پیشاب سے فارغ ہو گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو پانی چھڑک کر صاف کرنے کا حکم دیا اور اس اعرابی کو بلا کر نہایت نرم لہجہ میں کہا: مسجد پیشاب کرنے کی جگہ نہیں ہے، مسجد میں الله کا ذکر کیا جاتاہے اور نماز ادا کی جاتی ہے، اس اعرابی پر آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق کا اتنا اثر ہوا کہ وہ کہتے ہیں: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہ مجھے ڈانٹا او رنہ ہی برا بھلا کہا ۔( سنن ابن ماجہ ،حدیث نمبر529) آپ صلی الله علیہ وسلم کا انداز لوگوں کے ساتھ کس قدر محبت آمیز اور مشفقانہ تھا، اس کا اندازہ حضرت انس کے بیان سے لگایا جاسکتا ہے، وہ کہتے ہیں:” میں دس برس تک حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں رہا، جو کام میں نے جس طرح بھی کر دیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ”یہ کیوں کیا؟“ اگر کوئی کام نہ کر سکا تو یہ نہیں فرمایا: ”یہ کیوں نہیں کیا؟ “ آپ صلی الله علیہ وسلم کا باندیوں اور خادموں کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان میں سے کبھی کسی کو نہیں مارا۔ حوالہ: (مسلم، باب کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم أحسن الناس خلقا، حدیث نمبر2309)